دور حاضر میں حق شناسی و رہنمائی کیلئے روشنی کی ایک کرن-مکمل

اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنی تمام تر مخلوقات میں سے انسان کو اشرف المخلوقات کا لقب نوازا اور عقل و شعور و فکر عطا کیا تاکہ خیروشر اور حق و باطل میں تمیز کر سکے اور سب سے بڑھ کر اپنے خالق و مالک کو پہچان سکے کہ اسکو اور تمام مخلوقات کو پیدا کرنے والا اور تمام جہانوں کو بنانے والا رب کریم ایک الله ہے۔ وہی واحدہ لاشریک ہے۔ نور علی نور اور نوراسموات والارض ہے۔ رب المشرقین بھی ہے اور رب المغربین بھی بلکہ رب العالمین ہے۔ وہی لائق ہر سجدہ ہے۔ یعنی سجدہ صرف اور صرف رب تعالیٰ ہی کو ہے اور رب تعالیٰ کے علاوہ کسی بھی خیال سے اور کسی بھی نظریے سے کسی کو بھی سجدہ کرنا شرک ہے اور قرآن کریم میں سب سے بڑا گناہ بلکہ ظلم عظیم شرک ہی کو کہا گیا ہے جو کہ ناقابل معافی ہے ہم مسلمان دوران نماز بھی کعبتہ الله کی طرف منہ کرنے کی نیت ضرور کرتے ہیں مگر کعبتہ الله کو سجدہ نہیں کرتے بلکہ رب تعالیٰ کو ہی سجدہ کرتے ہیں۔ اسی طرح احتراماً بزرگوں کے ہاتھ یا پاؤں پر بوسہ دینا سجدہ نہیں بلکہ ادب و احترام ہے۔

الله رب العالمین کا ارشاد ہے: “اور ہم تمہاری رگ جان سے بھی زیاوہ قریب ہیں“۔ (القرآن)

مگر انسان چونکہ پیدائشی طور پر انتہائی کمزور اور جاہل (ناواقف اور نا سمجھ ہے ۔ اس لئے رب العالمین نے اسکی راہنمائی کیلیے روز ازل سے ہی انبیاء و رسل علیہم الصلوت والسلام اجمعین اور اولیائے کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین کا سلسلہ جاری فرمایا اور ان نفو س قدسیہ کو خاص اپنی جناب سے بالواسطہ یا بلاواسطہ اپنے علم میں سے جتنا اور جس قدر چاہا علم عطا فرمایا (والله اعلم باالصواب) اور یکے بعد دیگرے اپنے اپنے دور یا زمانے میں اپنا نائب (خلیفتہ الله) بنا کر نبوت و رسالت اور ولایت کے عہدے پر فائز کر کے روز آخرت تک کے لیے چن لیا۔ قرآن کریم میں تخلیق حضرت آدم علیہ السلام کے بعد کئی ادوار میں انبیائے کرام اور اولیائے کرام کا ذکر اکٹھے ایک ساتھ ایک ہی دور یا زمانے میں ملتا ہے۔ جیسا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں ایک صاحب ( جنہیں کتاب کا علم عطا کیا گیا تھا) کا ذکر ہے جو کہ پلک جھپکتے ہی ملکہ سبا کا تخت حاضر کر دیتے ہیں۔ دوسرے موقع پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام (جنہیں الله تعالیٰ نے اپنی رحمت سے علم لدنی ، یعنی قدرتی علم عطا فرمایا تھا) کا اکٹھے سفر کرنا، ظاہر ہے یہ ایک ہی زمانے میں ہوا۔۔ اور بعض اوقات ایک نبی پاک کے وصال سے دوسرے نبی پاک کی بعثت کے درمیانی وقفہ میں لوگوں کی رشد و ہدایت پر فائز ہونا یعنی حضرت ذوالقرنین علیہ السلام کا ایک سرکش قوم پر نگران اور ہادی مقر ہونا اور اصحاب کہف کے واقعات کا ذکر ملتا ہے۔

سلسلہ نبوت ہمارے نبی کریم، خاتم الانبیاء، رحمتہ اللعالمین، محبوب رب، نور مجسم حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وآلہ وسلم پر آ کر اختتام پذیر ہوا اور آپ رحمتہ اللعالمین صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہ آئے گا اور آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی نبوت روز آخرت تک قائم ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی ذات کامل کی آغوش قدسیہ میں پروان چڑھنے والا سلسلہ ولایت آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت علی کرم الله وجہ الکریم کو عطا ہوا اور حضرت علی کرم الله وجہ الکریم کے بعد آنے والے آپ کرم الله وجہ کے جانشینان کا سلسلہ قیامت سے پہلے روز آخر تک جاری رہے گا۔

الله رب العالمین نے تخلیق حضرت آدم علیہ السلام کرنے کے وقت اپنی روح میں سے روح پھونکی تو حضرت آدم علیہ السلام کو ہر طرح کے ظاہری و باطنی علوم میں سے علم عطا کیا گیا۔ کس قدر اور کتنا علم عطا کیا گیا۔ یہ الله رب العالمین ہی بہتر جانتے ہیں مگر دینی اور دنیاوی ہر طرح کے علوم میں سے علم عطا کیا گیا۔ مثلاً دنیاوی علوم میں سے معاشی، معاشرتی و تمدنی، تحقیقی و تخلیقی، طبی و کیمیائی وغیرہ علوم عطا کیے۔

دینی علوم یا علوم معرفت الہی دو طرح کے ہیں۔ دونوں علوم دراصل ایک ہی ہیں اور الله رب العالمین کے عطا کردہ ہیں۔ ایک علم شریعت یعنی ظاہری احکامات و حدود کا متعین ہونا اور ضابطہ حیات۔

دوسرا علم حقیقت اور معرفت ( طریقت، تصوف یا فقر) یعنی باطنی علم۔ باطنی علم اور معرفت ( طریقت، تصوف یا فقر) وہ علم ہے جس سے کہ انسان کا مرکز و محور حد درجہ کی باطنی پاکیزگی نفس اور اخلاص نیت سے (ریاکاری و دکھلاوے کی عبادات سے مبرا ہو کر) اپنے رب تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنا ہے اور اپنی نفسانی خواہشات اور شیطانی وسوسوں کو خدا بنانے کی بجائے یا شیطانی اعمال اپنا کر اپنے نفس اور شیطان کو خوش کرنے کی بجائے صرف اور صرف راضی بالرضا ہو کر الله تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا کی خاطر اپنی ذات کے غرور و تکبر سے بچ کر انتہائی عاجزی و انکساری سے اپنی اصلاح کر کے دوسروں کو اصلاح کا موقع فراہم کرنے کے لیے مشعل راہ بننا ہے۔

دونوں ظاہری و باطنی علوم (علم شریعت اور علم حقیقت، طریقت یا تصوف) برحق ہیں اور دونوں علوم کا محور و مرکز رب تعالیٰ کی ذات اقدس ہے۔ دونوں کی منزل ایک ہے۔ جیسا کہ علامہ اقبال نے فرمایا:

علم ہے ابن الکتاب
اور عشق ہے ام الکتاب

جیسا کہ دونوں علوم الله رب العالمین ہی کے عطا کردہ ہیں اور ایک ہی ہیں مگر دونوں کا انداز و طریقہ ضرور الگ الگ ہو سکتا ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کا واقعہ قرآن مجید کی سورہ کہف میں تفصیلاً درج ہے جسکی رو سے حضرت موسیٰ علیہ السلام صرف صاحب شریعت پیغمبر ہونے کی عکاسی کر رہے ہیں جبکہ حضرت خضر علیہ السلام صاحب حقیقت اولیاالله کا آئینہ ہیں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کا دوران سفر بار بار حضرت خضر علیہ السلام کے اعمال و حرکات کو ٹوکنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اگر رب تعالیٰ جل شانہ نہ چاہے تو کوئی پیغمبر بھی بیک وقت دونوں علوم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ تو پھر بھلا ایک عام آدمی کیسے دعویٰ کر سکتا ہے کہ علم صرف اسی کے پاس ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ہر علم والے کے اوپر ایک علم والا ہے۔ یہاں ایک بات یاد رہے کہ اس واقعہ سے خدانخواستہ حضرت موسی علیہ السلام کلیم الله کی شان اقدس کو کم کرنا ہرگز مقصود نہیں بلکہ الله رب العالمین نے خود حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حضرت خضر علیہ السلام کی طرف روانہ کیا۔ جس کا ذکر سورہ کہف میں موجود ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام فرما رہے ہیں اگر مجھے سالوں سال بھی حضرت خضر علیہ السلام کی تلاش میں چلنا پڑا تو میں چلوں گا۔

اسی واقعہ میں انتہائی اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ جب حضرت خضر علیہ السلام نے تمام واقعات کی تفصیل بیان کر دی تو فرمایا کہ میں نے جو کچھ کیا اپنے رب کے حکم سے کیا تو دونوں پاک ہستیوں نے اپنے راستے جدا کر لیے جس کا تعین پہلے ہی طے ہو چکا تھا۔

اسی واقعہ سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ اگر کسی کی کوئی بات سمجھ میں نہ آئے یا سمجھ سے بالاتر ہو تو تکرار کرنے، جھگڑنے یا فساد برپا کرنے کی بجائے انتہائی عاجزی و انکساری سے وہ علم سیکھا جائے یا کم از کم انسانیت کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے نفس کے غرور و تکبر جیسے شیطانی فعل یا شیطانی کلمات سے بچنے کیلئے یہ کہ دیا جائے کہ رب العالمین بہتر جانتے ہیں۔

الله رب العالمین نے حضور نبی کریم رحمتہ اللعالمین صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو امام الانبیا اور اپنا محبوب بندہ ہونے کا شرف بخشا ہے اور خاتم النبیین صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور خاص الخاص بندہ ہونے کے ناتے سے آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو ہر طرح کے علوم جو کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو عطا کیے گئے تھے اپنی جامعیت اور اکملیت کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو عطا ہوئے۔ لہٰذا علم شریعت اور علم حقیقت (طریقت یا تصوف) بھی حد درجہ کمال تک آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کو عطا کیے گئے۔ لہٰذا یہ کہنا یا سوچنا بھی عبس ہے کہ فلاں علم تو نعوذبالله قرآن پاک میں سے نہیں ہے یا نعوذبالله نبی کریم رحمتہ اللعالمین صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو عطا نہیں ہوا یا نبی کریم رحمتہ اللعالمین صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے تو یہ علم نہیں سکھایا یا نہ بتایا ۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مفہوم: “ فقر میرا فخر ہے “

قرآن مجید میں بھی سورہ رحمن میں میں دو دریاؤں کا ذکر ہے کہ دونوں کا پانی ایک ساتھ بہہ رہا ہے، دونوں کے رنگ جدا جدا ہیں، دونوں ایک دوسرے میں گڈ مڈ نہیں ہوتے۔ دونوں کے درمیان ایک برزخ (پردہ) ہے۔

جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے الله رب العالمین کی ذات اقدس ہی ہر علم کا محور و مرکز ہے اور نبی کریم رحمتہ اللعالمین صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو ہر طرح کے علوم اپنی جامعیت و اکملیت کے ساتھ عطا ہوئے ہیں تو الله کریم کی عطا سے نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ بھی ہر قسم کے علوم کا مرکز و محور ہیں اور آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے توسل یا وسیلہ خاص سے آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے ہر دور میں آنے والے تمام اولیاء الله کو اپنے اپنے دور میں کبھی اکٹھے اور کبھی الگ الگ عطا ہوتے رہیں گے۔

سلسلہ عالیہ قادریہ ۔۔ چشتیہ (پاکستان)

"سلسلہ پاک قادریہ ۔۔ چشتیہ" اس کائنات کی ہر جاندار مخلوق پر الله رب العالمین کا لازوال احسان عظیم ہے جو کہ اس دنیائے فانی کے ہر فرد یا بنی نوع انسان کے لئے ایک عظیم دینی درسگاہ کے فرائض انجام دے رہا ہے تا کہ رب تعالیٰ کی مخلوق نبی آخرالزماں رحمتہ اللعالمین صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس سے شروع ہونے والے اس سلسلہ عالیہ کی روحانی تعلیمات سے ہر دور میں فیضیاب ہوتی رہے اور انسان اپنے نفس یا شیطان کا غلام بننے کی بجائے الله تعالیٰ کا غلام بن جائے اور انسان کی عبادات ریاکاری سے پاک ہو کر الله تعالیٰ کے دربار میں شرف قبولیت حاصل کر سکیں اور انسان رحمتہ اللعلمین صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت سے بہرہ مند ہو کر آخرت میں کامیاب و کامران ہو جائے۔

نبی آخرالزماں رحمتہ اللعالمین صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کے اذن خاص اور نگاہ رحمت سے یہ سلسلہ کریمیہ حضرت علی کرم الله وجہ کو منتقل ہوا جیسا کہ احادیث پاک میں ہے نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

١- میں (محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلم) علم کا شہر ہوں اور حضرت علی (کرم الله وجہ) اس کا دروازہ ہیں۔

٢- جس نے مجھے (محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلم) اپنا آقا مانا ، حضرت علی (کرم الله وجہ) کو بھی اپنا آقا مانے یا جس کا میں (محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلم) مولا (آقا) ہوں ، حضرت علی (کرم الله وجہ) اسکے مولا (آقا) ہیں۔

درج بالا حدیث پاک(١) سے صاف واضح ہے کہ اہل بیت میں سے اول مقام حضرت علی کرم الله وجہ کو عطا ہوا اور نبی کریم رحمتہ اللعالمین صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو الله رب اللعالمین سے حد درجہ علم عطا ہوا وہ اپنی مکمل جامعیت و اکملیت کے ساتھ حضرت علی کرم الله وجہ کو چشمئہ نبوت صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے نصیب ہوا (والله اعلم) اور بار امانت (امامت) اور نور ہدایت سر چشمہ ولایت کے سپرد ہوا۔

حدیث پاک(٢) یہ پیغام دے رہی ہے کہ الله تعالیٰ اور رسول کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ محبت حضرت علی کرم الله وجہہ سے ہے اور سیدنا حضرت علی کرم الله وجہہ بھی الله تعالیٰ اور رسول کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ لہٰذا حضرت علی کرم الله وجہہ، اور تمام اولیاء الله کا ادب کرنا ہر ایک پر لازم ہے اور حضرت علی کرم الله وجہہ اور تمام اولیاء الله سے بغض رکھنے والا الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا دشمن ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہوا:“جو کوئی الله تعالیٰ کے ولی سے بغض رکھے گا، الله تعالیٰ اس کے ساتھ اعلان جنگ کرتا ہے“ (حدیث قدسی)

بعض کم فہم اور حسد و بغض میں گھرے ہوے لوگ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اصل خلافت راشدہ تو حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ کے دور حکومت تک تھی، بعد میں تو صرف جنگ و جدل ہی رہی۔ شاید انہیں حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ کا یہ قول یاد نہیں کہ “اگر ابوالحسن (کرم الله وجہہ) نہ ہوتے تو عمر (رضی الله تعالیٰ عنہ) ہلاک ہو جاتا“۔

یہ محبت تھی حضرت فاروق اعظم رضی الله تعالیٰ عنہ کی نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے اور آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی آل سے اور خصوصاً حضرت علی کرم الله وجہہ سے۔

دوسری اہم بات یہ بھی تو ہو سکتی ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے دور سے ہی منافقین اور خارجین کا ایک گروہ دین اسلام کے ازلی پیغام کی اصل روح کو مسخ کرنے پر تلا ہوا تھا جسکو بے نقاب کرنے کیلئے حضرت علی کرم الله وجہہ کو منافقین کی طرف سے مسلط کی گئی جنگ لڑنا پڑی اور اپنی جان پاک کا نذرانہ پیش کرنا پڑا مگر منافقین کو انکی شیطانی چالوں میں کامیاب نہ ہونے دیا ۔ انہی منافقین نے کئی دوسرے جلیل القدر صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کو بھی حضرت علی کرم الله وجہ کے خلاف اکسانے کی ناپاک جسارت کی مگر ناکام رہے۔

حضرت علی کرم الله وجہہ کی شہادت کے بعد یہ بار امانت (امامت) اور اذن خاص حضرت امام حسین علیہ السلام کو عطا ہوا جنہوں نے معرکہ کربلا میں اپنی اور اپنے بہتر (٧٢) جان نثار شہدا کی قربانی دے کر دین اسلام کی اصل روح کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے زندہ و پائندہ کر دیا اور دین میں بگاڑ پیدا کرنے والے نام نہاد ملاؤں اور ملوکیت کی دلدادہ حکومت کو زمانے بھر کے آنے والے انسانوں کی نظر میں ذلیل و رسوا کر دیا۔ صد افسوس کہ چند افراد آج بھی اس معرکئہ حق و باطل کو دو شہزادوں کی جنگ کہتے نظر آتے ہیں۔ اے کاش! وہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے ان فرمودات کا بغور مطالعہ کرتے کہ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

١) حسن و حسین (علیہ الصلوتھ و السلام) جنت کے سردار ہیں۔
٢) میں (محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلم ) حسین (علیہ السلام) سے ہوں اور حسین (علیہ السلام) مجھ (صلی الله علیہ وآلہ وسلم ) سے ہے۔ مگر شیطان (اور اسکے چیلے جو ازل سے ہی انسان اورانسانیت کے کھلم کھلا دشمن ہیں، وہ حق کا بول بالا کیسے برداشت کر سکتے ہیں) نے ان لوگوں کی بد نیتی، انا اور نفس پرستی کی وجہ سے انھیں اپنا پیروکار بنالیا اور حق بات سے دور کر دیا۔

حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت عظمی کے بعد یکے بعد دیگرے یہ بار امانت (امامت) اور اذن خاص اور نور ہدایت سادات کے درخشاں ستاروں حضرت امام زین العابدین، حضرت امام باقر، حضرت امام جعفر صادق، حضرت امام موسیٰ کاظم رضوان الله علیہم اجمعین کے سپرد ہوا۔ یہ حضرت امام موسیٰ کاظم رضی الله عنہ ہی ہیں جنہوں نے کلمہ حق کی آواز کو بلند رکھنے کیلئے قریبا چودہ (١٤) سال قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں مگر امت محمدیہ پر ایک بہت ہی عظیم احسان یہ بھی کیا کہ آپ رضی الله عنہ نے واضح اعلان فرما دیا کہ سادات کے علاوہ امت محمدیہ میں سے کوئی بھی شخص پیشوا یا سربراہ بننے کا اہل ہوا تو اسے بھی یہ اذن خاص اگر رب تعالیٰ کو منظور ہو تو عطا ہو سکتا ہے۔ یعنی یہ بار امانت (امامت) اور اذن خاص پہلی بار آل یا اولاد علی کرم الله وجہہ سے نکل کر امت کے اہل شخص کو بھی عطا ہونے کا اعلان ہوا۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اس دن نہیں نفع دے گی کوئی سفارش سوائے اس شخص کے شفاعت کے جسے رحمان نے اذن دیا ہو اور پسند فرمایا ہو اسکے قول کو“۔

مزید ایک جگہ ارشاد ہوا (ترجمہ) جس دن پکارے جائیں گے تمام لوگ اپنے اپنے پیشوا (امام) کے ساتھ“۔ (القرآن)

دراصل ہر دور میں مرشد کامل یا پیشوا ہی صاحب اذن ہوتا ہے اور وہ اپنے مرشد کامل (امام) کے اذن (اجازت) سے دین کی تبلیغ و اشاعت کے اس عزم کو لیکر آگے بڑھاتا ہے۔

سینہ بہ سینہ یہ چیز صرف مرشد کامل کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے (رب تعالیٰ کی رضا سے) مریدین کے ہی حصہ میں آتی ہے۔ وہ اولاد بھی ہو سکتی ہے اور مریدین میں سے بھی۔ مگر جو بھی الله تعالیٰ اور الله کے رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق اپنے پیشوا یا مرشد کا صحیح پیروکار ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت امام موسیٰ کاظم رضی الله عنہ کے بعد حضرت امام موسیٰ رضا رضی الله عنہ نے اپنے ایک انتہائی متقی اور پرہیزگار مرید حضرت معروف کرخی رضی الله عنہ کو یہ بار امانت منتقل کیا جو کہ سادات یا اہل بیت سے نہیں مگر اپنے تقویٰ، تزکیہ نفس، اطاعت، وفاداری اور عاجزی اور انکسای کی وجہ سے اور الله تعالیٰ کے خاص فضل و کرم اور رحمت سے امامت کے اہل قرار پائے۔ اسی طرح آپ جناب حضرت معروف کرخی رضی الله عنہ نے اپنے خاص الخاص مرید حضرت سری سقطی رضی الله عنہ کو اپنے بعد اپنا خلیفہ مقرر فرمایا۔

اسی طرح حضرت جنید بغدادی رضی الله عنہ جو اپنے زمانے کے امام الاولیاء اور سید الطائفہ کے لقب سے مشہور ہوئے گو اپنے مرشد کامل جناب حضرت سری سقطی رضی الله عنہ سے، رب تعالیٰ کی رضا سے اذن خاص اور نور ہدایت عطا ہوا۔ اسی طرح کوئی زمانہ بھی ایسا نہیں گزرا کہ کوئی نہ کوئی کامل ولی الله موجود نہ ہو، بلکہ یہ سلسلہ ولایت تو قیامت سے پہلے روز آخر تک جاری و ساری رہے گا۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی، محبوب سبحانی المعروف غوث اعظم رضی الله عنہ اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری المعروف خواجہ غریب نواز رضی الله عنہ کی ذوات قدسیہ سے کون انکار کر سکتا ہے۔

تقسیم پاک و ہند سے پہلے یہ سلسلہ عالیہ بنگال میں شاہ عبدالحئی رحمتہ اللہ علیہ اور آپ کے بعد لکھنو میں حضرت شاہ محمد نبی رضا رحمتہ اللہ علیہ اور آپ کے بعد اجمیر شریف میں حضرت شاہ محمد عبدالشکور رحمتہ اللہ علیہ اور آپ کے مرید کامل سید احمد صدیق المعروف شاہِ قاتل (باطل کا قلع قمع کرنے والا) رحمتہ اللہ علیہ تک پہنچا۔ بعد ازاں بعد الذّکر دونوں بزرگ پاکستان میں علی الترتیب لاہور اور کراچی میں سکونت پذیر ہوئے۔ حضرت شاہ محمد عبدالشکور رحمتہ اللہ علیہ کا مزار پاک لاہور(پنجاب) کے علاقے گارڈن ٹاؤن کے ایک قصبہ جیون ہانہ میں ہے اور حضرت سید احمد صدیق شاہ صاحب المعروف شاہِ قاتل رحمتہ اللہ علیہ کا مزار اقدس جامعہ کلاتھ کراچی میں مرجع خاص و عام ہے۔ آپ کے وصال کے بعد آپ کے مرید خاص جناب پیر فضل حسین المعروف افضل شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو اذنِ خاص اور نورِ ہدایت نصیب ہوا۔ جن کا مزارِ اقدس تلہ گنگ ضلع چکوال میں ہے۔

جناب پیر فضل حسین افضل شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں اپنے ایک خاص الخاص مرید کامل جناب صوفی محمداسحاق شاہ صاحب مدظلہ تعالیٰ کو اپنا خلیفہ مقرر کیا اور اذنِ خاص اور نورِ ہدایت عطا کیا جوکہ انتہائی پرہیزگاری ، اطاعت گزاری اور بنی نوع انسان سے بے لوث اور واسطے اللہ محبت کرنے کی وجہ سے اپنے ہزاروں مریدین میں انتہائی عقیدت اور محبت کی نگاہ سے جانے جاتے ہیں۔
آپ مدظلہ تعالیٰ موجودہ دور میں ایک انتہائی سچے عاشق رسول اور اللہ ربّ العالمین کی ذات سے بے پناہ محبت کرنے والے راست باز اور صاف گو انسان ہیں۔ ہمیشہ سچ بولتے ہیں اور ظاہروباطن سچائی اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ آپ کے مرشد کامل جناب پیر فضل حسین المعروف افضل شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کو افضلی قلندر کا لقب عطا کیا۔ آپ اپنے تمام مریدین ، عقیدت مندان اور سلسلہ عالیہ قادریہ چشتیہ پاکستان کے تمام چاہنے والے لوگوں میں اسی لقب سے بے حد مقبول ہیں بلکہ بہت سے دوسرے سلسلہ ہائے کرام سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی آپ مدظلہ تعالیٰ کو انتہائی عقیدت و محبت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اسی نام سے پہچانتے ہیں۔ آپ مدظلہ تعالیٰ کی عاجزی و انکساری کا یہ عالم ہے کہ اپنے بارے میں ایک بار بات کرتے ہوئے آپ مدظلہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”میں رسول کریم رحمة اللعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خاکِ پا کے برابر بھی نہیں ہوں“ اور نہ ہی کبھی آپ نے اس بات کی ضرورت محسوس کی کہ لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ موجودہ زمانے میں آپ ایک کامل صوفی بزرگ ولی اللہ ہیں بلکہ مزید ایک موقع پر آپ نے گفتگو کے دوران اس طرح فرمایا کہ ”میں کچھ بھی نہیں ہوں“ کُل وہ ذات ہے (آسمان کی طرف شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے)۔ اُس کا نام ہے ربّ۔ ربّ المشرقین بھی ہے اور ربّ المغربین بھی۔ وہی مجھے بھیجتا ہے جہاں بھی جانا چاہوں۔

حدیث قدسی ہے کہ اللہ ربّ العالمین جب اپنے کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ میں (اللہ تعالیٰ) فلاں قبیلے کے فلاں شخص سے محبت کرتا ہوں۔ لہٰذا اے جبرائیل ! تو بھی اُس سے محبت کر۔ جبرائیل امین آسمان عرش سے زمین پر اترتے ہیں اور منادی کرتے ہیں کہ عرش و فرش کا مالک اللہ ربّ العالمین فلاں شخص سے محبت کرتا ہے، اے لوگوں! تم سب بھی اُس سے محبت کرو۔
اللہ ربّ العالمین جسے چاہے عزت دے۔

جناب صوفی محمد اسحاق شاہ صاحب مدظلہ تعالیٰ گزشتہ 38سال سے سلسلہ عالیہ قادریہ چشتیہ پاکستان کے روح رواں ہیں اور گزشتہ 30سال سے نیویارک (امریکہ) میں مقیم ہیں۔ جہاں پر آپ کی سرپرستی میں 1992ء میں ایک اسلامی و تبلیغی ادارہ ”انٹرنیشنل اسلامک مرکز طریقت(INC)نیویارک“ میں رجسٹرڈ کروایا گیا۔ جس کے تحت ہر ماہ ماہانہ محافل گیارہویں شریف منعقد کی جاتی ہیں۔ جن کا انداز انتہائی سادہ اور صوفیانہ ہوتا ہے۔ یہ محافل عاشقانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عاشقانِ اولیاءاللہ کو روحانی غذا فراہم کرتی ہیں۔ اِن محفلوں میں بزرگانِ دین کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے تاکہ انسان اپنے نفس کا غلام بننے کی بجائے اللہ کا غلام بن جائے اور اُس کی عبادات ریاکاری سے مبرّا ہوکر اللہ تعالیٰ کے دربار میں قبولیت کا شرف حاصل کرسکیں۔ یاد رہے کہ محافل گیارہویں شریف کا باقاعدہ آغاز حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے دور میں ایک حدیث پاک کو زندہ رکھنے کے لیے عمل میں لایا گیا۔ حدیث پاک میں ارشاد ہے کہ ”کھانا کھلانا اور خیرخواہی چاہنا“۔ چنانچہ کم از کم ہر ماہ میں ایک دن تو ایسا ہو جس میں واسطے اللہ خیرات کی جائے اور اللہ ربّ العالمین کا ذکر بلند کیا جائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور درودوسلام کا نذرانہ پیش کیا جائے اور پھر ہر وقت اس عمل کو دہرانے کی کوشش کی جائے۔

جناب صوفی محمد اسحاق شاہ صاحب مدظلہ تعالیٰ ایک انتہائی بے باک ، نڈر اور اللہ ربّ العالمین کی ذات پر مکمل یقین رکھنے والے انسان ہیں۔ حق بات کہنے کے لیے اور آوازِ حق کو بلند رکھنے کے لیے کبھی کسی سے نہیں ڈرتے، خواہ پوری دنیا ہی مخالفت کیوں نہ کرے۔

علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال نے یقیناً ایسی ہی ہستی کے بارے میں فرمایا تھا:

ہزار خوف ہو مگر زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق

مزید فرمایا:

یہ قوم اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں ، لا الہ الا اللہ

نبی کریم رحمة اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس کسی شخص نے بھی میری امت میں سے میری ایک سنت کو زندہ کیا وہ روزِ محشر اس طرح(دونوں انگلیاں جوڑتے ہوئے) میرے ساتھ ہوگا۔

موجودہ حالات میں جب ہر طرف یہ شور و غوغہ ہے کہ (نعوذ باللہ )نبی کریم رؤف الرّحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے کو قتل کرنے کا حکم ارشاد فرمایا۔ یہودوہنود کی یہ سازش اس قدر زور پکڑ گئی ہے کہ سادہ لوح عام مسلمان جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے والہانہ عقیدت و محبت کا جذبہ رکھتے ہیں ، یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ منافقین اور یہود و ہنود نے پہلے آپ رحمة اللعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر یہ الزام لگایا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام تلوار کے زور پر پھیلایا ہے اور اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس پر لوگوں کو قتل کرنے کا حکم صادر فرمانے کا الزام لگایا جارہا ہے (نعوذ باللہ)۔ مگر اب یہودوہنود کی اس سازش میں چودہویں صدی کا نام نہاد مولوی بھی شریک ہے۔ جسے ہوا بھی نہیں لگی کہ ربّ العالمین کی شان کیا ہے اور نہ ہی رحمة اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کی ہوا لگی ہے۔ نہ ہی شریعت کا پتہ ہے اور نہ حقیقت و طریقت کا ، اور دعویٰ ہے عاشق رسول ہونے کا۔

ایسے حالات کو دیکھتے ہوئے بھلا ایک حقیقی سچا عاشق رسول کیسے خاموش رہ سکتا ہے۔ یقیناً یہی وقت ہے کہ آوازِ حق کو بلند کیا جائے اور دین کی اصل روح سے معصوم لوگوں کو آگاہ کیا جائے۔ یہی اصل جہاد ہے کہ غلط اور مذموم ارادے رکھنے والے لوگوں کے ہجوم سے ڈرنے کی بجائے صرف اللہ ربّ العالمین سے ڈرا جائے کیوں کہ اپنے ربّ سے ڈرنے والا کبھی لوگوں سے نہیں ڈرتا۔ چنانچہ صوفی محمد اسحاق شاہ صاحب مدظلہ تعالیٰ نے ان سب حالات کو دیکھتے ہوئے ”سچے عاشق رسول کی پہچان “کے عنوان سے پاکستان بھر بلکہ امریکہ کی متعدد ریاستوں میں جہاں مسلمان کافی تعداد میں بستے ہیں ، میں اپنا پیغام اخبارات کے ذریعے سے اور انٹرنیٹ کے ذریعے سے بھیجوایا۔ تاکہ لوگ جان سکیں کہ سچے عاشق رسول کی پہچان کیا ہے۔

مضمون: ”سچے عاشق رسول کی پہچان “

حضور نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کل عالم کےلئے سراپاءرحمت ہی رحمت ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں بلکہ تمام بنی نوع انسان اور جاندار مخلوقات کےلئے باعث رحمت ہیں۔ یہاں تک کہ مشرکین مکہ کی تمام تر گستاخیوں، ایزارسانیوں کو صلح رحمی کے تحت عفو درگزر سے کام لیتے ہوئے معاف فرماتے رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے حسن سلوک سے ہمیشہ لوگوں کو بھی عفوو درگزر ، برداشت، نرمی، رحمدلی اور معافی کی تلقین فرمائی۔ نبی آخرالزّماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سچا پیروکار اور سچا عاشق وہی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُسوہ حسنہ کی پیروی کرے اور جو اپنے کردار میں انسانیت بلکہ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق کے لیے دردِ دل اور محبت رکھتا ہو اور جس کا دل سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے نرمی ، عاجزی و انکساری، برداشت، درگزر، رحمدلی اور معافی کے مادہ سے سرشار ہو۔ نہ کہ اپنی نفسانی خواہشات(شیطانی وسوسوں) کا غلام بن کر ربّ تعالیٰ کی مخلوق کو ستانے والا پتھر دل سخت خو ہو۔ یہی میزان ہے ایک سچا عاشق رسول ہونے کا۔

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کیلئے کچھ کم نہ تھے کرّ و بیاں

کسی بھی غلطی یا خطا کو سدھارنے کیلئے اصلاح کا موقع دینا بھی عین سنت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ ایسے بے شمار حوالوں سے مزیّن ہے۔ شیطان کا ازل سے مقصد ہی نفس کی تسکین اور پوجا کروانا ہے جبکہ نبی کریم رحمة اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت انسان کو ربّ تعالیٰ کے فضل وکرم سے انسانیت کی معراج یعنی عاجزی و انکساری ، نرمی اور دوسروں کو اصلاح کا موقع فراہم کرنے کی طرف لے جاتی ہے۔ انسان کا قلبی طور پر نرم مزاج ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ رحمة اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی پیروی انسان کو انسانیت کی معراج کی طرف مائل کر رہی ہے۔ جبکہ ان جذبوں کا فقدان کھلی دلیل ہے کہ ابھی تک انسان شیطانی بہکاوے میں ہے اور انسانیت سے نفرت اور سخت مزاجی کا اظہار کرکے اپنے نفس اور شیطان کو خوش کررہا ہے۔ معاشرے میں موجود انتشار، ہٹ دھرمی اور شدت پسندی کا خاتمہ اسلامی تعلیمات کی حقیقی روح اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی سنّہ مبارکہ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے کیا جاسکتا ہے۔

اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوگا آپ مدظلہ تعالیٰ کی اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سچی محبت کا کہ پوری دنیا ایک طرف اور سچا عاشق رسول جناب صوفی محمد اسحاق شاہ صاحب مدظلہ تعالیٰ ایک طرف۔ اگر یہ پیغام پڑھ کر بھی لوگوں کی تشفی نہ ہوئی ہو تو خدارا ایک بار پھر انتہائی ادب اور عاجزی سے اپنے ربّ کے حضور گڑگڑائیں اور ”میں نہ مانوں“ جیسے متکبرانہ کلمات سے دُور ہٹ کر اللہ ربّ العالمین سے سچی ہدایت کی بھیک مانگیں کیونکہ وہ ذات تو بہت غفورالرحیم ہے۔ مزیدسمجھنے کے لیے قرآنِ پاک سے ہدایت لیجئے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ترجمہ:”اور ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے“ مزید ایک جگہ ارشاد ہے: ترجمہ: ”بے شک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اخلاق کے اعلیٰ ترین مرتبے پر فائز ہیں“

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی کسی سے ذاتی انتقام نہیں لیا بلکہ اپنے سگے چچا کے قاتلوں تک کو معاف کردیا۔ ہمیشہ دوسروں کا خیال رکھا۔ اپنی ضروریات کو دوسروں کی ضروریات پر قربان کرنے کا عملی نمونہ پیش کیا۔ نرمی، رحم دلی، معافی یا عفو ودرگزرکا مادہ رکھنے والا کوئی اور بھی ہے ایسی شان والا ۔۔۔؟

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : کیا تم لوگوں نے قرآن میں غور نہیں کیا؟

علامہ اقبال نے اس بات کی کیا خوبصورت تشریح کی ہے :
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن

قرآن کریم میں جہاں قصاص (بدلہ لینے)کا ذکر آیا ہے وہیں پر سب سے بہترین عمل یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ اگر کوئی کسی کو معاف کردے تو یہ بہت ہی حوصلے کا کام ہے۔ اب بتائیے ۔۔! کیا اور بھی کوئی ہے۔۔۔نبی رحمة اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا حوصلے والا۔۔۔؟

یقینا ہرگز ہرگز نہیں۔ تو پھر منافقین یا خارجین کے گروہ کی من گھڑت اور خود ساختہ باتوں کو کہ ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فلاں وقت میں فلاں بندے کو قتل کرنے کا حکم دیا“۔ حدیث شریف یا فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہہ کر نبی کریم رحمة اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر (معاذ اللہ )بہتان باندھنا بذاتِ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی (معاذ اللہ) توہین کرنے کے مترادف نہیں ہے؟

ایک شاعرنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ رحمت میں اپنی محبت کا اظہار کچھ اس طرح کیاہے:
جاں کے دشمن تو نئے خوف سے تھرائیں مگر
معاف کرنے کا وہ انداز پرانا دیکھوں

چشمِ اطہر کو خدایا وہ بصارت دے دے
قبلہ رو ہو کے میں آقا کو روزانہ دیکھوں

قرآنِ مجید نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُسوہ حسنہ ہے تو یقینا حدیث شریف قرآنِ کریم کی تشریح یا خلاصہ ہی ہوگی۔ لہٰذا حدیث پاک کو قرآنِ کریم کی کسوٹی پر پرکھا جائے۔ جو بات قرآنِ پاک سے مطابقت نہیں رکھتی وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث پاک یا فرمان نہیں ہوسکتی۔ یہ ہماری کم عقلی یا کم علمی ہے کہ بعض احادیث کو قرآنِ پاک سے ٹکراتا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ حقیقتاً ایسا ہرگز نہیں ہوا اور نہ ہی ہوسکتاہے کہ اللہ تعالیٰ ایک بات فرمائیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس بات کے متضاد بات فرمائیں۔

منافقین کے جھوٹے بہتان کو ردّ کرنے کیلئے سورہ والنجم کی آیت نمبر٣ کافی ہے۔ ترجمہ:”اور وہ تو بولتے ہی نہیں اپنی خواہش سے “

جب اللہ تعالیٰ خود ہی فرما رہے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر بات اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہے تو پھر بتائیے اختلاف یا تضاد کیسے ہوسکتاہے؟ قرآنِ کریم اور حدیث پاک میں؟


یہ تعلیمات ہیں جناب صوفی محمداسحاق شاہ صاحب مدظلہ تعالیٰ کی نہ صرف اپنے عقیدت مندان اور مریدین کیلئے بلکہ تمام بنی نوع انسان کیلئے ایک بہت بڑا پیغام بھی ہے ۔

اگر کوئی بدنصیب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کر بیٹھے تو فوراً اُسے موت کے گھاٹ اُتار کر واصل جہنم کرنے کی بجائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق کم ازکم تین بار اصلاح کا موقع فراہم کیا جائے۔ جیسا کہ ایک منافق مسلمان اور ایک یہودی کا کسی بات پہ تنازع ہوگیا تو دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں فیصلہ لینے کیلئے حاضر ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودی کو صحیح جانتے ہوئے اُس کے حق میں فیصلہ دے دیا۔منافق مسلمان نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کردیا اور یہودی کو لے کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس چلا آیا۔ جناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو فیصلہ دیا ہے اُسی پہ عمل کیا جائے۔ منافق مسلمان پھر بھی اپنی حرکتوں سے باز نہ آیا اور یہودی کو ساتھ لے کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ گیا اور تمام رُوداد بیان کی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اُس منافق اور گستاخ مسلمان کی گردن اُڑادی۔ اب ذرا غور کیجئے :
١۔ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (نعوذباللہ)نہیں جانتے تھے کہ یہ منافق اُن کی بات نہ مانے گا۔۔۔؟ پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے اصلاح کا موقع دیا۔

اگر کسی کا یہ ایمان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُس منافق کا اصل حال معلوم نہ تھا تو کہیں وہ خود ایسا سوچ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی تو نہیں کر رہا؟

٢۔کیا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُس گستاخ اور منافق کو اصلاح کا موقع نہیں دیا؟

٣۔کیا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُس منافق کی گردن اُڑانے سے پہلے اُسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ماننے کو نہ کہا ہوگا؟ تاکہ وہ موت اور جہنم کے عذاب سے بچ جائے۔

ذرا سوچیں۔۔۔!


سلسلہ عالیہ قادریہ چشتیہ پاکستان کی نمایاں تعلیمات

سلسلہ پاک میں داخل ہونے کیلئے سنت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق مردوں کیلئے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر بیعت لی جاتی اور خواتین کیلئے شرعی پردے میں رہ کر کسی بڑے کپڑے یا رومال کو تھام کر بیعت لی جاتی ہے۔

معاشرے میں بہترین زندگی گزارنے کیلئے چند ضروری ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے جن میں :

١۔کثرت سے ذکرالٰہی۔

٢۔ عاجزی و انکساری اور صلہ رحمی۔

٣۔ وفاداری اور ثابت قدمی۔

٤۔ گناہوں سے سچی توبہ کرنا اور قرآنِ پاک میں جن باتوں سے منع کیا گیا ہے اُن سے بچنا۔
ربّ تعالیٰ سے ڈرنا اور شکر ادا کرنا ۔

٥۔ واسطے اللہ بھلائی کرنا ، دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنا اور انسانوں کا احترام کرنا-


تاکہ ایک ایسا صحیح اسلامی معاشرہ قائم ہوسکے جس میں امن و امان اور سکون ہو۔

کسی کو بھی ذاتی طور پر یا سلسلہ پاک کے نام پر شیرینی ، چندہ، نذرنیاز اکٹھا کرنے یا اُگراہی کرنے کی ہرگز اجازت نہیں بلکہ سلسلہ پاک کے سب ہی ماننے والے پوری دیانتداری سے اپنی محنت مزدوری سے کمائی ہوئی حلال کمائی میں سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کیلئے خرچ کرتے ہیں۔

اسلام زندہ باد پاکستان زندہ باد
صوفی ازم زندہ باد انسانیت زندہ باد
Iqbal Javed
About the Author: Iqbal Javed Read More Articles by Iqbal Javed: 11 Articles with 17778 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.