سیمی فائنل اور ہمارے میڈیا کا کردار

بالآخر ایک مسلسل اعصابی جنگ کا اختتام گزشتہ رات ہو گیا اور ایک عرصے سے جاری اس کشمکش کا انجام ایسا ہوا کہ وقت تو برباد ہوا ساتھ لوگوں کے چہرے بھی اداس ہو گئے ۔ گزشتہ تین دن سے ٹیلی ویژنز نے جو اودھم مچا رکھی تھی اور کرکٹ کے علاوہ کوئی خبر نشر نہیں ہو رہی تھی ، ہر کوئی ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کر رہا تھا ۔ بے ہنگم پروگرامات اور لچر زدہ تبصرے سن سن کر ہمارے کان پک گئے ۔

اور کچھ نے تو تجزیہ نگاروں کے ساتھ ساتھ طوطا فال ، اور علم نجوم والوں کو بھی مدعو کر رکھا تھا جن کے تمام تر بلند وبانگ دعوے اور علم کی دھاک انڈیا کے ہاتھوں کلین بولڈ ہو گئے ۔

اور کل کا دن تو دیکھنے کے قابل تھا ، گلیاں سنسان تھیں ، مارکیٹس ویران تھیں ، وہ سڑکیں جہاں پر کھڑے ٹریفک وارڈرن کو ایک منٹ آرام میسر نہیں آتا کل پورا دن اونگھتے نظر آئے ، ایک جشن تھا ، عید کا سماں تھا ، نوجوانوں کی ٹولیاں تھیں اور پاکستانی پرچم تھے ، ہر نوجوان نے ایک دوسرے سے مختلف نظر آنے کی قسم کھا رکھی تھی ، جن کی جیب میں ٹافی کھانے کے پیسے نہیں ہوتے انہوں نے بھی ادھار لیکر کل خرچہ کر ڈالا اور مہنگی ترین کرکٹ شرٹس خرید کر مچلتے نظر آئے ۔

یہ کس کا کمال تھا ؟ یہ کس نے اتنی ٹینشن کی فضا قائم کی ، یہ کس نے ان کو ایسا کرنے پر مجبور کیا ؟

یہ ہمارا میڈیا تھا جس نے اس میچ کو پاک بھارت کرکٹ میچ کی بجائے میدان جنگ بنا دیا ۔ اور ایک مسلسل کمپین کی نتیجہ میں پورے پاکستان میں ایسا ماحول بنا دیا کہ لوگ ا س کو زندگی اور موت کا مسئلہ سمجھنے لگی ۔ ہر ایک کے لب پر کچھ تھا تو اسی میچ کے الفاظ ، تبصرے ، بلند بانگ دعوے اور وہ لوگ جن کو بیٹ پکڑنا نہیں آتا وہ بھی تبصرہ کرنا اپنا فرض سمجھ رہے تھے ۔

لیکن ! کل کا ماحول دیکھ کر ، نوجوانوں کے جذبات دیکھ کر ، پاکستانی پرچم لئے اس شباب کو دیکھ کر میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ اگر یہی میڈیا مثبت کردار ادا کرے تو یہی شباب پاکستان میں انقلاب لا سکتا ہے ، یہی جوانیاں اس ملک پر نچھاور ہو سکتی ہیں ، یہاں انقلابیوں کی کمی نہیں ، یہاں جذبات کی کمی نہیں ، جہاں امنگوں کا اتوار بازار لگا ہو وہاں ضرورت صرف اور صرف مثبت کردار کی ہے لیکن اس نام نہاد آزاد میڈیا نے بے ہنگم اور بے مقصد پروگرامات ، کمرشلائز خبریں اور پیڈ تبصرے کر کے اس ملک کے شباب کو بھی بے مقصد بنا دیا ہے ۔ جن کے پاس ہر کام کرنے کو وقت ہے لیکن اگر نہیں ہے تو پاکستان کے لئے کچھ کر گزرنے کا وقت۔

لیکن پھر سوچتا ہوں کہ میڈیا نے مثبت کردار ادا کرنا شروع کر دیا تو پھر بڑے بڑے پیٹوں والے مالکان کا گزارا کیسے ہوگا، نام نہاد اینکرز کی دال کیسے گلے گی ، ملک کی عزت داؤ پر لگانے والے پروڈیوسرز کا دوزخ کیسے بھرے گا ؟ اور پھر سی آئی اے کے ٹکڑوں پر پلنے والے کالم نگار تو بھوکے مر جائیں گے؟

بس یہیں آ کر میں مایوس ہو جاتا ہوں اور بس دعا کرتا ہوں کہ اللہ ہم پر رحم فرما۔
Awais Aslam Mirza
About the Author: Awais Aslam Mirza Read More Articles by Awais Aslam Mirza: 23 Articles with 59135 views ایک عام انسان جو معاشرے کو عام سے انداز سے دیکھتا ہے ۔ .. View More