دور حاضر میں حق شناسی و رہنمائی کیلئے روشنی کی ایک کرن-حصہ چہارم

دوسری اہم بات یہ بھی تو ہو سکتی ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے دور سے ہی منافقین اور خارجین کا ایک گروہ دین اسلام کے ازلی پیغام کی اصل روح کو مسخ کرنے پر تلا ہوا تھا جسکو بے نقاب کرنے کیلئے حضرت علی کرم الله وجہہ کو منافقین کی طرف سے مسلط کی گئی جنگ لڑنا پڑی اور اپنی جان پاک کا نذرانہ پیش کرنا پڑا مگر منافقین کو انکی شیطانی چالوں میں کامیاب نہ ہونے دیا ۔ انہی منافقین نے کئی دوسرے جلیل القدر صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کو بھی حضرت علی کرم الله وجہ کے خلاف اکسانے کی ناپاک جسارت کی مگر ناکام رہے۔

حضرت علی کرم الله وجہہ کی شہادت کے بعد یہ بار امانت (امامت) اور اذن خاص حضرت امام حسین علیہ السلام کو عطا ہوا جنہوں نے معرکہ کربلا میں اپنی اور اپنے بہتر (٧٢) جان نثار شہدا کی قربانی دے کر دین اسلام کی اصل روح کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے زندہ و پائندہ کر دیا اور دین میں بگاڑ پیدا کرنے والے نام نہاد ملاؤں اور ملوکیت کی دلدادہ حکومت کو زمانے بھر کے آنے والے انسانوں کی نظر میں ذلیل و رسوا کر دیا۔ صد افسوس کہ چند افراد آج بھی اس معرکئہ حق و باطل کو دو شہزادوں کی جنگ کہتے نظر آتے ہیں۔ اے کاش! وہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے ان فرمودات کا بغور مطالعہ کرتے کہ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

١) حسن و حسین (علیہ الصلوتھ و السلام) جنت کے سردار ہیں۔
٢) میں (محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلم ) حسین (علیہ السلام) سے ہوں اور حسین (علیہ السلام) مجھ (صلی الله علیہ وآلہ وسلم ) سے ہے۔ مگر شیطان (اور اسکے چیلے جو ازل سے ہی انسان اورانسانیت کے کھلم کھلا دشمن ہیں، وہ حق کا بول بالا کیسے برداشت کر سکتے ہیں) نے ان لوگوں کی بد نیتی، انا اور نفس پرستی کی وجہ سے انھیں اپنا پیروکار بنالیا اور حق بات سے دور کر دیا۔

حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت عظمی کے بعد یکے بعد دیگرے یہ بار امانت (امامت) اور اذن خاص اور نر ہدایت سادات کے درخشاں ستاروں حضرت امام زین العابدین، حضرت امام باقر، حضرت امام جعفر صادق، حضرت امام موسیٰ کاظم رضوان الله علیہم اجمعین کے سپرد ہوا۔ یہ حضرت امام موسیٰ کاظم رضی الله عنہ ہی ہیں جنہوں نے کلمہ حق کی آواز کو بلند رکھنے کیلئے قریبا چودہ (١٤) سال قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں مگر امت محمدیہ پر ایک بہت ہی عظیم احسان یہ بھی کیا کہ آپ رضی الله عنہ نے واضح اعلان فرما دیا کہ سادات کے علاوہ امت محمدیہ میں سے کوئی بھی شخص پیشوا یا سربراہ بننے کا اہل ہوا تو اسے بھی یہ اذن خاص اگر رب تعالیٰ کو منظور ہو تو عطا ہو سکتا ہے۔ یعنی یہ بار امانت (امامت) اور اذن خاص پہلی بار آل یا اولاد علی کرم الله وجہہ سے نکل کر امت کے اہل شخص کو بھی عطا ہونے کا اعلان ہوا۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اس دن نہیں نفع دے گی کوئی سفارش سوائے س شخص کے شفاعت کے جسے رحمان نے اذن دیا ہو اور پسند فرمایا ہو اسکے قول کو“۔

مزید ایک جگہ ارشاد ہوا (ترجمہ) جس دن پکارے جائیں گے تمام لوگ اپنے اپنے پیشوا (امام) کے ساتھ“۔ (القرآن)

دراصل ہر دور میں مرشد کامل یا پیشوا ہی صاحب اذن ہوتا ہے اور وہ اپنے مرشد کامل (امام) کے اذن (اجازت) سے دین کی تبلیغ و اشاعت کے اس عزم کو لیکر آگے بڑھاتا ہے۔

سینہ بہ سینہ یہ چیز صرف مرشد کامل کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے (رب تعالیٰ کی رضا سے) مریدین کے ہی حصہ میں آتی ہے۔ وہ اولاد بھی ہو سکتی ہے اور مریدین میں سے بھی۔ مگر جو بھی الله تعالیٰ اور الله کے رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق اپنے پیشوا یا مرشد کا صحیح پیروکار ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت امام موسیٰ کاظم رضی الله عنہ کے بعد حضرت امام موسیٰ رضا رضی الله عنہ نے اپے ایک انتہائی متقی اور پرہیزگار مرید حضرت معروف کرخی رضی الله عنہ کو یہ بار امانت منتقل کیا جو کہ سادات یا اہل بیت سے نہیں مگر اپنے تقویٰ، تزکیہ نفس، اطاعت، وفاداری اور عاجزی اور انکسای کی وجہ سے اور الله تعالیٰ کے خاص فضل و کرم اور رحمت سے امامت کے اہل قرار پائے۔ اسی طرح آپ جناب حضرت معروف کرخی رضی الله عنہ نے اپنے خاص الخاص مرید حضرت سری سقطی رضی الله عنہ کو اپنے بعد اپنا خلیفہ مقرر فرمایا۔

اسی طرح حضرت جنید بغدادی رضی الله عنہ جو اپنے زمانے کے امام الاولیاء اور سید الطائفہ کے لقب سے مشہور ہوئے گو اپنے مرشد کامل جناب حضرت سری سقطی رضی الله عنہ سے، رب تعالیٰ کی رضا سے اذن خاص اور نور ہدایت عطا ہوا۔ اسی طرح کوئی زمانہ بھی ایسا نہیں گزرا کہ کوئی نہ کوئی کامل ولی الله موجود نہ ہو، بلکہ یہ سلسلہ ولایت تو قیامت سے پہلے روز آخر تک جاری و ساری رہے گا۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی، محبوب سبحانی المعروف غوث اعظم رضی الله عنہ اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری المعروف خواجہ غریب نواز رضی الله عنہ کی ذوات قدسیہ سے کون انکار کر سکتا ہے۔

جاری ہے --
Iqbal Javed
About the Author: Iqbal Javed Read More Articles by Iqbal Javed: 11 Articles with 17775 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.