آزاد کشمیر کی شرمناک سیاسی صورتحال

آزاد کشمیر حکومت کا قیام تمام متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کے نمائندہ کے طور پر عمل میں لایا گیا ۔ تحریک آزادی کشمیر کے بیس کیمپ کے طور پر آزاد کردہ ریاست کے اس حصے میں طویل عرصہ وزارت امور کشمیر کی حاکمیت قائم رہی۔ مختلف اوقات میں جمہوری حکومتیں بھی قائم ہوئیں لیکن پاکستان کے اداروں کی حاکمیت کا ماحول ہر دور میں حاوی رہا ۔آزاد کشمیر کے موجودہ آئین (عبوری ایکٹ 1974 ئ) کی بھی حیثیت یہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے اسے منسوخ کر سکتے ہیں۔آزاد کشمیر میں انتخابی سیاست شروع ہوتے ہی برادری ازم کی بنیاد پر مفادات کی جنگ شروع ہوگئی جس نے آگے چل کر بدترین کرپشن کو جنم دیا۔ کوئی وقت تھا کہ آزاد کشمیر کو مقبوضہ کشمیر کے لئے ماڈل کے طور پر دکھانے کی کوشش کارفرما رہی۔ لیکن برادری ازم کو میرٹ بنا لینے اور کمیشن و کرپشن کو حکومتوں کے لئے جائز قرار دینے کا چلن عام چلا آرہا ہے۔ سابق مشرف دور میں فوجی حکام سے منظوری کے بغیر آزاد کشمیر حکومت کوئی بھی کام کرنے سے مجبور تھی۔ پھر مشرف حکومت کے تسلسل میں موجودہ ”جمہوری“ حکومت قائم ہوئی تو وزارت امور کشمیر اور چند وفاقی وزراء کی حاکمیت آزاد کشمیر پر قائم ہوگئی۔ ساتھ ہی ایک حساس ادارے کی حاکمیت بھی مستحکم انداز میں قائم ہے۔

بلاشبہ آزاد کشمیر میں گزشتہ چالیس سال کے دوران کھربوں روپے کے بجٹ جاری ہوئے ، اس کثیر پیسے سے آزاد کشمیر کو ماڈل علاقہ بنایا جا سکتا تھا لیکن گزشتہ بیس سال کا عرصہ ہی دیکھیں تو آزاد کشمیر کے کئی سفید پوش سیاستدانوں کا شمار اب امراء میں ہوتا ہے۔آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے مختلف اضلاع میں اربوں روپے مالیت کے ترقیاتی منصوبوں کے ٹینڈر طلب کئے گئے ہیں جبکہ آزاد کشمیر حکومت کی مالیاتی صورتحال یہ ہے کہ فنڈز کی کمی کی وجہ سے آزاد کشمیر کے اکثر چھوٹے بڑے تعمیراتی منصوبوں پر کام بند ہے اور متعدد اہم منصوبے ختم کر دیئے گئے ہیں۔ نومبر ، دسمبر اور جنوری میں آزاد کشمیر حکومت نے اربوں روپے مالیت کے ترقیاتی کاموں کے ٹینڈر طلب کئے ہیں ۔ چند ماہ کے بعد ہونے والے اسمبلی انتخابات کے تناظر میں عوام کو مطمئن کرنے کے لئے فنڈز نہ ہونے کے باوجود اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبوں کے ٹینڈر جاری کئے گئے ہیں۔ دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ تین چار سال کے دوران مختلف ترقیاتی منصوبے مکمل کرنے والے ٹھیکیداروں کو اربوں روپے کی ادائیگیاں بقایا ہیں۔ جس ٹھیکیدار کے بقایا کروڑوں میں ہیں انہیں چند لاکھ کی ادائیگی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ وفاقی حکومت نے مالیاتی بحران کو جواز بناتے ہوئے آزاد کشمیر میں جاری متعدد ترقیاتی منصوبے ختم کر دیئے ہیں۔ جن میں رٹھوعہ ہریام پل اور کئی دوسرے بڑے منصوبے بھی شامل ہیں۔ اس طرح آزاد کشمیر میں مالیاتی بحران سیاسی حربوں کی وجہ سے سنگین سے سنگین ترین ہوتا جا رہا ہے اور آزاد کشمیر کا بھاری بھرکم انتظامی وجود دیوالیہ پن کا مؤجب بن سکتا ہے۔وفاقی حکومت کی طرف سے فنڈز پر کٹوتی اور حکومتی شاہ خرچیوں کی وجہ سے آزاد کشمیر حکومت کے دیوالیہ ہونے کو ہے۔سرکاری ادائیگیاں بند ہیں ۔ دوسری طرف حکومت کے شاہانہ اخراجات کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ رواں مالی بجٹ میں آزاد کشمیر حکومت کو وفاقی حکومت کی طرف سے گیارہ ارب کے بجائے صرف تین ارب روپے وصول ہوئے ہیں دوسری طرف وزیر اعظم آزاد کشمیر اور کابینہ کی طرف سے شاہانہ اخراجات کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ آزاد کشمیر حکومت کے بجلی کے اربوں روپے کی نادہندہ ہے جس سے پورے آزاد کشمیر میں بجلی بند کرنے کا امکان ہے جبکہ آزاد کشمیر کے عوام پہلے ہی لوڈ شیڈنگ کے ہاتھوں عاجز ہیں ۔ دوسری طرف حکومتی اور سرکاری حکام کی پر تعیش مراعات میں اضافے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ بدترین مالی بحران کی وجہ سے سرکاری افسران کی تنخواہوں میں اضافے میں کمی کی تجویز والی فائل کو غائب کر دیا گیا ہے۔ یہ کہنا مناسب ہے کہ بدترین کرپشن،اقرباء پروری،پرتعیش سرکاری مراعات اور نمایاں بدانتظامی نے آزاد کشمیر کو ہولناک اقتصادی بدحالی کی نظر کر دیا ہے ۔آزاد کشمیر کے سیاسی سسٹم میں تبدیلی لائے بغیر آزاد کشمیر کو مالی دیوالیہ پن سے بچانا ممکن نہیں ہے۔آزاد کشمیر کا نظام مقبوضہ کشمیر کے عوام کے لئے پرکشش مثال بننے کے بجائے بدحالی اور بدنامی کا باعث ہے۔ 2006ء میں قائم ہونے والی حکومت سے اب تک آزاد کشمیر میں ایسی سیاسی شعبدے بازیاں دیکھنے میں آئیں کہ عوام دنگ رہ گئے۔ اب کشمیر کونسل کے الیکشن میں مسلم کانفرنس نے مالدار افراد کو ٹکٹ جاری کئے اور اس معاملے میں کروڑوں روپوں کا لین دین کا سکینڈل سامنے آرہا ہے۔ مسلم کانفرنس کے سینئر نائب صدر کیپٹن(ر)محمد سرفراز خان نے کروڑوں روپے لیکر ٹکٹ جاری کرنے کی معاملے پر حساس اداروں سے بھی نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

یوں تحریک آزادی کے بیس کیمپ کے طور پر قائم آزاد کشمیر کا خطہ اپنے بنیادی کردار کو نظرانداز کرتے ہوئے ایسی صورتحال کا منظر پیش کررہا ہے کہ جہاں کے عوام نفرت٬ مخالفت٬ دشمنی کے ذریعے تقسیم درتقسیم ہونے کے علاوہ آزاد کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت پر مبنی سیاسی سسٹم کا وجود ہی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان بھی ریاست جموں و کشمیر کے متنازعہ علاقے میں شامل ہیں۔ آزاد کشمیر کی موجودہ سیاسی صورتحال سے مقبوضہ کشمیر کے پاکستان سے والہانہ محبت کرنے والے عوام کو منفی پیغام جارہا ہے۔ آزاد کشمیر کی موجودہ سیاسی صورتحال کشمیر کاز اور مملکت پاکستان کے وسیع تر مفادات لئے نہایت نقصاندہ ہے۔ آزاد کشمیر میں کمیشن و کرپشن کلچر کے خاتمے اور حکومتوں میں باکردار افراد کو آگے لائے بغیر بہتری کی امید نہیں کی جا سکتی۔ وفاقی حکومت اور قومی سلامتی سے متعلق اداروں کو آزاد کشمیر کے اس سنگین معاملے کا سختی سے نوٹس لینا چاہئے۔ کشمیر کاز اور عوامی مفاد میں بہتری کے اقدامات نہ اٹھانے کی نتائج قومی سطح پر مہلک ہو سکتے ہیں۔ کشمیر کاز کے نام پر آزاد کشمیر کی کسی شخصیت کی بدعنوانیوں کو نظرانداز کرنا خود کشمیر کاز کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہوگی۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 618528 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More