السلام علیکم ورحمتہ اﷲ و برکاتہ

دنیا بھر کی قوموں کے مختلف قسم کے سلام ہیں جو وقت کے مطابق بدلتے رہتے ہیں۔ اسلام کے ماننے والوں کے لئے ،اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بعد انھیں اور انکی اولاد کے لئے جس سلام کا تحفہ عطا فرمایا وہ ہے السلام علیکم ورحمة اللہ، جس کا مطلب ہے تم پر اللہ کی سلامتی اور رحمت ہو۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا۔ آپ کے قد کی لمبائی 60ہاتھ تھی۔ آپؑ کی تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے فرمایا، اس جماعت کو سلام کرو‘ اور سنو کیا جواب ملتا ہے ۔ جو جواب ملے وہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا جواب ہوگا۔ وہاں فرشتوں کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی۔آدم علیہ السلام اس جماعت کے پاس گئے اور انھیں مخاطب کر کے ” السلام علیکم “کہا ۔ فرشتوں نے جواب میں ”السلام علیک و رحمتہ اللہ“کہا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انھوں نے ”ورحمة اللہ “ کا اضافہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید کہا کہ جو شخص بھی جنت میں داخل ہوگا وہ آدم علیہ السلام کی شکل پر ہوگا اور اس کا قد 60 ہاتھ لمبا ہوگا لیکن آدم علیہ السلام کے بعد انسانی قد میں مسلسل کمی ہوتی رہی ہے۔ (بخاری، مسلم)

”السلام“ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے جس کے معنی ہیں سلامتی بخشنے والا۔ سلام امّت مسلمہ پر اللہ تعالیٰ کا خاص احسان ہے اور ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ بھی‘ جو اپنی امّت کے لئے ہمیشہ دعائیں فرماتے رہے۔ ہم مسلمانوں کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیئے کہ سلام کے الفاظ ‘ عربی زبان کے صحیح تلفظ اور الفاظ کے مطابق ادا کیئے جائیں۔ کیونکہ جب یہودی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تو انھیں السلام علیکم کہنے کے بجائے اسام علیکم کہتے ۔ اسام کے معنی تجھے موت آئے کے ہیں۔ عربی زبان میں اعراب اور تلفظ کی غلط ادائیگی سے معنی تبدیل ہوجاتے ہیں۔ قرآن شریف پڑھتے اور تلاوت کرتے وقت اعراب اور الفاظ کے تلفظ کی صحیح ادائیگی کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ یہ واقعہ بھی اعراب اور تلفظ کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ ”منافق لوگ ‘حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو راعنا کے بجائے راعینا کہا کرتے تھے۔ راعنا کے معنی ہیں ”یا رسول اللہ ہمارا خیال فرمائیے ۔ مگر منافقین‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو راعینا کہتے تھے۔ جسکے معنی ہمارے چرواہے کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کمی کو کب برداشت کرسکتا تھا ، چنانچہ سورہ بقرہ میں مسلمانوں کو تلقین کی گئی کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو راعنا نہ کہا کرو بلکہ انظرنا کہا کرو، جس کا مطلب بھی یہی ہوتا ہے کہ ”یارسول اللہ ہمارا خیال فرمائیے“۔اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عربی کے الفاظ میں اعراب اور تلفظ کی غلطی سے معنی بالکل تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اس لئے سلام کرتے وقت اور قرآن پڑھتے ہوئے الفاظ کی ادائیگی میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔

سلام ہمارے لئے ‘اللہ کی سلامتی ، رحمتوں اور برکتوں کی دعا ہے ‘ جو ہم مسلمان آپس میں سلام کی صورت میں ایک دوسرے کو دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ سلام ہمارے لئے نیکیاں حاصل کرنے کا انتہائی آسان ذریعہ بھی ہے۔جس کی وضاحت اس حدیث سے ہوجاتی ہے۔

”حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص نے حاضر ہوکر سلام کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا جواب دیا، پھر وہ شخص بیٹھ گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کے لئے دس نیکیاں لکھی گئیں۔ پھر ایک اور شخص آیا اور کہا السلام علیکم و رحمة اللہ، آپﷺ نے اس کو بھی سلام کا جواب دیا اور اس کے بیٹھ جانے کے بعد فرمایا، اس کے لئے بھی دس نیکیاں لکھی گئیں۔پھر ایک اور شخص آیا اور السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہُ کہا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا بھی جواب دیا اور اس کے بیٹھ جانے پر فرمایا اس کے لئے تیس نیکیاں لکھی گئیں۔“(ترمذی، ابوداﺅد)

اسی طرح ایک موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم اس وقت تک بہشت میں نہیں داخل ہوگے جب تک ایمان نہ لے آﺅ اور اس وقت تک تمہارا ایمان کامل نہیں ہوگا جب تک تم آپس میں محبت نہ کرو گے۔ کیا میں تم کو ایسی بات نہ بتلاﺅں ‘ جب تم اس پر عمل کرو‘ تمہارے درمیان محبت بڑھے اور وہ بات یہ ہے کہ سلام کو رواج دو یعنی آپس میں آشنا و ناآشنا سب کو سلام کرو۔

اچھے اخلاق کی نشانیوں میں سے ایک نشانی سلام میں پہل کرنا ہے۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس سے بھی ملتے پہلے اسے سلام کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ چھوٹا بڑے کو سلام کرے ، چلنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے، اور تھوڑے آدمی زیادہ آدمیوں کو سلام کریں۔ باہر سے گھر آنے والا چاہے چھوٹا ہو یا بڑا گھر والوں کو سلام کرے، اس سے سلام کرنے والے اور اس کے اہلِ خانہ پر برکت نازل ہوگی۔

صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ جب مل کر سفر کرتے یا کسی راستے پر چلتے تو کبھی ایسا ہوتا کہ کوئی درخت یا ٹیلہ درمیان میں حائل ہوجاتا ،جس کی وجہ صحابہ اکرامؓ ان رکاوٹوں کی وجہ سے اِدھر اُدھر بٹ جاتے ، لیکن جسے ہی درمیان میں حائل یہ رکاوٹیں دور ہوجاتی اور پھر ایک دوسرے سے ملاقات ہوتی تو ایک دوسرے کو سلام کرتے۔ سلام کے جواب میں ہاتھ ، سر یا انگلی کے اشارے سے کبھی سلام کا جواب نہیں دینا چاہیے۔کیونکہ یہ تکبّر کی نشانی ہے اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو سخت ناپسند ہے۔ سلام کا جواب دینا بمنزلہ فرض ہے ، جو سلام کا جواب نہ دے وہ گنہگار ہے۔

آئیے ہم سب عہد کریں کہ اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کریں گے اور آپس میں ملاقات کے وقت چھوٹے ہوں یا بڑے صحیح تلفظ اور الفاظ سے سلام کریں گے اور اس کا جواب دیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ہمارا یہ عمل ہمارے درمیان محبت کا سبب بنے گا اور انشااللہ ہر سلام کے بدلے ہمارے اعمال نامے میں تیس نیکیاں درج کی جائیں گی۔اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب پر اپنی سلامتی، رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے۔ آمین (ماخوذ: بخاری، مسلم ، ترمذی، ابوداﺅد، بہقی)
M. Zamiruddin Kausar
About the Author: M. Zamiruddin Kausar Read More Articles by M. Zamiruddin Kausar: 97 Articles with 305357 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.