دو ہزار بارہ تبدیلی کا سال

مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف نے ایک بیان میں واضح کیا ہے کہ 2012ءملک میں تبدیلی کا سال ہے کارکن الیکشن کی تیاری کریں۔ اس کے علاوہ دیگر ذرائع سے بھی اس بات کی بازگشت سنائی دے رہی ہے کہ جون 2011ء کے بجٹ کے بعد ملک میں سیاسی سرگرمیاں تیز ہوں گی جن کا نتیجہ تبدیلی کی صورت میں نکلے گا۔ اکثر مبصرین کا بھی یہ کہنا ہے کہ یہ تبدیلی دسمبر 2011ء سے پہلے آئے گی اور اس کے نتیجے میں نئے انتخابات 2012ءکے شروع میں ہوں گے۔

مولانا فضل الرحمن کی سیاسی سرگرمیوں اور حکمت عملی کو بھی ممکنہ تبدیلی سے جوڑا جارہا ہے،اسی طرح متحدہ قومی موومنٹ کے متحرک ہونے کے عمل کو بھی مبصرین ملک میں آنے والی تبدیلی اور سیاسی جوڑتوڑ سے جوڑ رہے ہیں۔ بعض مبصرین ذوالفقار علی بھٹو کیس کے نظرثانی ریفرنس کو بھی پیپلزپارٹی کی جانب سے ووٹروں کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں کیونکہ 25مارچ 2011ء کو پیپلزپارٹی کی حکومت کے تین سال مکمل ہوئے اور اس وقت پیپلزپارٹی کی حکومت چوتھے سال میں چل رہی ہے، 37مہینوں میں پیپلزپارٹی کی حکومت ملک میں عوام کو وہ ریلیف فراہم نہ کرسکی ہے جس کا اُس نے اپنے منشور میں اعلان کیا تھا بلکہ مسائل میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق 25مارچ 2008ء سے اب تک مہنگائی میں 50 سے 300فیصد تک اضافہ ہوا ہے اور غربت کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے یہی صورت حال بے روزگاری، بدامنی اور دیگر مسائل کی ہے۔

وفاقی وزیرداخلہ عبدالرحمن ملک کی جانب سے 8اپریل کو سینیٹ میں ایک تحریری سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ گزشتہ 3 سال کے دوران ملک میں بم دھماکوں اور خود کش حملوں کے2488 واقعات ہوئے جن میں3169 افراد جاں بحق جبکہ 9479 زخمی ہوئے، اسی عرصے کے دوران ان واقعات میں ملوث406 ملزمان گرفتار ہوئے جن میں 222 ملزمان عدالتی احکام اور دیگر وجوہ کی بنا پر رہا کر دیے گئے ۔بم دھماکوں اور خود کش حملوں کے سب سے زیادہ 1669 واقعات بلوچستا ن میں ہوئے جبکہ سب سے زیادہ1524 افراد خیبر پختونخوا میں جاں بحق ہوئے، ان واقعات میں زخمی ہونے والے 9479 افراد میں سے ساڑھے 4 ہزار خیبر پختونخوا میں بم حملوں میں زخمی ہوئے، بم دھماکوں میں ملوث ہونے کے الزام میں 3 سالوں کے دوران پنجاب سے 86 ملزمان ، سندھ سے 18، خیبر پختونخوا سے سب سے زیادہ 243 جبکہ اسلام آباد سے 23 ملزمان گرفتار ہوئے۔ اس طرح 3 سالوں میں پنجاب سے بم حملوں کے الزام میں گرفتار 36 ملزمان رہا ہوگئے، خیبر پختونخوا سے 172 جبکہ اسلام آباد سے 14ملزمان رہا کیے گئے۔اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں بدامنی کس حد تک پھیلی اور پیپلزپارٹی عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوئی عام انتخابات میں ممکنہ شکست اور عوامی ردعمل سے بچنے کے لیے پیپلزپارٹی کی قیادت کو کسی متاثر کن نعرے کی ضرورت تھی جو انہوں نے ذوالفقارعلی بھٹو کے کیس نظرثانی ریفرنس کی صورت میں عوام کو دینے کی کوشش کی ہے، اسی طرح بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی رپورٹ بھی الیکشن کے قریب قریب شائع کردی جائے گی تاکہ انتخابات میں اس کا بھی بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکے۔

الیکشن کے حوالے سے صدر آصف علی زرداری نے4ر اپریل 2011ءکو گڑھی خدابخش میں اپنی تقریر کے دوران کہا کہ ہماری حکومت پانچ سال پورے کرے گی بعض لوگ ملک میں ٹیکنوکریٹ حکومت کو لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صدر کے ان الفاظ سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ کوئی ایسی قوت ہے جو ملک میں تبدیلی چاہتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ساری سیاسی اور جمہوری قوتیں متحرک دکھائی دے رہی ہیں لیکن اس سارے عمل میں مذہبی قوتیں منتشر اور ایک دوسرے سے متنفر نظر آرہی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں 2012ءیا اس سے پہلے تبدیلی کی ضرورت کیوں ہے۔ دراصل مارچ 2012ءمیں سینیٹ کے 50 ارکان اپنی6 سالہ مدت مکمل کر کے ریٹائر ہو رہے ہیں جن کے انتخابات فروری 2012ء میں ہوں گے ان 50نشستوں میں سے، 22سے24 نشستیں پیپلزپارٹی کو ملنے کا امکان ہے جبکہ خالی ہونے والی نشستوں میں پی پی پی کی صرف6نشستیں ہیں اس طرح پیپلزپارٹی مجموعی طور پر ایوان کی 100میںسے 43سے45 نشستیں حاصل کر کے سینیٹ میں کم ازکم آئندہ3 سال کے لیے سب سے بڑی جماعت بن کر ابھرے گی اور اگر نئے انتخابات کے نتیجے میں آنے والی پارلیمنٹ بھی موجودہ پارلیمنٹ کی طرح رہی تو پھر آئندہ 6سال کے لیے سینیٹ میں پیپلزپارٹی کی پوزیشن بہت ہی مستحکم رہے گی۔مسلم لیگ(ن) کی ایک نشست خالی ہوگی اور اس کو 6سے7نشستیں ملنے کا امکان ہے مسلم لیگ(ق) کی 21میں سے20نشستیں خالی ہونگی اور ان کو 2 سے 3 نشستیں ملنے کا امکان ہے ، جمعیت علماءاسلام (ف) کی 7نشستیں خالی ہونگی جبکہ ان کو 3سے4نشستیں ملنے کا امکان ہے ،جماعت اسلامی، جمہوری وطن پارٹی اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کا پارلیمنٹ سے مکمل صفایا ہوگا۔بعض مقتدر قوتیں پیپلزپارٹی کی ایوان بالا میں اس پوزیشن کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، پیپلزپارٹی کو ایوان بالا میں واضح پوزیشن حاصل کرنے سے روکنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ فروری2012ءسے قبل ملک میں موجودہ نظام کو تبدیل کیا جائے تاکہ سینیٹ کے مارچ میں ہونے والے انتخابات نئے انتخابات تک ملتوی ہوجائیں۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ بعض قوتوں پر ان جماعتوں کا بھی دباؤ ہے جن کی پارلیمانی قوت کا مارچ 2012ءمیں خاتمہ ہوگا کیونکہ ان جماعتوں نے 2008ءکے عام انتخابات میں بائیکاٹ کیا جس کی وجہ سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ان کی پارلیمانی قوت موجود نہیں صرف سینیٹ میں یہ جماعتیں چند نشستوں کے ساتھ موجود ہیں ان میں جماعت اسلامی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور بعض چھوٹے گروپ شامل ہیں۔

اس وقت جو جماعتیں ایوانوں کے باہر ہیں یا پھر پیپلزپارٹی سے نظریاتی مخالفت رکھتی ہیں ان کی خواہش ہے کہ ملک میں تبدیلی آئے اس تبدیلی کے لیے جون 2011ءکے بعد کی صورت حال کو انتہائی اہم قرار دیا جارہا ہے ویسے بھی پیپلزپارٹی کی حکومت اس وقت کمزور پوزیشن میں ہے آہستہ آہستہ اس کے اتحادی ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ اگرچہ حکومت کی مضبوط اتحادی جماعت ہے لیکن گزشتہ ایک سال میں متعدد مرتبہ اس جماعت نے پیپلزپارٹی سے اپنے اختلافات کا نہ صرف اظہار کیا بلکہ حکومت سے علیحدگی کا اعلان بھی کیا تاہم بعدازاں انہیں منایا گیا اب کی مرتبہ بھی سندھ کے سابق وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی بیرون ملک روانگی کے اعلان اور چھٹی کے بعد ان کے تلخ اور تندوتیز بیانات سے حالات میں کافی کشیدگی نظر آتی ہے ،اس لیے مبصرین کا کہنا ہے کہ اب پیپلز پارٹی کے لیے بہت مشکل ہوگا کہ وہ اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے کلی طور پر متحدہ قومی موومنٹ پر انحصار کرے کیونکہ دونوں جماعتوں کے مابین خلیج مزید وسیع ہوتی جارہی ہے بالخصوص ایسی صورت حال میں جب صدر پاکستان آصف علی زرداری کے رفیق خاص اور پی پی سندھ کے سینئر نائب صدر ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے بیانات نے صورت حال کو مزید پیچیدہ بنایا۔ حالات سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ لاہور کے جلسے کے بعد متحدہ قومی موومنٹ نہ صرف اپنی نئی حکمت عملی کا اعلان کرے گی بلکہ پیپلزپارٹی کو ذوالفقار مرزا کے بیان کے حوالے سے واضح موقف اختیار کرنے یا پھر اس کے بعد دونوں جماعتیں ایک دوسرے سے اپنی راہیں الگ کرنے پر مجبور ہوں گی جس کے بعد پیپلزپارٹی کے لیے ایوان میں اکثریت میں برقرار رکھنا مشکل ہوگا تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کی یہ خواہش ہے کہ بجٹ کی منظوری تک اتحادی جماعتوں کو ساتھ رکھا جائے اسی لیے کئی معاملات پر پیپلزپارٹی مفاہمت پر مجبور ہے۔

ہم جب مجموعی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ ملک میں 2011ءکے آخر تک یا پھر 2012ءکے ابتدائی تین ماہ میں تبدیلی یقینی ہے جس کے لیے مختلف نظریاتی اور سیاسی گروپ صف بندی میں مصروف ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ملک میں مذہبی جماعتیں آج بھی اس ساری صورت حال کے بعدبھی منتشر اور ایک دوسرے سے متنفر نظر آتی ہیں جس کا نقصان دینی قوتوں کو ہی ہوگا اور فائدہ سیکولر قوتیں حاصل کرنے کی کوشش کریں گی ہونا تو یہ چاہیے کہ دینی قوتیں2008ءکی عبرتناک شکست اور ملک میں دینی قوتوں کے خلاف ہونے والی سازشوں سے سبق حاصل کر کے اپنے وقتی مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے دینی مفادات کے لیے متحد اور یکجا ہوجائیں تاکہ عالمی اور مقامی سامراج سے مقابلہ کیا جاسکے یہی ملک و قوم کے لیے بہتر ہے۔
Abdul Jabbar Nasir
About the Author: Abdul Jabbar Nasir Read More Articles by Abdul Jabbar Nasir: 136 Articles with 97438 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.