عید میلاد

نبی اکرم ﷺ سے محبت ایمان کی تکمیل کا ذریعہ ہے مگر یہ محبت کبھی بھی نہ تو عید میلاد منا کر ثابت کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ہاں قابل قبول ہو سکتی ہے کیونکہ اس کا حکم اللہ اور اس کے رسول ﷺ میں سے کسی ایک نے بھی نہیں دیا۔سچی محبت صرف آپ کی اطاعت کر کے ثابت کی جا سکتی ہے ہاں سطحی اور عارضی اظہار کے لیے عید میلاد جیسے شغل اور میلے اختیار کیے جا سکتے ہیں۔

نبی کا یوم پیدائش منانا عیسائیت کا حصہ ہے۔تمام دنیا کے عیسائی 25 دسمبر کو حضرت عیسیؑ کا یوم پیدائش مذہبی عقیدت کے ساتھ مناتے ہیں۔نبی اکرم ﷺکے یوم پیدائش منانے کی کوئی ایک بھی تاریخی روایت موجود نہیں ہے۔یوم پیدائش یعنی سالگرہ یا birthday منانا سرے سے اسلامی تصور ہے ہی نہیں یہی وجہ ہے کہ تمام علمائے کرام کسی بھی فرد کے اپنا تاریخ پیدائش منانے کو صحیح تصور نہیں کرتے اور جب بھی ان سے اس بارے میں پوچھا جائے وہ اسے ایک غیر اسلامی تقریب قرار دے کر ناجائز کا فتویٰ دیتے ہیں۔کیا وہ عمل جو پوری امت کے لیے ناجائز ہے اور جس کو کرنے کی کوئی ایک روایت بھی نبی اکرم ﷺ ،صحابہ یا تابعین کے ہاں نہیں ملتی وہ دین کا حصہ ہو سکتی ہے اور اسے اتنے اہتمام سے منانے کا جواز نکالا جا سکتا ہے؟

نبی اکرم ﷺ کی حیات طیبہ میں یہ دن 23 مرتبہ،حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے دور خلافت میں 2مرتبہ ،حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں11مرتبہ،حضرت عثمان غنی ؓ کے دور میں 12مرتبہ،حضرت علی حیدرؓ کے دور میں 5 مرتبہ اور آخری صحابی حضرت ابو طفیلؓ کی وفات تک کئی بار آیا مگر کسی صحابی نے بھی اس کو منانے کا اہتمام نہ کیا۔امام ابوحنیفہؒ،امام مالکؒ،امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کی زندگیوں میں یہ دن کئی بار آیا مگر کسی ایک امام نے بھی اسے عید میلاد قرار دے کر اس کا اہتمام نہیں فرمایا اور کسی ایک امام کی کتاب میں بھی اس کا ذکر نہیں ملتا۔اس دن کے منانے کا آغاز فاطمی خلفاء کے دور میں ہوا اور ظاہر ہے کہ فاطمی خلفاء نہ نبی تھے،نہ ولی،نہ امام اور نہ علمائ ´۔

امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں ”سلف صالحین نے محفل میلاد کا انعقاد نہیں کیا اور اگر یہ محض خیر و بھلائی یا راجح بات ہوتی تو سلف صالحین ہماری نسبت اس کے زیادہ حقدار تھے ۔وہ ہماری نسبت رسول اللہ ﷺ کی محبت اور تعظیم میں زیادہ سخت اور نیکی کے کاموں میں زیادہ حریص تھے۔آپ کی محبت اور تعظیم کا کمال آپ کی ظاہری و باطنی اطاعت کرنے ،آپ کے آگے سر تسلیم خم کرنے،آپ کی سنت کو زندہ کرنے اور جو احکامات دے کر آپ کو بھیجا گیا ان کو پھیلانے میں اور ان مور پر دل ،ہاتھ اور زبان کے ساتھ جہاد کرنے میں ہے ۔یہی طریقہ انصار اور مہاجرین کا تھا جو سب سے پہلے سبقت کرنے والے تھے اور ان کا جنہوں نے اچھے طریقے سے ان کی پیروی کی۔ “
(اقتضاءالصراط المستقیم)

نبی اکرم ﷺ نے حجة الوداع کے موقع پر فرمایا تھا: ” میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں،جب تک ان پر قائم رہو گے گمراہ نہ ہو گے،ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری سنت۔“

اللہ تعالیٰ ہم سب کو کتاب اللہ اور رسول اللہﷺ کی پیروی کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
Zubaida Aziz
About the Author: Zubaida Aziz Read More Articles by Zubaida Aziz: 10 Articles with 13325 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.