لیبیا کے تیل کے بٹوارے کا سودا۔۔؟

دنیا کے ملکوں ، وہاں کے عوام اور حکمرانوں کو تباہ وبرباد کرنے کی مرتب کردہ امریکن پالیسی جس کو عراق میں عملی جامہ پہنایا جارہا تھا۔ تب امریکہ کے اس وقت کے صدر جارج بش نے کہا تھا۔ کہ امریکہ پر حکمرانی چاہئے ری پبلیکن کی ہو یا ڈیموکریٹ کی مگر اس کی خارجہ پالسی میں کوئی فرق نہیں پڑتا وہ بدستور جاری رہتی ہے۔عراق کے ساتھ ساتھ وہاں کے حکمرانوں و عوام پر بھیانک بمباری کر کے عراق کو کھنڈر میں تبدیل کرنے کے بعد امریکہ میں چناﺅ ہوئے تو ڈیموکریٹ برسراقتدار آگئے جس سے یہ امید بندھی تھی۔ دنیا امن کی طرف رواں دواں ہوگی۔ مگر امریکی اقتدار کی تبدیلی کے بعد ڈیموکریٹ کی نگرانی و عہد میں دنیا پر پارسل بم پھینکا گیا۔ پھر وکی لیکس کی لال کتاب مغربی میڈیا سے مشتہر کر کے ماحول میں آلودگی بھری گئی۔ اس پر بھی بس نہیں ہوا۔ تو دنیا کے ترقی پذیر ملکوں میں پُرتشدد کرایہ کے احتجاج سے مستحکم ملکوں میں بد امنی کو جنم دیا گیا۔ لیبیا میں پُرتشدد احتجاج میں شریک ہوکر اور اس کو حمایت دیکر وہ اپنے مفاد کو تقویت پہنچانے میں لگ گئے۔ تیونس اور مصر کے حکمرانوں کو اقتدار سے بے دخل کرا دیا گیا۔ لیبیا و یمن کے حکمراں ۔مظالم سے بھری امریکن پالیسی سے آشنا ہوئے تو لیبیا کے حکمران طبقہ کے خلاف اقوام متحدہ کی آڑ لیکر اس کی تباہی کا ایک نیا محاز کھول دیا گیا۔ اگر لیبیا کے حکمراں لیبیا ئی عوام کے ساتھ ظلم کرر ہے ہیں۔ تو اس سے کہیں زیادہ ظلم تو وہاں کے عوام کا امریکہ کی ہوائی بمباری سے ہورہا ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی ہوائی حملوں سے ہورہی ہے۔ انسانیت پر مظالم امریکہ ہوائی حملوں سے کرے تو ٹھیک ۔ اگر پُرتشدد کرایہ کے احتجا ج کو روکنے کیلئے لیبیائی حکومت کاروائی کرے تو وہ غلط ۔۔! یہ دوغلی روش اب واضع ہوکر سامنے آرہی ہے۔ لیبیا پر ہوائی یلغار صر ف لیبیا کو عراق کی طرح تباہ و برباد کرنا ہے۔ اور کرنل معمر قذافی کو صدام حسین کی طرح قتل کرنا ہے۔ عراقی صدر صدام حسین نے مظالم سے بھری امریکن پالیسی کو بے نقاب کرنے کا جو کارنامہ اپنے جان پر کھیل کر انجام دیا تھا۔ جس سے دنیا کے تمام ممالک اور وہاں بسنے والے عوام ان کی مفاد پرستانہ پالسی سے اچھی طرح آشنا ہوئے۔امریکی حکمرانوں کو عوامی آزادی کی اتنی ہی فکر ہے۔ تو انہوں نے پاکستان میں عوامی طور پر منتخب نواز شریف کی حکومت کے خلاف کام کیوں کیا۔ اور جنرل پرویز مشرف کی کمر کو کیوں تھپتھپایا، مشرف نے تو جمہوریت پر حملہ کر کے اقتدار کو اپنے ہاتھوں میں لیا تھا۔ یہ جمہوریت کے نامنہاد حامی ڈکٹیٹر کے طرف دار بن گئے تب ان کو جمہوریت سے وفاداری کا خیال نہیں آیا کیوں؟ افسوس اب لیبیا میں نون فلائی زون قائم کر کے اقوام متحدہ کی نگرانی میں اس کا محاصرہ کیا جارہا ہے۔ اور لیبیائی عوام پر مصائب آمیز حالات کے پہاڑ اسی طرح توڑے جارہے ہیں۔ جس طرح عراقی عوام پر توڑے گئے تھے۔ آخر امریکہ نے قذافی کو ماضی کے ۲۴ سالوں تک کیوں برداشت کیا۔ اب جب قذافی پر ۲۴ سال بعد ان کی مکاری کا راز کھلا ، حقیقت ان کے سامنے آئی ۔تو وہ دوست اب اچانک دشمن نظر آنے لگا۔ اس کو گھیرنے کیلئے مکاروں کا نصرانی ٹولہ ایک جگہ جمع ہوگیا۔ جنہوں نے قبل از وقت لیبیا کے تیل کے بٹوارہ کا سودا باہم کرلیا ہے۔ اور ناٹو کو ٹھیکہ دیا گیا ہے۔ کہ وہ لیبیائی تیل پر قبضہ کرنے کا کام انجام دیں۔ اور اس کی قیمت وصول کریں۔ لیبیا کے تیل پر قبضہ مظالم سے بھری امریکن پالسی کے تحت ہورہا ہے۔ لٹیرے حملہ آور بن کر کام کر رہے ہیں۔ تیل سے مالا مال ملکوں میں پُرتشدد کرایہ کے احتجاج کے ذریعہ سے آگے بڑھ کر اپنے مفاد کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں۔ لیبیا پر امریکہ کے مفاد کے حصول کیلئے تھوپی جارہی جنگ دنیا کے ملکوں کے حکمرانوں کے کان کھڑے ہوگئے ہیں۔ بلخصوص ہندوپاک کے عوام و حکمران سمجھ گئے ہیں۔ کہ انسانیت دشمن لوگوں نے ہندوپاک کے درمیان نفرتوں کی دیوار قائم کرنے کیلئے آزادی کا پنجرہ ” آزاد کشمیر “ کے عنوان سے تیاری کے مراحل میں ہے۔ اس کیلئے رائے شماری کا امریکی خنجر اسلامی شکل اختیار کئے ہوئے درندہ صفت بھیڑیوں کے ہاتھ میں پکڑایا گیا ہے۔ وہ ابوجہل کے خاندان کے لوگ کشمیر میں میر واعظ عمر فاروق ،سید علی شاہ گیلانی اور یاسین ملک بن کر کام کر رہے ہیں، اور یہ منافق لوگ اسلام، مسلمانوں حتیٰ کہ اپنے وطن سے بھی کھلی غداری کر رہے ہیں۔ کشمیر میں ابو جہل کے خاندان کے لوگ جہیں اسلام پسندوں نے ماضی میں سعودی عرب سے نکالا تھا۔ وہ فطرتی لوگ کشمیر میں آکر اسلامی شکل اختیار کرتے ہوئے آباد ہوگئے تھے۔ با ظاہر وہ مسلمان ہیں۔ شرعی طور پر باشرع نظر آتے ہیں۔ مگر حقیقی طور پر منافق ہیں۔ القاعدہ و طالبان تو مغربی میڈیا سے مذہب اسلام کو دھشت گر د مذہب میں تبدیل کرنے کیلئے پید ا کئے جاتے ہیں۔ یہ مصنوعی ہوتے ہیں۔ مگر کشمیر میں ان کو روبرو دیکھا جاسکتا ہے۔ ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں کشمیر کے تعلق سے ان کے ہاتھوں میں ایک یہودی مشن دیا گیا ہے۔ اور رائے شماری کا امریکی خنجر ان کو پکڑایا گیا ہے۔ کہ کشمیر مسئلہ کا حل اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہو اور وہ وہاں رائے شماری کے امریکی خنجر سے اپنی بات منوائیں۔ اس طرح سے کشمیر عوام کو گمراہیت کی دلدل میں دھکیل کر ان سے کشمیر کی پنجرہ نما آزادی کی منظوری لے لی جائے۔ پھر کشمیر کو آزادی کے پنجرے میں تبدیل کر کے تمام کشمیریوں کو اس میں قید کر کے اس پنجرے کو اقوام متحدہ کی چوکھٹ پر لٹکا دیا جائے۔ جس سے کشمیر کی مکارانہ آزای کا مفہوم مکمل ہوسکے۔ جس سے کشمیری عوام آزادی کے حوالہ سے ایک نئی غلامی کی طرف پیش قدمی کرسکیں۔ ہندوستان کا ایک چھوٹا صوبہ ہریانہ ہے۔ اس صوبہ کے قریب پانچ لاکھ نوجوان ہندوستان کی پولیس اور فوج میں بھرتی ہیں۔ پورے ہندوستان میں تعینات ہوکر ایک خوشحال زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ مرکزی سرکاری نوکریوں میں بھی ان ایک بڑی تعداد ہے۔ مگر ابوجہل کے خاندان کے قبیلہ کے لیڈر میر واعظ ، علی شاہ گیلانی اور یاسین ملک جن کو کشمیری عوام کی خوشحالی کی کوئی فکر نہیں ۔ روز گار، اور کاروبار سے جوڑنے کی ان کو کوئی فکر نہیں۔ وہ تو ان کوآزادی کے پنجرے میں قید کرنے کے فراق میں سرگرم عمل ہیں۔ کہ جو کشمیری پورے ہندوستان کے ۶۲ صوبوں میں آزادی کے گھوم سکتا ہے۔ اس کے پیروں میں آزادی کی بیڑیا ں پہنادی جائیں۔ جس سے وہ کشمیر کی چاردیواریوں میں قید ہوکر رہ جائیں۔ یہ منصوبہ بڑی طاقتوں کا ہے۔ جس کیلئے ابوجہل کے قافلہ کے لوگون کو استعمال میں لایا جارہا ہے۔ کشمیر میں سنگ باری کی تحریک سے یہ راز کھلا اور حقیقت آشکارہ ہوئی کہ ابوجہل کا خاندان کشمیر میں کافی منظم ہے اور ہورہا ہے۔ و ہ کشمیر کی پنجرہ نما آزادی کو سامنے رکھ کر مذہب اسلام کو کچلنا چاہتا ہے۔ اس لئے یہ گمراہ کن آزادی مذہب اسلام پر ایک سنگین حملہ ہے۔ جس کا مذہب اسلام کے شیدائی دفاع کر رہے ہیں حالانکہ ہندوپاک کے کشمیر کو آزادی کے پنجرے میں رکھنے کی مہم میں کامیابی نہ ملنے سے اسلام دشمن بوکھلا گئے ہیں۔ انہوں نے اپنا رخ دوسری طرف کردیا ہے۔ اور کرایہ کے پُرتشدد احتجاج کا نیا کام شروع کردیا ہے۔ کہ اس کے ذریعہ کئی حکمرانوں کی گدی چھین لی گئی ہے۔ اور کئی ملکوں کے حکمراں جب اس طرح کے احتجاج سے قابو میں نہیں آئے تو انہوں نے ہوائی یلغار شروع کردی ہے۔ آج لیبیا ان کے ایک اہم نشانہ پر ہے ۔ جس طرح عراق میں مسجدوں ، مکتبوں اور مدرسوں کو مسمار کر کے عراقی لوگوں کو اسلام سے دور کیا ۔ آج عراق میں جگہ جگہ گر جا گھر تعمیر کرنے کی منصوبہ بند حکمت عملی تیار ہورہی ہے۔ اب اسی طرح لیبیا میں جگہ جگہ مسجدوں ، مکتبوں و مدرسوں میں تشدد پر آمادہ کرایہ کے لوگوں کو جمع کیا جارہا ہے۔ کہ وہ پہلے ان مقامات سے کام کریں ۔ تاکہ ان کو بدنام کیا جاسکے۔ پھر ان کو عراق کے طرز پر ہوائی حملوں سے مسمار کیا جاسکے۔ لیبیا میں قذافی سے اقتدار چھینا ہی مقصد نہیں بلکہ وہاں منظم طریقہ پر اسلام پر بھی حملہ کرنا ہے۔ لیبیا پر حملے سے اسلام دشمنوں کے وسیع مفادات کا تحفظ ہوگا۔ ایک تو اسلامی مذہب کی تعلیمات کا خاتمہ ہوگا۔ دوسرے وہاں کے تیل پر امریکیوں کو تسلط قائم ہوگا۔۔

بہرحال ۔اقوام متحدہ و اس کی سلامتی کونسل نے ابھی تک پُر تشدد کرایہ کے احتجاج کی مذمت کی ضرورت نہیں سمجھی ہے۔ اب یہ بات یقینی ہے کہ پُرتشدد کرایہ کے احتجاج کی پست پر ایک بڑی سازش کارفرما ہے۔ جس میں اقوام متحدہ بھی شریک ہے۔ وہ لیبیا میں پُر تشدد کرائے کے احتجاج سے نقصان پر اور امریکی ہوائی حملوں سے ہورہے نقصانات پر وہ آنکھیں بند کرلتی ہے۔ مگر ان سے اپنے دفاع و مقابلہ کرنے والوں کو ہی مورد ِالزام ٹہرایا جاتا ہے۔

بہرکیف ۔لیبیا پر امریکی بمباری سے جبریہ عیسائی کی تبلیغ ، لیبیائی عوام کو عیسائی بنانے کی مہم اور بارک اوبامہ ۔ جارج بش کا تیل سے عشق اتنا ہی مہنگا پڑے گا۔کہ ان کو بھی قدرت ہاروت و ماروت(دو فرشتہ جن کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں جادوگری کے خاتمہ کیلئے بھیجا تھا۔ مگر وہ عشق فرمانے لگے۔انجام کار سزا کے طور پر ان دونوں کو اندھے کنویں میں الٹا لٹکا دیا گیا) کی طرح تیل کے کنویں میں الٹا لٹکا دے گی۔ جس سے کہ وہ بطور عبرت اس میں تا قیامت لٹکے رہیں گے۔ اور ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک دن جارج بش عراق کے تیل کنویں میں جبکہ بارک اوبامہ لیبیا کے تیل کنویں میں الٹے لٹ کے پائیں گے۔انشاءاللہ، اس لئے خدا کے یہاں ظالموں کو عبرت ناک سزا دی جاتی ہے۔ اور سزا بھی یاد گاری ہوتی ہے۔
Ayaz Mehmood
About the Author: Ayaz Mehmood Read More Articles by Ayaz Mehmood: 98 Articles with 74089 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.