جرح و تعدیل کا فن.1

جرح و تعدیل کا فن بھی تو محض لوگوں کی آراء ہیں۔ اس پر انحصار کیسے؟

جرح و تعدیل کے ماہرین نے حدیث کے راویوں کو قابل اعتماد یا ناقابل اعتماد قرار دینے کا جو کام کیا ہے، وہ غیر معمولی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے محض اٹکل پچو سے کسی راوی کو ثقہ اور کسی کو غیر ثقہ قرار دے دیا ہو۔ اس کے لئے انہوں نے غیر معمولی محنت سے کام کیا ہے۔ یہ ماہرین ان راویوں کے شہروں کا سفر کیا کرتے تھے اور وہاں کے لوگوں سے ان کے حالات اور عمومی شہرت کے بارے میں معلومات حاصل کیا کرتے تھے۔ انہوں نے ایسا اس وقت کیا جب نقل و حمل کے ذرائع بھی ترقی یافتہ نہ تھے۔

جرح و تعدیل کے ماہرین کا خاص طریقہ یہ تھا کہ ہر ہر راوی کی عجیب و غریب باتوں کو نوٹ کیا کرتے تھے۔ اسے ہم ایک مثال کے ذریعے بیان کرتے ہیں۔ فرض کیجیے کہ ایک صحابی سے بیس تابعین عموماً حدیث روایت کرتے ہیں۔ ان صحابی سے ایک حدیث روایت ہوئی ہے۔ جرح و تعدیل کا ماہر یہ دیکھے گا کہ اس حدیث کو ان بیس تابعین میں سے کس کس نے روایت کیا ہے اور ہر ایک کے الفاظ کیا ہیں۔ فرض کیجیے کہ اس حدیث کو بیس میں سے دس تابعین نے روایت کیا۔ ان دس میں نو نے حدیث کو ایک جیسے الفاظ اور معانی کے ساتھ روایت کیا جبکہ ایک تابعی نے مختلف الفاظ سے روایت کیا۔ یہ الفاظ اتنے مختلف ہیں کہ اس سے حدیث کا مفہوم بدل جاتا ہے۔

انسانوں کے ہاں غلطی یا بھول چوک سے کبھی کبھار ایسا فرق واقع ہو جاتا ہے۔ یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے مگر جرح و تعدیل کا ماہر اس راوی کے نام کے گرد ایک سرخ دائرہ لگا لے گا۔ اب وہ اس راوی کی روایت کردہ دیگر احادیث کا موازنہ اس کے ہم عصر دیگر تابعین کی روایات سے کرے گا۔ اگر اکثر حدیث میں ہی ایسا فرق پایا جاتا ہو تو پھر اس کا مطلب ہے کہ اس راوی کے ہاں کوئی گڑ بڑ ہے۔ اس صورت میں اس راوی سے متعلق شک مزید پختہ ہو جائے گا۔ اس کے بعد اس راوی کے حالات کی مزید تفتیش کی جائے گی۔

فرض کیجیے کہ مزید تحقیقات سے واضح ہوتا ہے کہ اس راوی کے پندرہ شاگرد ہیں۔ ان میں سے تیرہ تو اس راوی سے جو احادیث روایت کرتے ہیں، وہ دوسرے ثقہ راویوں کی بیان کردہ احادیث سے مطابقت رکھتی ہیں مگر دو شاگرد ایسے ہیں جن کی بیان کردہ احادیث میں گڑ بڑ ہوتی ہے۔ اب تفتیش کے دائرے میں ان دو شاگردوں کو شامل کر لیا جائے گا۔ اس طرح سے یہ سلسلہ ان شاگردوں کے شاگردوں تک جا پہنچے گا اور یہ واضح ہوتا چلا جائے گا کہ غلطی یا فراڈ کا منبع کون ہے؟ اس تفتیش سے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ کوئی راوی محض غلطیاں ہی کرتا ہے یا پھر وہ جان بوجھ کر احادیث میں ملاوٹ کرتا ہے؟

جو حضرات اس موضوع میں دلچسپی رکھتے ہوں، وہ امام مسلم کی "کتاب التمییز" کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جرح و تعدیل کے ماہرین نے ایسے ہی راویوں کو ثقہ یا ضعیف قرار نہیں دیا بلکہ اس کے پیچھے ایک ٹھوس علمی اور عقلی کام موجود ہے۔

کہیں ہم صحیح احادیث کو رد تو نہیں کر رہے؟
ایک اور سوال یہ ہے کہ اتنے سخت معیار (Criteria) کے نتیجے میں جہاں ہم جعلی احادیث کو اصلی احادیث سے الگ کر رہے ہیں وہاں یہ بھی عین ممکن ہے کہ کچھ اصلی احادیث بھی ہمارے معیار کی سختی کی وجہ سے مسترد کر دی جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا بالکل ممکن ہے اور ایسی صورتحال سے کسی صورت میں بھی چھٹکارا ممکن نہیں ہے۔ بہت سی ایسی احادیث جنہیں ہمارے اہل علم کمزور اور ضعیف قرار دے چکے ہیں ، عین ممکن ہے کہ حقیقت میں بالکل اصلی اور صحیح احادیث ہوں۔ لیکن اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے غلط طور پر منسوب کرنے کا معاملہ اس سے سخت تر ہے کہ آپ کی کسی صحیح حدیث کو مسترد کر دیا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی صورت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے ہمارے پاس کوئی عذر نہ ہو گا جبکہ دوسری صورت میں ہمارے پاس یہ عذر موجود ہو گا کہ حدیث ہم تک قابل اعتماد ذرائع سے نہیں پہنچی ہے۔
Khalid Mahmood
About the Author: Khalid Mahmood Read More Articles by Khalid Mahmood: 24 Articles with 47975 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.