دارالسلام یا دارالحرب

عرصہ ہوا کچھ صاحبان نے اپنی ایک یکطرفہ مہم کے ذریعے پاکستان کے قیام سے قبل کے برصغیر پاک و ہند کے متعلق دارالسلام یا دارالحرب کی بحث چھیڑ رکھی ہے اور اس بحث کی آڑ میں امام اہل سنت مجدد دین و ملت حضرت مفتی علامہ الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کی ذات کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور زور اس بات پر صرف کیا جاتا ہے کہ اُس وقت انگریزوں اور ہندوؤں کی ملی بھگت اور اُن کی خوب خوب ریشہ روانیوں کے باوجود برصغیر کو دارالسلام کہنے والے یہ اکیلے تھے۔ اور اس طرح انہوں نے انگریز دوستی اور ہندو نواز پالیسی کو آٓگے بڑھایا۔ لیکن یہ ایک ایسا جھوٹ ہے کہ شیطان بھی ایسے تاریخ نا آشنا صاحبان کو تھپکی دیتا ہوگا کہ اس کے چیلے اس کے حقیقی نقش قدم پر گامزن ہیں ۔

جیسا کہ الحمدُ اللہ علمائے اہل سنت والجماعت کی طرف سے بارہا اس اعتراض کا جواب دیا جا چکا ہے مگر مسلکی تعصب نے حقیقت کو سمجھنے اور اس کے اظہار کے جذبے کو کہیں گم کردیا ہے ۔۔۔۔ بہرحال کچھ صاحبان چونکہ صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح قرار دینے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں اور اپنے تئیں لوگوں کو گمراہ کرنے اور امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے متعلق اپنے خبث باطن کے اظہار کی جرات بےباکانہ اختیار کرتے رہتے ہیں لہٰذا ضروری خیال ہوا کہ کیوں نہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سرشار اس عظیم انسان کے متعلق بدگمانیوں کا پردہ چاک کیا جائے اور جنہیں اللہ کریم ہدایت دے اُن تک صحیح اور تاریخی ثبوت پیش کئے جائیں۔ ملاحظہ کیجئے ؛

کرامت علی جونپوری ، نواب صدیق حسن ، محمد حسین بٹالوی ، نذیر حسین ، نذیر احمد تھانوی ، عبد الحی لکھنوی ۔۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ نے بھی ہندوستان کو دارالحرب کہنے سے انکار کیا۔

جبکہ مولانا رشید احمد گنگوہی کے اس موضوع پر مختلف فتاوی ہیںٰ ۔۔۔۔ جناب سعید اکبر آبادی ٹرسٹی دارلعلوم دیوبند انڈیا لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ ‘ان تینوں فتاویٰ کو سامنے رکھا جائے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ (الف) ہندوستان دارالحرب ہے۔ (ب) ہندوستان کے متعلق بندہ کو خوب تحقیق نہیں۔ (ج) ہندوستان دارالامان ہے۔ (کتاب ۔۔۔ ہندوستان کی شرعی حیثیت ۔۔۔۔۔ علی گڑھ ، ص 06-35)

مولانا قاسم نانوتوی صاحب کا فتویٰ بھی گومگو کی کیفیت پیش کرتا ہے کہیں وہ کہتے ہیں کہ ہندوستان کے دارالحرب ہونے میں شبہ ہے اور میرے نزدیک راجح یہ ہے کہ دارالحرب ہے۔ (قاسم العلوم ، مکتوبات ، ناشر قرآن لاھور ، ص 371) اس کے ساتھ ساتھ کہیں کہتے ہیں کہ ‘ہجرت کے معاملے میں دارلحرب اور سود کے معاملے میں دارالسلام قرار دینا چاہئے۔ (ص 362)

مولوی محمد حسن کے بقول ‘دونوں فریق صحیح کہتے ہیں’ ۔۔۔۔ (سفر نامہ شیخ الہند ، مکتبہ محمودیہ لاھور ، ص 166)

علامہ انور شاہ کشمیری ہندوستان کو دارالامان قرار دیتے ہیں۔ (ہندوستان کی شرعی حیثیت ، ص 34)

دارالعلوم دیوبند کے ٹرسٹی سعید اکبر احمد آبادی ‘دار’ کی چار اقسام بیان کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ 1- دارالحرب 2- دارالعہد 3- دارالسلام 4- دارالامان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آخری میں کہتے ہیں ‘یہ ملک ‘ دار‘ کی چاروں قسموں سے کوئی قسم نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ (ہندوستان کی شرعی حیثیت ص 96)

اب آجاتے ہیں امام احمد رضا خان بریلوی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرف ۔۔۔۔ آپ لکھتے ہیں ۔۔۔

دارالسلام کے دارالحرب ہوجانے میں جو تین باتیں ہمارے امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک درکار ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہاں احکام شرک علانیہ جاری ہوں اور شریعت اسلامیہ کے احکام و شعائر مطلقاً جاری نہ ہونے پائیں ۔ اور صاحبین کے نزدیک اسی قدر کافی ہے مگر یہ بات الحمدُاللہ یہاں موجود نہیں۔‘ (اعلام الاعلام بان ہندوستان دارالسلام، ص 02)

جبکہ آپ دارالحرب قرار دینے والوں پر لطیف طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ

‘عجب ان سے جو تحلیل ربا (سود) کے لئے جس کی حرمت نصوص قاطعہ قرآنیہ سے ثابت اور کیسی کیسی وعیدیں اس پر وارد ۔ اس ملک کو دارالحرب ٹھرائیں اور باوجود قدرت و استطاعت ہجرت کا خیال بھی دل میں نہ لائیں گویا یہ بلاد اسی دن کے لئے دارالحرب ہوئے تھے کہ مزے سے سود کے لطف اڑائیے اور بآرام تمام وطن مالوف میں بسر فرمائیے۔ (ص 07)

اب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں کہ ہندوستان کو دارالحرب قرار دینے والے صرف امام احمد رضا خان بریلوی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ ہی تھے یا اور بھی افراد آپ کے فتاویٰ کی اپنے اپنے طور پر حمایت کر گئے۔۔۔۔۔ لیجئے ایک نظر یہ بھی دیکھ لیتے ہیں ۔۔۔۔

مولانا کرامت علی جونپوری خلیفہ سید احمد بریلوی نے 23 نومبر کو کلکتہ کے ایک مذاکرہ علمیہ میں تقریر کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ ‘ملک ہندوستان جو بالفعل بادشاہ عیسائی مذہب کے قبضہ اقتدار میں ہے مطابق فقہ مذہب حنفی کے دارالسلام ہے، اور اسی پر فتویٰ ہے۔ (اسلامی مجلس مذاکرہ علمیہ کلکتہ ، نول کشمور ، لکھنو ، ص 03) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بھی یاد رہے کہ ان کی تقریر کے بعد مولوی فضل خان ، مولوی ابو القاسم عبدالحکیم ، مولوی عبدالطیف سیکٹری مجلس ، شیخ احمد آفندی انصاری مدنی ، سید ابراہیم بغدادی نے بھی اپنی تقاریر میں اسی قول کی حمایت کی۔

اس کے علاوہ اس رسالہ میں حضرت شیخ جمال بن عبداللہ حنفی ، مفتی مکہ معظمہ علامہ سید احمد دحلان ، مفتی شافیعہ شیخ حسین بن ابراھیم ، مفتی مالکیہ مکہ معظمہ علامہ عبد الحق خیر آبادی اور مفتی سعد اللہ کے فتاویٰ بھی موجود ہیں کہ ہندوستان دارالسلام ہے۔ (اسلامی مجلس مذاکرہ علمیہ کلکتہ ، ص 29-40)

ساتھ ساتھ مولانا عبدالحی لکھنوی کی بھی سن لیتے ہیں فرماتے ہیں ۔۔۔۔ ‘بلاد ہند جو قبضہ نصاری میں ہے دارالحرب نہیں ہے۔‘ (مجموعہ فتاویٰ ، مطبع یوسفی لکھنو ، جلد 01 ، ص 302)

اور آخر میں ایک اور اہم فتویٰ ۔۔۔۔۔

‘رسالہ اعلام الاعلام اور تھانوی صاحب کا یہ رسالہ دو اہم فتوے کے نام سے مکتبہ قادریہ لاھور سے چھپا ۔ جس میں مولانا اشرف علی تھانوی بھی ہندوستان کو دارالسلام قرار دینے کو ترجیح دے رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔ (تخذیر الاخان ، تھانہ بون ، ص 09)

اب کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
Kamran Azeemi
About the Author: Kamran Azeemi Read More Articles by Kamran Azeemi: 19 Articles with 50261 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.