امن ! مگر دستار نہ گر پڑے

امن دنیا کے ہر انسان کی خوا ہش ہے اور دیکھا جائے تو اخلاقیات کے تمام سبق چاہے وہ جس مذہب کے ہوں اسی امن کی ترویج کے لیے ہی ہیں۔ کوئی بھی ملک ہو اس کے عوام کی پہلی خوا ہش ایک اچھی اور آسان زندگی گزارنا ہو تا ہے۔ یہی حال پاکستانی عوام کا بھی ہے اور گزشتہ برسوں سے تو وہ جس طرح سے بد امنی ، دہشت گردی اور قتل و غارت گری کا شکار ہیں اسکے بعد تو یہ خواہش مزید شدت اختیار کر گئی ہے بلکہ یہ پاکستانیوں کا خواب بن گیا ہے کہ ایسا بھی کوئی وقت ہوگا کہ وہ بے دھڑک اپنے ہی ملک میں گھوم سکیں گے مائیں اپنے بچوں کو بے فکری سے سکول اور مسجد بھیج سکیں گی۔ کھیل کے میدان آباد ہو سکیں گے تجارت باعث رزق و برکت ہو گی لیکن اس خواب کی تعبیر کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بیرونی قوتیں ہیں پاکستان کے عوام انہی قوتوں کو جارحانہ ارادوں کے سبب ہی اپنی فلاح و بہبود پر صرف ہونے والی بہت بڑی رقم کو فلاحی کاموں کی بجائے دفاعی ضرورت پر خرچ کرنے پر مجبور ہیں جس کا احساس ہر شخص کو بھی ہے اور ہر ذمہ دار کو بھی لیکن مسئلہ جب زندگی اور موت کا ہو تو ظاہر ہے زندگی کی سانسیں بحال رکھنے کے لیے ہر قیمت پر جدوجہد کی جاتی ہے یہی حال پاکستان کا ہے جسے بد قسمتی سے اپنی سرحد پر ہی ایک ایسے دشمن کا سامنا ہے جس کی نیت کبھی پاکستان کے لیے اچھی نہیں ہو ئی قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہر موقع پر بھارت ہماری جڑوں کو کاٹنے میں مصروف ہے اور مستقبل قریب میں اس کا اپنا رویہ تبدیل کرنے کا کوئی ارادہ نظر بھی نہیں آتا اور مسئلہ یہ ہے کہ یہ رویہ عوام کی سطح سے لے کر اعلیٰ حکومتی سطح تک موجود ہے اگر چہ یہی حال پاکستان اور پاکستانیوں کا بھی ہے لیکن پاکستانیوں کا یہ رویہ زیادہ تر بھارتی رویوں کا ردعمل ہوتا ہے اور اس رویے کی جڑیں بھی بھارت کی پیدا کردہ ہیں کشمیر کا مسئلہ ہو یا پانی کا اس کا ذمہ دار بھارت ہی ہے اور دنیا کی کوئی عدالت اِن مسائل کے لیے پاکستان کو مور دِ الزام نہیں ٹھہرا سکتی ۔پاکستان لاکھ خواہش کے باوجود ان مسائل کو پر امن طور پر حل نہیں کروا سکتا جب تک بھارت نہ چاہے ۔ہم اپنی طرف سے جتنی بھی امن کی فاختائیں اڑائیں جب تک بھارت کا رویہ مثبت نہ ہو جائے کچھ نہیں ہو سکتا اور اگر ایسا ہو جائے تو ظاہر ہے برصغیر کے تقریباََ ڈیڑھ ارب انسان سکھ کا سانس لے لیں گے پھٹے پرانے کپڑے پہنے اس خطے کے باسی بقا کی جنگ کی فکر سے آزاد ہو جا ئیں مگر شرط وہی بھارت کی رضا ۔لیکن آج کل جو ایک ہوا پاکستان میں چلی ہے وہ ہے ہر صورت، ہر قیمت پر امن کی ہوا چلانے کی خواہش چاہے ایسا کوئی جھونکا ادھر سے نہ آئے اور اس ساری تگ و دو کے بعد بھی بھارت کی طرف سے کسی ایسی خواہش کا اظہار نہیں ہو رہا بلکہ وہ مسلسل اپنی فطرت پر اڑا ہوا ہے اور پاکستان سے متعلق منفی پروپیگنڈے میں نہ صرف حکومتی سطح پر مصروف ہے بلکہ میڈیا اور عوام دونوں جگہوں پر بھی پاکستان کے خلاف زہر اگلتا رہتا ہے اور امن کی آشا کے نام پر دو چار لو گوں کو پاکستان کے دورے پر بھیج کر جنہیں ہمارے کچھ بھارت نواز لوگ اور چینلز وی آئی پی حیثیت دے کر انہیں اس طرح اہم بنا دیتے ہیں جیسے بھارت کا صدر یا وزیراعظم پاکستان آیا ہو اور پاکستان کے لیے انتہائی خیر سگالی کے جذبات لایا ہوں جبکہ دوسری طرف پاکستانیوں کے ساتھ اسکے الٹ سلوک کیا جاتا ہے جس کا ثبوت راحت فتح علی خان کے ساتھ کیا گیا سلوک ہے جو وہی سُر لے کر بھارت گئے جس کی بعض لوگوں کے مطابق کوئی سرحد نہیں ہوتی اور وہ کہتے ہیں کہ ’’یہ سر بلائے ہیں جب تم ادھر نہیں آتے‘‘ ۔ ابھی کرکٹ ٹیم ہی کو لیجئے کہ انڈین میڈیا نے کس طرح اسے بدنام کرنے کی کوشش کی اور انتہائی گرے ہوئے الفاظ سے اس کا ذکر کرتے رہے یہاں تک کہ پاکستان کر کٹ ٹیم کی پریکٹس کے انداز کو ان کی گراؤنڈ میں با جماعت نماز کو غرض ہر چیز کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ایک جارحانہ انداز اختیار کیے رکھا گیا آئی پی ایل کے دوران پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ جو کچھ کیا گیا تھا وہ بھی ابھی سب کو یاد ہے۔

اب اگر امن کی خواہش اور آشا لیے ہم ہی امن کی پتنگیں اڑا تے رہیں کہ آسمان تو سب کا سا جھا ہے اور وہاں سے مسلسل تذلیل ہوتی رہے تو ظاہر اسے ہماری کمزوری ہی سمجھا جائے گا امن کی خواہش بجا مگر۔
سر کو جھکا کے ملنے میں کیا حرج ہے مگر
اتنا نہ جھکا سر کو کہ دستار گر پڑے

دشمن بڑھائے ہاتھ تو تم بھی بڑھاؤ ہاتھ
ہاں مگر یہ نہ ہو کہ ہاتھ سے تلوار گر پڑے

کیونکہ امن کے لیے طاقت کا توازن پہلی شرط ہے اس وقت بھارت اپنا دفاعی بجٹ 34 ارب ڈالر تک پہنچا چکا ہے اور ہتھیاروں کے کئی سودے زیر تکمیل ہیں مسلسل جارحانہ جنگی حکمت عملیاں ترتیب دی جا رہی ہیں جو صرف اور صرف پاکستان کے خلاف ہو تی ہیں اگرچہ اپنا دفاع ہر ایک کا حق ہے لیکن دوسروں کا امن تباہ کرنے کا حق کسی کو نہیں جس کا ارتکا ب بھارت مسلسل کر رہا ہے۔ فاٹا اور بلوچستان میں بھارت کی مداخلت سب ہی جانتے ہیں اور اپنی طویل سرحد کے علاوہ وہ افغانستان کے راستے بھی پاکستان میں مسلسل دراندازی کر رہا ہے اور اپنی دشمنی اور بغض کو ہر راستے سے نکالنے میں مصروف ہے را کو تو بنایا ہی پاکستان کے خلاف گیا ہے اور وہ اب یہ کام محاورۃََ نہیں حقیقتاََ خیبر سے کراچی تک بڑی تند ہی سے کر رہا ہے پھر امن کیسے قائم ہوسکتا ہے امن کبھی بھی ایک کی خواہش کے مطابق نہیں ہو سکتا اسکے لیے دو طرفہ خواہش ضروری ہے اور جب تک بھارت یہ خواہش نہ کرے پاک بھارت تعلقات بہتر نہیں ہو سکتے کیونکہ جارح بھی وہ ہے اور قابض بھی وہ کشمیر کا قبضہ چھوڑ دے ،آبی جارحیت ختم کر دے ،واہگہ کے ادھر لاشیں نہیں زندہ انسان واپس کرے، پاکستان میں دہشت گردی بند کر دے، خیبر سے لے کر کراچی تک خون خرابے کا منصوبہ ختم کر دے، پاکستان کو ختم کرنے کی خواہش ختم کر دے تو امن خود بخود قائم ہوجائے گا وہ لوگ اور چینلز اگر بھارت سے یہ ساری ضمانتیں حا صل کر لے تو امن خود بخود ہر پاکستانی کی خواہش بن جائے گا۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 508718 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.