نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کے بول و براز اور خون کے متعلق موضوع احادیث

اس موضوع پر کچھ عرض کرنے سے پہلے صحیح مسلم سے چند روایتیں پیش کر دوں۔ یہ روایات یقیناً آپ سب کی نظروں سے گزری ہوں گی۔

1-ربعی بن خراش سے روایت ہے۔ اس نے سنا حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے وہ خطبہ پڑھ رہے تھے، کہتے تھے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ مت جھوٹ باندھو میرے اوپر۔ جو کوئی میرے اوپر جھوٹ باندھے گا وہ جہنم میں جائے گا۔

2-انس بن مالک سے روایت ہے، انھوں نے کہا مجھے بہت زیادہ حدیثیں بیان کرنے ہے یہی بات روکتی ہر جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما‏ئی جو شخص مجھ پر قصدا جھوٹ بولے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

3-ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما‏یا جو شخص مجھ پر قصداً جھوٹ بولے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

امام مسلم نے صحیح میں ایک اور باب باندھا ہے جس کا عنوان ہے کہ راوی کے عیب بیان کرنا درست ہے۔

یہی سبب تھا کہ تمام مشہور محدثین نے احادیث روایت کرنے میں حد درجہ احتیاط کی۔ جیسے امام مسلم فرماتے ہیں کہ انہوں نے چار لاکھ احادیث میں سے صرف وہ احادیث صحیح میں شامل کیں جن کے صحیع ہونے میں کوئی کلام نہ تھا۔

ذیل میں میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں چند احادیث بیان کرتا ہوں اور ان احادیث کی صحت کے بارے میں چند مشہور محدثین کی را بھی پیش کرتا ہوں۔

حدیث نمبر 1- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خون پی لینے کے بارے میں ہے۔
1 - عبد اللہ بن زبير رضى اللہ تعالىٰ عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو سنگى لگائى جا رہى تھى، جب وہ سنگى لگوانے سے فارغ ہوئے تو فرمايا: جاؤ جا كر اس خون كو بہا دو تا كہ اسے كوئى بھى نہ ديکھ سکے، جب وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دور ہوئے تو انہوں نے خون پى ليا، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: عبداللہ تو نے كيا كيا ؟ وہ كہنے لگے: ميں اسے اس جگہ چھپايا ہے جس كے متعلق ميرا خيال ہے كہ وہاں سے لوگ ديکھ ہى نہيں سکتے. تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: لگتا ہے تم خون پى گئے ہو. وہ كہنے لگے: جى ہاں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تم نے خون كيوں پيا ؟! تيرى طرف سے لوگوں كو ويل اور ہلاكت اور لوگوں كى طرف سے تيرے ليے ہلاكت اور ويل ہے "

اسے ابن عاصم نے الاحاد والمثانى ( 1 / 414 ) اور مسند بزار ( 6 / 169 ) مستد رك حاكم ( 3 / 638 ) اور البيھقى نے سنن الكبرى ( 7 / 67 ) ميں ليكن بيہقى كے الفاظ يہ ہيں: " اس سے جو تيرى امت تجھ سے پائے گى "

اور ابن عساكر نے تاريخ دمشق ( 28 / 163 ) ميں سب نے ہى ھنيد بن القاسم نے عامر بن عبد اللہ بن الزبير عن ابيہ سے روايت كيا ہے.

ھنيد بن قاسم كا ترجمہ تاريخ كبير ( 8 / 249 ) اور الجرح والتعديل ( 9 / 121 ) مذكور ہے جس ميں نہ تو كوئى جرح كى گئى اور نہ ہى تعديل بيان ہوئى ہے، اور ابن حبان نے الثقات ( 5 / 515 ) ميں ذكر كيا ہے، اور اس سے موسىٰ بن اسماعيل كے علاوہ كسى اور نے روايت نہيں كى. تو اس طرح كا راوى مجہول لوگوں ميں شمار كيا جاتا ہے

اس حديث كے اور بھى كئى ايك طريق ہيں، جسے دار قطنى ( 1 / 228 ) اور ابن عساكر نے تاريخ دمشق ( 28 / 162 ) ميں درج ذيل طريق سے روايت كيا ہے:

محمد بن حميد ثنا على بن مجاھد ثنا رباح النوبى ابو محمد مولى آل الزبير عن اسماء بنت ابى بکر رضى اللہ عنہا: اسماء رضى اللہ تعالىٰ عنہا نے حجاج كے سامنے عبد اللہ بن زبير رضى اللہ تعالىٰ عنہ كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا خون پينے والا قصہ بيان كيا اس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان بھى ہے: آگ نہيں چھوئے گى "

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى " التلخيص الحبير ميں كہتے ہيں: " اوراس ميں على بن مجاھد ہے جو كہ ضعيف ہے " انتہى.
دیکھيں: التلخيص الحبير ( 1 / 31 ).

اور يہ على بن مجاھد كابلى ہے، اسے يحي بن ضريس اور يحي بن معين نے جھوٹا كہا ہے، جيسا كہ ميزان الاعتدال ميں مذكور ہے.

اور تقريب التھذيب ميں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس كے متعلق كہتے ہيں: (متروك من التاسعۃ)، يہ متروك ہے اور نويں درجہ سے ہے، اور امام احمد رحمہ اللہ كے شيوخ ميں اس سے زيادہ ضعيف شخص كوئى اور نہيں ہے "

اور اس روايت ميں رباح النوبى بھى ہے جس كے متعلق حافظ ابن حجر كہتے ہيں: بعض نے اسے لين كہا ہے اور يہ علم ہى نہيں يہ شخص كون ہے " ديكھيں: لسان الميزان ( 2 / 443 ).

اور عظيم آبادى نے بھى المغنى كى تعليق ميں يہى دونوں علتيں بيان كرتے ہوئے كہا ہے: قولہ: على بن مجاھد حدثنا رباح النوبى، يہ دونوں ضعيف ہيں اور قابل حجت نہيں . ديکھيں: التعليق المغنى ( 1 / 425 ).

اور طريق ميں محمد بن حميد الرازى بھى ضعيف راوى ہے جيسا كہ تقريب التھذيب وغيرہ ميں ہے.

دوسری روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نجاست کے زمیں کو نگلنے کے بارے میں ہے۔

ام المؤمنین سیدہ عائشہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی ‍قضائے حاجت کے لیے بیت الخلا جاتے تو میں آپ کے فوراً بعد جاتی تو وہاں مجھے کوئی چیز نظر نہ آتی۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا ہمارے اجسام اہل جنت کی ارواح پر بنائے گئے ہیں۔ ہمارے اجسام سے جو نجاست خارج ہوتی ہے اسے زمیں نگل لیتی ہے۔

ایک دوسری روایت میں ہے کا نبی کریم نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا ہے کہ انبیاء کے جسم سے جو چیز خارج ہو اسے نگل لے۔

ابن جوزی510-597 (العلل المتناہیہ فی احادیث الواہیہ ج1 ص188) میں کہتے ہیں کہ یہ روایت صحیح نہیں ہے۔ اس کی پہلی سند میں حسین بن علوان ہے اس کے متعلق امام یحیٰ بن معین اور امام احمد کہتے ہیں کہ کذاب ہے۔ نسائ دار قطنی اور ابو حاتم کہتے ہیں متروک الحدیث ہے، ابن عدی کہتے ہیں یہ احادیث وضع کیا کرتا تھا۔ دوسری سند بے بارے میں دار قطنی لکھتے ہیں اس روایت کو محمد بن حسان کے علاوہ کوئ روایت نہیں کرتا اور وہ کذاب ہے۔

اسی طرح آپ کا پیشاب پی لینے کے متعلق جو احادث روایت کی گئیں ہیں وہ بھی ضعیف ہیں۔ جلد ہی آپ سب کی خدمت میں ان روایات کی حقیقت پیش کروں گا۔

ایک اور اہم نقطہ بھی پیش کردوں کہ اگر ان روایات میں کوئی حقیقت ہوتی تو یقیناً صحیحیں وغیرہ سے اس کا ثبوت ضرور ملتا۔

آخر میں عرض کردوں کہ نبی پاک کے معجزات اور ان کی سیرت طیبہ کا بیان کرنا یقیناً بہت سعادت کی بات ہے۔ اور بجائے اس کے کہ آپ کی شان میں ضعیف اور موضوع روایات بیان کی جائیں وہ احادیث کیوں نہ بیان کی جائیں جن کے صحیع ہونے میں کوئی اختلاف نہ ہو۔
Baber Tanweer
About the Author: Baber Tanweer Read More Articles by Baber Tanweer: 27 Articles with 87529 views A simple and religious man.. View More