لیبیا پر طاغوتی اتحاد کا حملہ

امریکا، فرانس، برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے امت مسلمہ کے خلاف نئی دہائی کی نئی شیطانی کاروائی کا آغاز کردیا ہے جس کے لیے انہوں نے ایک اور اسلامی ملک لیبیا کا انتخاب کیا۔ اگر ہم ماضی کو دیکھیں تو اس طاغوتی اتحاد نے ہر دہائی میں کسی نہ کسی اسلامی ریاست یا خطے کو ملیامیٹ کرنے یا پھر اسے غلام بنانے کے لیے کاروائیاں کیں، دور نہیں جاتے ،ماضی قریب میں ہی افغانستان، عراق، خلیجی ممالک سمیت دنیا کے مختلف خطوں میں مسلمانوں کے خلاف ہونی والی اسلام دشمن کاروائیاں اس کی مثال ہیں۔ لیبیا میں شروع کی جانی والی کاروائی کے لیے جواز حکومت کی تبدیلی کے مطالبے پر احتجاج کرنے والے عناصر کے خلاف کرنل قذافی کی فوجی کاروائی کو بنایا گیا ہے جس کی بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو ایک مرتبہ پھر یہودی اور عیسائی لونڈی کے طور پر مسلمانوں کے خلاف کاروائی کے لیے استعمال کیا گیا۔ حالانکہ اسی سلامتی کونسل کی درجنوں ایسی قراردادیں ہیں جو مسلمانوں کے حق میں جاتی ہیں،مگر ان پر آج تک عملدرآمد نہیں ہوا۔

کشمیر میں بھارتی فوج تقریباً 65سال سے وہی کچھ کر رہی ہے جو لیبیا کی سرکاری افواج نے اب کرنا شروع کیا تھا، اب تک کشمیر میں لاکھوں افراد اپنی جانوں کی قربانیاں دے چکے، کھربوں روپے کے مالی نقصانات ہوئے، لاکھوں افراد نے نقل مکانی کی، لاکھوں بے روزگار ہوئے ،اسی طرح لاکھوں معذور ہوئے ،ہزاروں خواتین بیوہ ہوئیں، لاکھوں بچے یتیم ہوئے لیکن آج تک کشمیر کے حوالی سی اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد یقینی بنانا دور کی بات اب کوئی ان قراردادوں کا ذکر ہی نہیں کر تا ۔ امریکا جو اس طاغوتی اتحاد کا سرغنہ بنا ہوا ہے، جب بھی تنازع کشمیر کے حوالے سے بات کی جاتی ہے تواس کا کہنا ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ پاک بھارت باہمی بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے ہم مداخلت نہیں کریں گے۔

جب انڈونیشیا کے خطی مشرقی تیمور میں مسلمانوں کے خلاف عیسائیوں کی آزادی کی بات آئی تو اقوام متحدہ نے چند ہفتوں میں نہ صرف اپنی قرارداد پر رائے شماری کرائی بلکہ مشرقی تیمور کو الگ سلطنت کے طور پر تسلیم بھی کیا گیا۔خود آئرلینڈ میں جب برطانیہ کے خلاف عوام نے جدوجہد شروع کی، چالیس سال گزرنے کے بعد بھی آئرلینڈ کے عوام کی آواز پر اقوام متحدہ اور طاغوتی قوتوں نی کان نہ دھرے۔ فلسطین ایک ایسی ریاست ہے جو سینکڑوں سال سے مسلمانوں کی پاس رہی ہے ،یہودیوں کو یہاں پر پناہ گزین کے طور پر بٹھایا گیا بعدازاں انہی یہودیوں نے طاغوتی قوتوں اور اقوام متحدہ سے مل کر نہ صرف مسلمانوں کو اپنی سرزمین سے بے دخل کردیا بلکہ ہزاروں مسلمانوں کو شہید بھی کیا۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔جس روز ان طاغوتی قوتوں کی لیبیا میں کاروائی کے حق میں ہمارے بعض دانشوروں کے کالم چھپ رہے تھے ،اس وقت بھی فلسطین میں اسرائیلی دہشت گردی کا سلسلہ جاری تھا اور کم ازکم آٹھ مسلمان اسرائیلی درندوں کی فضائی کاروائی کا نشانہ بن کر شہید ہوچکے تھے ۔اقوام متحدہ آج تک اسرائیل کے خلاف کسی قرارداد پر عملدرآمد نہیں کراسکی کیونکہ اسرائیل ایک یہودی ملک اور مسلمانوں کا دشمن ہے جبکہ اقوام متحدہ اسلام دشمن قوتوں کی محافظ عالمی تنظیم بن چکی ہے۔ کہیں انہیں مسلمانوں کے خلاف کاروائی کے لیے عراق میں کیمیائی ہتھیار نظر آتے ہیں تو کہیں نائن الیون کے نام پر افغانستان میں درندگی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، کہیں آزادی کے نام پر سوڈان کو تقسیم کیا جاتا ہے تو کہیں مشرقی تیمور کو اسلامی ریاست سے الگ کیا جاتا ہے، کہیں تحفظ کے نام پر مشرق وسطیٰ پر اپنے طاغوتی قوتوں کا تسلط قائم کیا جاتا ہے تو کہیں نام نہاد دہشت گردی کی جنگ کے نام پر پاکستان کو میدان جنگ بنایا جاتا ہے ۔

لیبیا میں ہونے والی طاغوتی کاروائی بھی ماضی کی انہی اسلام دشمن منصوبوں کا تسلسل ہے جنہیں کسی صورت صحیح تسلیم نہیں کیا جاسکتا ، جہاں تک لیبیا اور عرب دنیا میں اٹھنے والی عوامی تحریک کا تعلق ہے ،یہ بات کسی حد تک صحیح ہے کہ کئی ممالک میں عوام اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کی وجہ بھی بعض ممالک میں حکمرانوں کا ظلم وجبر تھا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ عوامی تحریک کے نام پر بیرونی قوتیں کسی ملک کی سا لمیت آزادی اور قومی حمیت پر حملہ کریں، اس ملک کی سرحدوں کو پامال کیا جائے۔ اگرچند عناصر کے مطالبے پر کسی آزاد، خودمختار ملک پر قبضہ کرنا جائز قرار پائے تو پھر شاید ہی دنیا کا کوئی ملک یا سلطنت محفوظ رہ سکے گی، کیونکہ شاید ہی دنیا کا کوئی ایسا ملک ہو جہاں پر حکومت مخالف یا آزادی پسند عناصر موجود نہ ہو ں۔یہی صورت حال لیبیا کی بھی ہے، لیبیا کے عوام اگر احتجاج کر رہے ہیں تو وہ اپنے ملک کو طاغوتی قوتوں کے ہاتھ میں دینے کے لیے نہیں وہ صرف حکومت کی تبدیلی چاہتے ہیں ۔اس کا کیا ثبوت ہے کہ تبدیلی چاہنے والوں کی تعداد مجموعی طور پر اکثریت میں ہے؟ کیا اقوام متحدہ نے کوئی رائی شماری کروائی؟ یقیناً ایسا نہیں ہوا ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اقوام متحدہ دونوں گروپوں کے مابین مصالحت کرواتی، مگر اقوام متحدہ اور طاغوتی اتحاد نے فوجی اور فضائی کاروائی کر کے اس بات کا ثبوت فراہم کردیا کہ لیبیا کے خلاف ہونے والی کاروائی کا مقصد عوام کو ریلیف فراہم کرنا نہیں بلکہ اس ملک کے معدنی ذخائر بالخصوص تیل پر قبضہ کرنا ہے۔

لیبیا کے صدر معمر کرنل قذافی کا مبینہ ظلم وجبر اپنی جگہ لیکن اس کو بنیاد بناکر اسلامی ملک لیبیا پر شیطانی اور طاغوتی قوتوں کے اتحاد کو کاروائی کی کسی صورت حمایت نہیں کی جاسکتی ہے نہ ہی اس کے فضائی اور زمینی حملوں کو جائز قرار دیا جاسکتا ہے۔ طاغوتی قوتوں کی کاروائی کی حمایت کا مطلب یہ ہے کہ مغربی تسلط کو پوری عرب دنیا اور پوری مسلم دنیا میں مضبوط اور مستحکم کیا جائے۔ طاغوتی قوتوں کی اصل نظر سعودی عرب اور پاکستان پر لگی ہوئی ہے جو شدید دباؤ کے باوجود بھی کسی حد تک سہی، اپنے اسلامی تشخص کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ شاید قذافی کا بھی یہی قصور تھا کہ وہ مکمل طور پر اسلامی نہیں تو کم ازکم کبھی کبھی اسلام کے نام پر طاغوت کے سامنے کھڑے تو ضرور ہوتے تھے۔ ان کا یہی جرم شیطانی اتحاد کے لیے ناقابل برداشت ہے ۔مسلم حکمرانوں اور دانشوروں کو چاہیے کہ وہ بحرین، یمن اور دیگر اسلامی ممالک میں طاغوتی قوتوں کے مفادات کی حمایت کی بجائے مسلمانوں کے مابین فروعی، سیاسی اور حکومتی تنازعات کو حل کرنے پر توجہ دیں۔

مگر افسوس یہ ہے کہ ہمارے بعض دانشور بھی ان سارے حالات وواقعات کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف بعض نام نہاد آزاد میڈیا کا سہارا لے کر طاغوتی قوتوں کی کاروائی نہ صرف حمایت کررہے ہیں بلکہ انہیں دیگر اسلامی ممالک میں اسی طرح کی کاروائی کی طرف توجہ دلانے میں مصروف ہیں۔ شاید یہ ماضی کے حالات وواقعات اقوام متحدہ اور طاغوتی قوتوں کے اسلام دشمنی سے ناواقفیت یا کسی مخصوص نظریہ کی وجہ سے ان کا یہ خیال ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ طاغوتی قوتوں کی کاروائی کا آزادی اور عوام سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا مقصد صرف اور صرف دنیا کے مظلوموں بالخصوص مسلمانوں کے وسائل پر قبضہ کرنا ہے۔ لیبیا کے خلاف ہونے والی کاروائی اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے آغاز میں مسلمانوں کے خلاف نئی کاروائی کی ابتداء ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کی انتہا کہاں پر ہوتی ہے؟ کیا مسلمان طاغوتی قوتوں کے خلاف متحد ہوتے ہیں یا پھر ماضی بعید وقریب کی طرح طاغوتی قوتوں کے آلہ کار بننے پر مجبور ہوتے ہیں۔
Abdul Jabbar Nasir
About the Author: Abdul Jabbar Nasir Read More Articles by Abdul Jabbar Nasir: 136 Articles with 96554 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.