کشمیری فریڈم فائٹر سید صلاح الدین سے ایک انٹرویو

سید علی شاہ گیلانی اور سید صلاح الدین مقبوضہ کشمیر میں رواں تحریک آزادی کی دو سرکردہ شخصیات ہیں۔ سید علی شاہ گیلانی کا مقبوضہ کشمیر میں عوامی راج قائم ہے اور وادی کے عوام ان کی ہر آواز پر لبیک کہتے ہیں۔یوں تحریک آزادی کشمیر کے سیاسی شعبے کی قیادت سید علی شاہ گیلانی کو ہی حاصل ہے۔جیسے سید علی شاہ گیلانی کو تحریک آزادی کشمیر کے سیاسی شعبے کی سربراہی حاصل ہے اسی طرح سید صلاح الدین کشمیریوں کی بھارت سے آزادی کے لئے جاری تحریک آزادی کے عسکری شعبے کی قیادت کر رہے ہیں۔تعطل شدہ پاکستان بھارت مذاکرات دوبارہ شروع ہونے اور پاکستان کی طرف سے سابق صدر مشرف کی کشمیر پالیسی کے مطابق ہی بھارت سے مذاکرات کو آگے بڑھانے کی صورتحال کے تناظر میں انہی دنوں سید صلاح الدین سے ایک خصوصی ملاقات میں مسئلہ کشمیر اور پاکستان بھارت تعلقات کے حوالے سے تفصیلی بات چیت ہوئی ۔

سید صلاح الدین نے کہا کہ مشرف حکومت نے مسئلہ کشمیر سے متعلق پاکستان کے تاریخی،اصولی اور حق خود ارادیت کی قومی پالیسی سے ہٹ کر ایک نیا چار نکاتی فارمولہ پیش کیا جسے بھارت نے اسی وقت مسترد کر دیا اور آخر تک بھارت نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔لیکن مشرف دور میں ہی سیز فائر ہوا،با ڈر پر خار دار تاروں کی باڑ نصب ہوئی اور کشمیر کے آر پار تجارت،ثقافتی و میڈیا وفود کے تبادلے کی طرح کی سرگرمیاں شروع ہوئیں جن کا مسئلہ کشمیر کے حل کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا،دونوں ملکوں کے درمیان ”ٹینشن“ وقتی طور پر کم ہوئی لیکن بنیادی مسئلہ کے حل کی جانب کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔سید صلاح الدین نے کہا کہ موجودہ حکومت کی پالیسی میں ایک فرق یہ ہے کہ یہ حکومت کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی بات کرتی ہے جو پاکستان کا قومی مؤقف ہے۔اس پالیسی سے ہٹ کر بھارت سے مذاکرات لاحاصل اور بے فائدہ ہوں گے۔دونوں حکومتیں مل کر کوئی معاملہ طے کر بھی لیں تو وہ کشمیریوں پر مسلط نہیں کیا جا سکتا ۔ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کشمیریوں کی خواہشات سے ہٹ کر ایسا کوئی فیصلہ قبول نہیں کرے گا جس سے پاکستان کا قومی تشخص پر مبنی مؤقف مجروح ہوتا ہو۔ماضی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان باہمی سمجھوتے ہوئے لیکن کشمیریوں نے اسے مسترد کر دیا۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت بھی بھارت کے ساتھ ایک مفاہمتی راستہ اختیار کرنا چاہتی ہے ۔اگرچہ بظاہر موجودہ حکومت بلخصوص شاہ محمود قریشی جو اب آفس میں نہیں ہیں ،واضح کر چکے ہیں کہ پاکستان حق خود ارادیت کے موقف کے ساتھ بھارت سے مذاکرات کرے گا۔سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی معاملات کو اچھی طرح ڈیل کر رہے تھے۔ڈاکٹر غلام نبی فائی کا یہ کہنا درست ہے کہ حالیہ مذاکرات مشرف پالیسی کے تسلسل میں ہی ہوں گے،چناچہ ان مذاکرات سے مسئلہ کشمیر کو حل کرنا تو دور کی بات ہے اس سے کشمیر کاز کو بھی نقصان پہنچے گا۔ بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے آج بھی بھارت سے کوئی توقع وابستہ نہیں کی جا سکتی۔مذاکرات برائے مذاکرات چلتے رہیں گے،جب تک بھارت تاریخی،جغرافیائی حقائق تسلیم نہیں کرتا ،کشمیر کو متنازعہ تسلیم نہیں کرتا ،سہ فریقی مذاکرات پر رضامند نہیں ہوتا اور اقوام متحدہ کی کشمیر سے متعلق قراردادوں یا کشمیریوں کے لئے قابل قبول حل تلاش نہیں کرتا اس وقت تک مذاکرات بے فائدہ ہوں گے۔پاکستان اور بھارت
کے درمیان موجودہ مذاکراتی عمل اطمینان بخش نہیں ہے اور نہ آئندہ ہو سکتے ہیں۔

سہ فریقی مذاکرات میں کشمیریوں کی نمائندگی کے سوال کے جواب میں سید صلاح الدین نے کہا کہ مذاکرات میں کشمیریوں کی نمائندگی وہی کرے گا جو کشمیری عوام کے جذبہ حریت کی نمائندگی کرتے ہیں۔کشمیر کے ”پرو انڈین“ عناصر کو بات کرنے کا حق حاصل نہیں ہے،وہ انڈین سسٹم میں گم ہو چکے ہیں اور اس حق سے محروم ہو چکے ہیں۔مذاکرات میں کشمیری نمائندے مسئلہ کشمیر کو متنازعہ حیثیت دے کر اس کے مستقبل کے تعین کے بارے میں بات کریں گے کہ کشمیر کے سیاسی مستقبل کا تعین کیا جائے،ایسا اقوام متحدہ کی کشمیر سے متعلق قراردادوں پر عمل سے بھی ہو سکتا ہے اور تینوں فریقین کے مذاکرات کے نتیجے میں بھی ہو سکتا ہے ۔مسئلہ کشمیر کے حل کو ٹالا نہیں جا سکتا ،یہ آر پار کے ڈیڑھ کروڑ عوام کے سیاسی مستقبل کا سوال ہے۔کشمیری ” فریڈم فائٹرز“ کے سربراہ نے کہا کہ” نائن الیون“اور عالمی سطح پر دنیا میں جہادی تحریکوں کے خلاف اعلان جنگ ہوا تو پاکستان اور بیس کیمپ(آزاد کشمیر)میں بھی اس کے اثرات پڑے جس کے نتیجے میں کشمیریوں کی مسلح جدوجہد آزادی کو ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ تما م مسائل و مشکلات کے باوجود کشمیری مجاہدین کا ڈھانچہ موجود ہے اور ان کی آپریشنل صلاحیت بھی کسی نہ کسی درجے میں موجود ہے اور کشمیری مجاہدین جب بھی چاہیں قابض بھارتی فورسز کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔البتہ جہادی قیادت نے موجودہ حالات کے تناظر میں بلخصوص جب سے جموں و کشمیر کے اندر عوامی مزاحمتی تحریک زور و شور سے سامنے آئی ،اس تناظر میں مجاہدین نے حکمت عملی میں تبدیلی لائی ہے۔شرائن بورڈ کے معاملے پر پوری قوم سڑکوں پر آ گئی اور انہوں نے بھارتی فوج کے مکمل انخلاء کا مطالبہ کیا۔2009ءمیں دو خواتین کی آبرو ریزی کے واقعہ کے رد عمل میں تمام کشمیر کے عوام سڑکوں پر آگئے ۔2010ءمیں چھ سات ماہ کے دوران فقید المثال عوامی مزاحمتی تحریک چلی،اسی دوران ایک موقع پر 17لاکھ سے زائد کشمیری سرینگر عید گاہ میں جمع ہوئے اور انہوں نے بھارت سے آزادی کا مطالبہ کیا۔تب سے جہادی قیادت نے طے شدہ حکمت عملی کے مطابق کشمیر کے آبادی والے علاقوں میں کاروائیاں کرنا ترک کر دیا اور سرحدی علاقوں کا رخ کیا تاکہ قابض بھارتی فورسز مجاہدین کا بہانہ بنا کر نہتے کشمیریوں کو گولیوں کا نشانہ نہ بنا سکیں۔سانبھا سے کرناہ تک کشمیری مجاہدین کی کاروائیاں وقفے وقفے سے جاری ہیں اور تسلی بخش کاروائیاں ہوتی جا رہی ہیں۔سید صلاح الدین نے کہا کہ کشمیر میں گزشتہ 20سال سے مسلح جدوجہد چل رہی ہے اور مسلح جدوجہد کئی معاملات میں خود کفیل ہوئی ہے،کشمیری مجاہدین اوپن انڈین مارکیٹ سے مطلوبہ اشیاء حاصل کر کے استعمال میں لا سکتے ہیں۔کشمیر کا جغرافیائی محل وقوع مقامی طور پر تربیتی کیمپ کا موقع فراہم کرتا ہے اور اس سے ہم بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔سید صلاح الدین نے کہا کہ تحریکی کامیابی کے لئے کسی بھی محاذ کی حریت پسند قوتوں کے درمیان ہم آہنگی ،اتحاد اور ڈسپلن ضروری ہے۔ساتھ ساتھ تحریک کے تینوں شعبوں کے درمیان ” کوآرڈینیشن“ ،سوچ و ” اپروچ“ میں ہم آہنگی ضروری ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ تحریکی صفوں میں ایسے عناصر جو کشمیر کاز سے مخلص نہیں،تحریکی صفوں سے ان کی تطہیر بہت ضروری ہے۔تحریک سے متعلق کمزوریوں کی نشاندہی ہوتی رہی ہے۔

سید صلاح الدین نے آزاد کشمیر میں سیاسی پراگندگی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ آزاد کشمیر میں قومی سطح کی حکومت ہونی چاہئے۔آزاد کشمیر میں حریت پسند و سیاسی قوتوں کی مشترکہ قومی حکومت ہو جو جموں و کشمیر کی رواں تحریک آزادی کی پشت بانی کرے،اس کے لئے بجٹ مختص کرے،تحریک کے نتیجہ میں متاثر ہونے والوں،بیواﺅں،یتیموں ،شہداء کی خاندانوں کے لئے گھر کی طرح کی راحت و کفالت کا بندوبست کرے اور مجاہدین کو تربیت ،ساز و سامان فراہم کر سکے۔بھارت مقبوضہ کشمیر میں قیامتیں ڈھا رہا ہے،انسانی حقوق کی پامالی ،کشمیریوں کے قتل عام کی صورتحال دنیا کے سامنے لائے اور عالمی توجہ مسئلہ کشمیر کی جانب مبذول کرائے۔یہ بیس کیمپ کا اصل کردار ہے اور آج تک آزاد کشمیر میں ایسا نہیں ہوا ۔چودھری غلام عباس ؒ نے اس تناظر میں درست کہا تھا کہ انتخابی سیاست سے آزاد کشمیر اپنے مقصد اعلیٰ سے بھٹک جائے گا۔مقبوضہ کشمیر میں رواں تحریک کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ آزاد کشمیر اپنے بنیادی کردار کی طر ف توجہ دے۔سید صلاح الدین نے کہا کہ پاکستان کے عوام اور حکومت کشمیریوں کی تحریک آزادی کی پشت بان ہے ،کوئی بھی حکومت کشمیر کاز سے ہٹ نہیں سکتی ،جو حکومت ایسا کرے گی وہ اقتدار میں نہیں رہ سکے گی۔پاکستان حکومت بنیادی ”اشو“ کو چھوڑ کر انرجی ضائع نہ کرے۔انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے معاملات سے بے خبری کے عالم میں ایک پیکج دیا گیا جو عملاً صوبائی سٹیٹس کی طرح ہے۔گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنانا تحریک آزادی کشمیر اور اقوام متحدہ کی کشمیر سے متعلق قرار دادوں کے لئے نقصان دہ ہے ۔گلگت بلتستان کے عوام کو ان کے حقوق دینا حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے۔آزاد کشمیر کے عوام نے اپنی مرضی سے اپنا ناطہ پاکستان سے استوار کیا ہے لیکن چند انتظامی معاملات سے محسوس ہوتا ہے کہ آزاد کشمیر آزاد نہیں ہے،آزاد کشمیر کے کلیدی عہدوں پر مرکز سے تقرری ہوتی ہے ۔چناچہ آزاد کشمیر کے آئینی تقاضوں کو پورا کیا جائے تو یہ آزاد کشمیر اور پاکستان کے حق میں بہتر ہے۔

سید صلاح الدین نے کہا کہ تحریک آزادی میں سیاست اور سفارتی محاذ کا اپنا کردار ہے لیکن بیرونی فوجی قبضہ سوائے مسلح جدوجہد کے نہ کبھی ختم ہوا ہے ا ور نہ ختم ہوتا نظر آتا ہے۔غلام قوموں کا ووٹ نہیں ہوتا،جب تک غلامی کی زنجیریں کٹ نہ جائیں ،اس وقت تک کشمیری نام نہاد الیکشن میں ووٹ نہ دیں۔1987ء میں مسلم متحدہ محاذ کے امیدوار کے حیثیت سے میں نے لال چوک سرینگر کے حلقے سے الیکشن میں حصہ لیا،میرے مدمقابل وزیر تعلیم غلام محی الدین شاہ تھے ،خود ان کے گھر والوں ،رشتہ داروں نے مجھے ووٹ دیئے لیکن بھارتی حکومت کے حکم پر پولیس نے مجھے گرفتار کیا اور کشمیریوں کی رائے کو نظر انداز کرتے ہوئے من مانے نتائج جاری کئے۔میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ غلام کا کوئی ووٹ نہیں ہوتا، لہٰذا غلامی کے بندھن توڑنے کے لئے متحدہ تیر بہدف جدوجہد ناگزیر ہے ۔انڈیا کشمیر سے جلد نکل سکتا ہے اگر متحدہ قیادت کے زیر سایہ ریاست گیر ہو اورمنظم مسلح جدوجہد ہو۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 613145 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More