حکومت بند گلی میں ۔بھونڈی حکمت عملی

(نیوز چینلز اور سوشل میڈیا کی بندش کے باعث بروقت وائرل نہ ہوسکا)

اسلام آبادمیں دھرنا شروع ہوئے بیس روز ہوچکے، حکومتِ وقت کی ناقص اور بھونڈی حکمت عملی کے باعث دھرنا ختم ہوا اور نہ ہی اِس اہم مسئلہ کا کوئی حل حکومت نکال سکی۔ باوجود اس کے کہ سپریم کورٹ نے دھر نے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے دورکنی بنچ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم نے واضع طور پر دھرنے کو ختم کرنے اور عوام کو مشکلات سے نجات دینے کے احکامات جاری کیے۔ یہاں تک کہ دھر نے والو ں کی کھانے پینے کی سپلائی لائن کاٹنے اور ان کے بنک اکاؤنٹس منجمد کرنے کے احکامات بھی جاری کردیے۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے میڈیا کو دھرنے والوں کی تشہیر نہ کرنے کی ہدایت کی۔ سپریم کورٹ نے آئی ایس آئی اور آئی بی کی رپورٹس مسترد کرتے ہوئے اعلیٰ حکام کو طلب بھی کر لیا۔ حکومت اگر چاہتی تو بہت آرام سے سپریم کورٹ کے کاندھے پر بندوق رکھ کر مسئلہ کو حل کرسکتی تھی لیکن زمینی حقائق کچھ اور باتوں کی نشاندھی کر رہے ہیں، وزیر داخلہ اپنی پریس کانفرنسیز میں فرمارہے تھے کہ’ دھرنا ہمارا ووٹ بنک متاثر کرنے کی سازش ہے، حکومت کے پاس سرنڈر کا کوئی آپشن نہیں ، ریاست دھرنے والوں کے سامنے نہیں جھکے گی، ہم سب ختم بنوت کے محافظ ہیں، دھرنا ایک سازش ہے جس کا مقصد حکومت کو بریلوی مسلک سے لڑا کر ن لیگ کا ووٹ بنک متاثر کر ناہے ، یہ لال مسجد اور ماڈل ٹاؤن جیسا واقعہ ڈھونڈ رہے ہیں دھونس دھاندلی سے وکٹ نہیں گرے گی‘۔یہ وہی بات ہوئی کہ ’مجھے کیوں نکالا‘۔ اصل مسئلہ کی سنگینی کا احساس نہ کرنا ، اپنی سیاست کا رونا رونا۔ اس سے قبل کی پریس کانفرنسیز اور بیانات بھی مسئلہ پر پیٹرول جھڑکنے کے مترادف نظر آتے ہیں ۔ اصل مسئلہ نیت صاف نہیں تھی، دل میں کھوٹ تھااور دھرنے والوں کے مطالبات پر گفت وشنید اور کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر معاملے کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش دکھائی نہیں دیتی۔ حکومت کو دھرنے کے پیچھے سازش اور سیاست کے علاوہ کچھ دکھا ئی نہیں دے رہا۔ ختم بنوت کے حوالے سے اپنی حرکات اور عمل کو معمولی کہہ کر اہمیت ہی نہیں دی جارہی، غلطی ہوگئی ، غلطی ہمیشہ کے لیے درست کردی ، اس لیے اب کسی قسم کے احتجاج وار دھرنا غیر آئنی اور غیر قانونی ہے۔ جناب ِمن غلطی کوئی چھوٹی موٹی نہیں تھی، کسی چپڑاسی کو کلرک، کسی کلرک کو ایم پی اے یا ایم این اے لکھ دیا جاتا تو در گزر ہوسکتا تھا یہاں تو معاملہ ختم نبوت ﷺ کا ہے ، یہ بہت حساس معاملہ ہے، اس معاملے پر زبان کا لڑکھڑا جانا ، قلم کا غلطی سے کچھ اور لکھ دینے کا سوال ہی پید انہیں ہوتا۔ جو کچھ کیا گیا وہ منصوبے اور ارادے کے تحت کیا گیا ، جب اس مسئلہ کی حساسیت اور سنگینی کا احساس ہوا، لوگوں نے سنگین کوتاہی کی نشاندھی کی تو حکومت کو ہوش آیا کہ وہ اپنے ہی پیروں پر کلھاڑی مارچکی ہے۔ اب وقت گزر چکا تھا۔ مانا حکومت نے وہ اقدام واپس لے لیا، لیکن قوم یہ حق رکھتی ہے کہ وہ جواب طلب کرے ، اسے بتایا جائے کہ ختم نبوت ﷺ کے حوالے سے اگر غلطی ہوئی بھی تو اس غلطی کا مرتکب کون تھا، ایک شخص تھا یا کہی لوگ تھے، احکامات ملے تو کس کی جانب سے، بات واضح ہونی چاہیے۔ ایکٹ پاس کرنے میں دونوں ایوانوں کے اراکین شال تھے، تحقیقات ہوں گی تو دائرہ بہت وسیع ہوتا ہوا اراکین تک جا پہنچے گا۔

سیاسی جماعتوں نے اس اہم ترین معاملے پر خاموشی اختیار کی البتہ تحریک لبیک یا رسول اﷲ صؤﷺ جس کے قائد مولانا خادم حسین رضوی ہیں نے اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم فیض آباد پر دھرنے کا اعلان کیا اور ختم نبوتﷺ کے حوالے سے قانون میں تبدیلی کرنے والوں کو حکومت سے برطرف کرنے کا مطالبہ کیا۔ دھرنے والے لاہور سے انتظامیہ کی آشیربادسے چلے تھے۔اس یقین دیہانی کے ساتھ دھرنا شروع ہوگا تو انہیں راجہ ظفر الحق کی رپورٹ فراہم کردی جائے گی، وہ دعائے خیر کریں گے اور چلے جائیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ دھرنے والوں کا بنیادی مطالبہ نا اہل نواز شریف کے ساتھی وزیر قانون زاہد حامد کو برطرف کرنے کا تھا۔ حکومت کی جانب سے روزنامہ جنگ (25نومبر2017)فل پیج کا اشتہار شائع کیا گیا ہے ممکن ہے دیگر اخبارات میں بھی ہو۔ اس مین ختمِ بنوت کے حلف نامہ کے عنوان میں تبدیلی کا الزام حقیقت کیا ہے؟ کے عنوان سے حلف نامے کے الفاظ درج کیے گئے ہیں اور 25جولائی2017کو چیر مین سینٹ اور دیگر پارلیمانی پارٹیوں کے قائدین کے مشورے سے 34اراکین (تمام جماعتوں کے نمائندہ سینیٹرز اور قومی اسمبلی ممبران ) مشتمل انتخابی اصلاحات کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی۔اس کمیٹی نے ایک 16رکنی ذیلی کمیٹی بنائی۔ اس ذیلی کمیٹی نے تجاویز کی روشنی میں 18انتخابی قوانین کو یکجا کر کے ایک قانون کا بل مرتب کیا۔کچھ مراحل کو میں چھوڑ رہا ہوں ۔ جو مسودہ قانون کمیٹی نے تیار کیا یقینا اس میں وزیر قانون لازمی شامل ہوں گے اس قانون پر سب سے پہلے سینیٹر حافظ حمد اﷲ نے الیکشن ایکٹ کے نام پر اعتراض اٹھایاجس میں لفظ solemnly swearکے لفظ کی جگہsolemnly affirmکا لفظ کر دیا گیا تھا۔ یہ غلطی کسی بھی صورت ٹائپنگ غلطی نہیں تھی، جیسا کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق صاحب نے کہا تھا۔ دونوں لفظ مختلف ہیں دونوں کے ہجہ بالکل مختلف ہے اس لیے اس بات کا امکان نہیں کہ یہ ٹائیپنگ کی غلطی ہے۔ اب اگر حکومتی منطق مان لی جائے کہ دونوں لفظوں کا مطلب ایک ہی ہے تو پھر حکومت کو کیا مصیبت آئی تھی کہ جب شور مچا تو بل کو اپنی اصل حالت میں منظور کرایا۔ اسٹینڈ لیتے اس بات پر کہ دونوں لفظ مفہوم کے اعتبار سے ایک ہی ہیں۔ معاملا ان دو لفظوں کا نہیں بلکہ اور بھی ترامیم کی گئیں۔ یہاں سے حکومت کے دل کا چور سامنے آیا، جو غلطی حکومت خاموشی سے کرنا چاہتی تھی اس کی نشاندھی ہوئی۔ اب کیوں کہ یہ بل پہلی بار اور دوسری بار وزیر قانون زاہد حامد نے ایوان میں پیش کیا تھا ، وہ اس کے ذمہ دار ٹہرتے ہیں۔ اس لیے کہ تقریر لکھ کر خواہ کوئی بھی دے تقریر پڑھنے والا تقریر کے سیاق و سباق کا ذمہ دار ہوتا ہے لکھنے والا نہیں ۔ آجکل نا اہل نواز شریف لکھی ہوئی تقاریر پڑھ رہے ہیں ، جو بقول ڈاکٹر شاہد مسعودانہیں عرفان صدیقی صاحب لکھ کر دیتے ہیں تو جو کچھ نواز شریف صاحب کہتے یا پڑھتے ہیں، وہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ کیا نواز شریف صاحب عدلیہ اور دیگر اداروں کی جوتوہین کر رہے ہیں وہ نواز شریف نہیں بلکہ عرفان صدیقی کر رہے ہیں؟ نہیں یہ عمل نواز شریف کا ہی کہلائے گا۔ اسی طرح ذمہ دار تو زاہد حامد اس اعتبار سے بنتے ہیں کہ بل پیش کرنے والے و ہی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک لبیک یا رسول اﷲ صؤﷺ کا مطالبہ ہے کہ زاہد حامد مستعفی ہوجائیں ، کسی حد تک جائز ہے۔ جب وہ مستعفی ہوجائیں گے پھر یہ بات سامنے آئے گی کہ اس ختم نبوت کے حلف نامے کے عنوان میں تبدیلی در اصل کس نے کی تھی، زاہد حامد یہ بات کہہ چکے ہیں کہ اگر انہیں نکالا گیا تو وہ یہ بات بتا دیں گے کہ اس کا اصل محرک کون تھا۔یہ مسئلہ بہت سنگین ہے ، پیچیدہ در پیچیدہ ہے، 34رکنی پارلیمانی کمیٹی ، 16رکنی ذیلی کمیٹی میں کون کون رہے ان کے چہرے سامنے آئیں گے ، یہاں تک کہ پورا ایوان اس کی لپیٹ میں آسکتا ہے ، اگر زاہد حامد صاحب کسی خاص شخصیت کا نام لیتے ہیں تو وہ بھی اس میں ذمہ دار ہوگا ۔ اس طرح یہ معاملہ اپنے لپیٹ میں زاہد حامد کو ہی نہیں لے گا بلکہ اس میں کئی نامور پارلیمنٹیرین کا مستقبل داؤ پر لگ جائے گا ۔ یہی تو وجہ ہے کہ ن لیگ زاہد حامد کی قربانی سے بچنا چارہی ہے، آنا کانی کررہی ہے، اس سے قبل جن کی قربانی دی گئی جیسے پرویز رشید اور فاطمی چپ ہورہے۔ زاہد حامد کا سیاسی ریکارڈ پرویز رشید کی طرح درباری نمبر ون والا نہیں ہے ، یہ تو خود لوٹے ہیں، پرویز مشرف کے دور میں وزیرتھے ، میاں صاحب سے مافی مانگ کر دوبارہ ن لیگ میں آگئے اور وزارت بھی مل گئی ۔ جیسے بڑے میاں صاحب کے سمدی جی نے دھمکا یا ہوا ہے کہ خبر دار! اگر میرا استعفیٰ لیا گیا اور مجھے گرفتار کیا گیا تو’ میں سب کچھ اگل دوں گا، میں پہلے بھی سلطانی گواہ بن گیا تھا اب بھی ایسا ہی کروں گا‘۔ تو زاہد حامد بھی مستقبل کا سلطانی گواہ ہوسکتا ہے اور میاں صاحب کے لیے زہر ثابت ہوسکتا ہے، مشکلات میں اور اضافے کا باعث بھی۔

دھرنے کو ختم کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے احکامات کے علاوہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر باجوہ نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو فون کر کے کہا کہ اسلام آباد دھرنے کو پر امن طریقے سے حل کیا جائے۔ ڈی جی آئی ایس پی آرمیجر جنرل آصف غفور کے مطابق ’ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر باجوہ نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو فون کیا جس میں انہوں نے اسلام آباد دھرنے کو پر امن طریقے سے حال کرنے کی تجویز دی ۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں اطراف سے تشدد کو روکا جائے۔ تشدد قومی مفاد اور ہم آہنگی کے لیے ٹھیک نہیں‘۔جنرل باجوہ کے مشورہ کے برعکس حکومت نے دھرنے والوں کے خلاف آنسوں گیس اور ربر کی گولیا برسائی، آنسوں گیس کے گولے دھرنے سے اتنی دور سے پھینکے گئے کہ گیس کے وہ گولے نزدیکی رہائشی آبادی میں جا گرے جس سے شہریوں کو انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومت کی حکمت عملی میں عوام کو صورت حال سے بے خبر رکھنا بھی ہے یہی وجہ ہے کہ آج صبح سے نیوز چینل بند ہیں، انٹرنیٹ سروس میں رکاوٹ ہے۔ صحیح صورت حال سامنے نہ آئے تو طرح طرح کی افواہیں جنم لیتی ہیں۔ مظاہرہ ایک جگہ ہوتا ہے تو اسے دس جگہ بتا یا جاتا ہے۔ اس طرح شہریوں میں بلاوجہ خوف وہراس پیدا ہوتا ہے۔ حکومت کی ناقص حکمت عملی کے باعث فیض آباد کے ایک دھرنے نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ٹی وی چینل کے مطابق آج شام تک ملک کے چھوٹے بڑے 350شہروں ، گاؤں اور دیہاتوں میں مظاہرین نے علاقے کو بند کرایا ہوا تھا اور دھرنے جاری تھے۔ کراچی میں صورت حال صبح ہی سے خراب رہی، جگہ جگہ مظاہرے ، اسلام آباد دھرے کی حمایت میں مظاہرے ہوئے، جس سے پورے پورے علاقے بند، ٹریفک میں مشکلات، لوگ پھنس کر رہ گئے۔ اس وقت تک کی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ حکومت کی بھونڈی حکمت عملی ، وزیر داخلہ کی نہ اہلی کی وجہ سے حکومت بند گلی میں آگئی ہے۔ پولیس کے بس کی بات نظر نہیں آتی، فوج اس میں شامل نہیں ہوگی، نہ ہی وہ کسی صورت گولی چلائے گی۔اب بھی زاہد حامد کی قربانی دھرنے کو ختم نہیں تو صورت حال کو بہتری کی جانب لے جانے میں ابتدا ہوسکتی ہے۔حکومت کے پاس یہی ایک آپشن موجود ہے، سب کو معلوم ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے واضح طور پر جلسہ عام میں بڑے میاں صاحب کو کہا تھا کہ زاہد حامد کو کابینہ سے الگ کر دیا جائے، گویا شہباز شریف کو اس معاملے کی سنگینی کا ادراک بہت پہلے ہوچکا تھا لیکن نا اہل میاں صا حب کو صرف اور صرف اپنی فکر ہے ، اس کے مقابلے میں ملک و قوم کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہوجائے۔

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1279808 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More