ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے

مقولہ مشہور ہے کہ انسان کو غیرت مند بن کر زندگی بسر کرنی چاہئے۔ نہ کہ بے غیرت بن کر اور اپنی آبرو کی حفاظت اپنی جان سے بڑھ کر کرنی چاہئے۔ نہ کہ چند ٹکوں کی خاطر اپنی آبرو کو نیلام کر کے بے آبرو ہوا جائے۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ وطن عزیز کے حکمران اس کے بالکل برعکس زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اگر ان کے کردار کو مدنظر رکھا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ یہی لوگ ہیں جو ”غیرت اٹھ گئی تیمور کے گھر سے“ کے مصداق ہیں۔ آج کے دور میں انہی حکمرانوں کو اس تیمور کے نام سے یاد کیا جاسکتا ہے۔ جس کے گھر سے غیرت رفو چکر ہو چکی ہے۔ ایک وقت تھا کہ مسلمان عزت اور غیرت کی زندگی بسر کیا کرتا تھا۔ لیکن اس وقت مسلمان فقط نبی آخر الزماں سیّدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام تھا اور فقط ایک اللہ کو ماننے والا تھا۔ لیکن اب یہ مسلمان محمد عربی علیہ السلام کی غلامی سے نکل کر یہود و نصاریٰ کی غلامی اختیار کر چکے اور ایک اللہ کی حکمرانی کو چھوڑ کر عوام کی حکمرانی کے قائل ہو چکے ہیں۔

انسان کو جب کسی کا غلام بننا ہو تو کم از کم یہ تو دیکھے کہ اس کا کردار کیا ہے؟ آج ساری کائنات سے اعلیٰ و ارفع شخصیت کو چھوڑ کر جب انبیاء علیہ السلام کا تمسخر اڑانے والی قوم یہود کی غلامی اختیار کی جائے گی۔ تو پھر ہم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب بھی مسلط ہوگا۔ اسی غلامی کا نتیجہ ہی تو ہے کہ آئی ایم ایف کے دباﺅ پر جنرل سیلز ٹیکس کا نفاذ کر کے عوام کو بھوک و افلاس کے گھپ اندھیروں میں پھینکنے کا پروگرام ترتیب دے دیا گیا ہے اور اسی غلامی کا ہی نتیجہ ہے کہ ہمارے نااہل حکمرانوں کی کرمفرمائیوں سے ریمنڈ ڈیوس جیسا دہشت گرد نہ صرف رہا ہو چکا ہے بلکہ اس کی رہائی کی خوشی میں امریکیوں نے جشن مناتے ہوئے پاکستانی عوام پر ڈرون حملے کر کے بے گناہ عوام کی مزید نعشوں کا تحفہ پیش کیا ہے۔

ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے ذریعے ایک طرف تو اسلام دشمن حکمرانوں نے اپنے امریکی آقاﺅں کو بھرپور طریقے سے خوش کرنے کی کوشش کی ہے تو دوسری طرف اسلامی نظام عدل کے متعلق بھی غلط فہمیاں پیدا کرنے کا انتظام کر دیا ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی نظام عدل میں مقتولین کے ورثاء کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ قاتل سے قصاص لیں یا خون بہا یعنی دیّت لے کر معاف کر دیں یا ویسے ہی معاف کر دیں۔ اب کہا جا رہا ہے کہ مقتولین کے ورثاء نے دیّت لے کر معاف کر دیا ہے اگر اس بات کو سچ بھی مان لیا جائے تو پھر بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ریمنڈ ڈیوس فقط ان دو قتلوں میں ملوث تھا، یا کہ وہ ریاست کا بھی مجرم تھا۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ اس سے دینی و جہادی تنظیموں خصوصاً جماعة الدعوة کے مراکز کے نقشے اور تصویروں سمیت کئی اہم ترین حساس دستاویزات برآمد ہوئیں۔ جن میں حساس مقامات کی تصویریں اور نقشے بھی تھے۔ اگر یہ سب کچھ تھا تو کیا حکومت پاکستان نے اس پر جاسوسی، تخریب کاری اور دہشت گردی کے مقدمات درج کئے، یا اس کے برعکس وفاقی حکومت شروع سے ہی اسے رہا کرنے کا پروگرام ترتیب دے رہی تھی؟ کیا حکومت پاکستان نے عباد الرحمن کو کچلنے والی گاڑی اور اس کے ڈرائیور اور ریمنڈ ڈیوس کی مدد کو آنے والے مزید امریکیوں کی حوالگی کا حکومت امریکہ سے مطالبہ کیا؟ اگر کیا تو حکومت امریکہ کے جواب کے بعد کیا اقدامات کیے۔ مزید یہ کہ اگر ایک پاکستانی شہری مقدمہ قتل میں ملوث ہو تو اس کے مقدمہ قتل میں ورثاء کے معاف کر دینے کے بعد کسی ایک پاکستانی کو بھی آج تک اس طرح قانونی کاروائی مکمل کرتے ہوئے ایک گھنٹہ بعد ہی رہا کیا گیا؟ کیا امریکی شہری پاکستانی شہریوں سے زیادہ افضل ہیں؟ اور ریمنڈ ڈیوس کا نام ای سی ایل میں شامل ہونے کے باوجود فوری طور پر وہ کیسے ملک سے باہر چلا گیا؟ کیا وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک صاحب ان سوالوں کا جواب دینا پسند فرمائیں گے؟

سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے فوری بعد ہیلری کلنٹن نے نہ صرف پاکستانی حکمرانوں کا شکریہ ادا کیا۔ بلکہ ایک پریس کانفرنس میں یہ اعلان کیا کہ ہم نے خون بہا یا دیّت کی رقم بالکل نہیں دی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ رقم کس نے ادا کی اگر یہ رقم حکومت پاکستان نے ادا کی ہے۔ تو اسے اس بات کا حق کس نے دیا ہے کہ پاکستانیوں کے خون پسینے کی کمائی سے دیے گئے ٹیکس میں سے خرچ کرے۔ کیا یہ ساری باتیں ظاہر نہیں کرتی کہ ہمارے یہ عقل و خرد سے عاری حکمران شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ثابت ہوئے ہیں۔

محترم قارئین! یہ جو ساری صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ اس کا ایک سبب تو ہماری بد اعمالیاں ہیں کہ نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا ہے جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے۔ اللہ رب العزت اس قوم پر ظالم حکمران مسلط کر دیتا ہے مزید یہ کہ جب کوئی قوم اللہ اور اس کے نبی کے ساتھ کیے ہوئے عہد کو توڑتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس قوم پر ایسے لوگ مسلط کر دیتا ہے۔ جو اُن میں سے نہیں ہوتے اور ان کے تمام وسائل اور ذخائر پر قبضہ کرلیتے ہیں۔ (بحوالہ سنن ابن ماجہ کتاب الفتن)

محترم قارئین! کیا آج ہمارے معاشرے میں ناپ تول کی کمی عام نہیں ہوچکی اور اس طرح ہم نے جو کلمہ پڑھتے وقت عہد کیا تھا کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کو اپنا معبود، رزق دینے والا، حاجت روا اور مشکل کشاء نہیں مانیں گے اور حدود اللہ کی پاسداری کریں گے اس کو توڑ نہیں دیا اور اسی طرح نبی آخر الزماں علیہ السلام کے علاوہ کسی کی پیروی نہیں کریں گے۔ لیکن اس کے برعکس آج ہم نے اپنے اپنے مولویوں، پیروں، بزرگوں اور سیاسی لیڈروں کی باتوں کو اللہ اور اس کے نبی کے احکامات سے ترجیح دینا شروع کر دی تو نتائج سامنے ہیں۔ جب ہم نے دین اسلام کو مکمل ضابطہ حیات سمجھا تھا۔ اس وقت اللہ رب العزت نے ہمیں ایسے حکمران نصیب کیے تھے جو دن رات عوام کی خدمت عبادت الٰہی اور اپنا فرض منصبی سمجھ کر کرتے تھے اور ان کی راتیں مصلےٰ پر اپنے رب کے سامنے قوم کی بہتری اور اپنی ثابت قدمی کے لئے گڑ گڑاتے اور مناجات کرتے گزرتی تھیں۔ آئیے ذرا آپ کو ایک اسلامی حکمران کی زندگی کا ہلکا سا عکس دکھاتا چلوں۔ خواجہ بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ جب فوت ہوئے تو انہوں نے اپنی موت سے قبل وصیت کی کہ میری نماز جنازہ وہ شخص پڑھائے جس نے جوانی ہونے کے باوجود کسی غیر عورت کی طرف شہوت کی نگاہ سے ساری زندگی نہ دیکھا ہو اور جس نے سن بلوغت کے بعد ساری زندگی نماز تہجد ترک نہ کی ہو اور جس نے اپنی زندگی میں جب سے اس پر نماز فرض ہوئی ہے۔ تکبیر اولیٰ نہ چھوڑی ہو۔ کیا آپ جانتے ہیں وہ شخص کون تھا؟ جس میں یہ تینوں خوبیاں موجود تھیں اگر نہیں پتہ تو ذہین نشین کر لیجئے کہ وہ مسلم حکمران شمس الدین تغلق خلجی تھا۔ ایسے حکمران اس وقت میسر آتے ہیں جب عوام اپنے رب کے ساتھ کیے گئے عہد کی پاسداری کرتے ہوں۔

محترم قارئین! آئے روز آئی ایم ایف کے کہنے پر نئے سے نیا ٹیکس اور مہنگائی کا یہ طوفان اور حکمرانوں کی یہود و نصاریٰ کی غلامی کا ایک سبب ان سے سود پر قرضے لینا بھی ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے تو قرآن مجید کی سورة البقرہ میں سود لینے والے اور دینے والے دونوں کو اللہ اور اس کے ساتھ جنگ کرنے والا قرار دیا ہے۔ جو رب کائنات سے جنگ کرنے والے اور یہود کی غلامی کرنے والے ہوں اور پھر انہی سے قرضے لینے والے ہوں تو وہ ان کے احکامات نہیں مانیں گے تو اور کہا کریں گے۔

شیخ سعدی رحمة اللہ علیہ نے ایک حکایت بیان کی جو کہ اسی تناظر میں میں ہے آئیے ذرا اسے ملاحظہ کریں اور پھر سچے دل سے اپنے رب سے عہد کریں کہ یااللہ اس سے قبل جو کچھ ہو چکا سو ہو چکا وہ سب کچھ تُو معاف کر دے اور آئندہ فقط تیرے ہی احکامات پر عملدرآمد اور سچے دل سے تیرے نبی کی پیروی کرنے کی مکمل کوشش کریں گے۔ اس لیے تو ہمارے ملک پر رحم فرما اور ہمیں اسلام اور پاکستان سے مخلص حکمران عطا فرما۔ آمین

اب حکایت ملاحظہ ہو کہ ایک جواں مرد کو جنگ تا تار میں زخم آئے جو اس کے لئے سخت تکلیف دہ تھے۔ اس کے ایک ساتھی نے مشورہ دیا کہ شہر کے فلاں دکاندار کے پاس ایک دوائی ہے جو تیرے زخموں اور تیری تکلیف کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہے۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ تیرے مانگنے سے وہ تجھے دے دے مگر لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ دکاندار بڑا کنجوس مشہور ہے۔ سچ ہے کہ اس کے دسترخوان پر روٹی کے بجائے سورج ہوتا تو قیامت تک دنیا میں کوئی بھی شخص روشن دن نہ دیکھ پاتا۔ اپنے دوست کی بات سن کر زخمی جوان کہنے لگا کہ اگر میں اس سے وہ دوائی مانگوں تو وہ دے یا نہ دے اور اگر وہ دے بھی دے تو ہو سکتا ہے کہ وہ دوائی میرے لئے فائدہ مند نہ ہو گویا کہ اس سے دوائی مانگنا زہر قاتل لینا ہے۔ کسی نے کیا خوب عقل کی بات کی ہے کہ کمینوں سے خوشامد کر کے تو نے جو کچھ مانگ لیا بدن میں تو تو نے اس کا فائدہ پایا۔ لیکن روح کو گھٹا لیا۔ دانشوروں کا قول ہے کہ اگر آب حیات آبرو عزت کے بدلے بکے تو کوئی باشعور اسے ہرگز نہ خریدے گا۔ اس لیے کہ ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے۔ کسی دانشور نے کیا خوب بات کہی ہے کہ اگر اچھی عادت والے کے ہاتھ سے تو کڑوی دوا لے کر پی لے یہ بہتر ہے۔ بہ نسبت کسی بد مزاج کے ہاتھ سے شیرینی کھا کر مزہ اٹھانے سے۔
عبیداللہ لطیف Ubaidullah Latif
About the Author: عبیداللہ لطیف Ubaidullah Latif Read More Articles by عبیداللہ لطیف Ubaidullah Latif: 111 Articles with 200531 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.