روہنگیا مسلمانوں کی داستان ِ غم اور امن کا عالمی دن

عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کے قیام کا مقصد سمجھ سے بالاتر ہے،صرف یہی نہیں بلکہ امن کا ڈھنڈورا پیٹنے کا جواز بھی سمجھ میں نہیں آ رہا۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے2001میں عالمی یوم امن منانے کا فیصلہ کیا تھا اور پہلا عالمی یوم امن 21ستمبر2002کو دنیا بھر میں منایا گیا۔اس موقع پر مختلف تقریبات، سیمینارز اورریلیوں کا انعقاد کیا جا تا ہے جن کا مقصد شورش کے خاتمہ اور قیام امن کیلئے سخت محنت کرنے والوں کی کاوشوں کا اعتراف کرنا ہے۔ہر سال کی طرح اس سال بھی21ستمبر کو دنیا بھر میں عالمی امن کا دن منایا جا رہا ہے اور پھر سونے پہ سہاگہ اس سال یو این او نے اس دن کو منانے کے لیے خاص تھیم رکھی ہے جس نے مجھے جھنجوڑ کے رکھ دیا ،جس سے صاف واضح ہو رہا ہے کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ،دکھانے کے اور ہی ہوتے ہیں ایک طرف وہ واضح طور پر کہہ رہا ہے کہ’Togeather for peace:Respect,Safety and Dignity for all‘ یعنی امن کے لیے متحد،احترام، تحفظ اور وقار ،سب کے لیے ۔۔۔لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ امن،احترام،وقار اور تحفظ سب کے لیے ہے سوائے برما،کشمیر اور مسلم امہ کے، تو غلط نہیں ہو گا۔

دوسری طرف عالمی دنیا کا المیہ اور بے حسی کی انتہا یہ ہے کہ ان کو امت مسلمہ کے ساتھ ہونے والے مظالم نظر ہی نہیں آتے،کشمیر کو اپنی آزادی کی جنگ لڑتے آج ستر برس ہو گئے مگر ان مظلوموں کی دادرسی نہیں ہو سکی ،نا تو 57اسلامی ممالک کی تنظیم اور نا امن کی نمائندہ تنظیم ان کے حق میں موثر اقدام کرسکی،آج کل روہنگیا مسلمانوں کی جو حالت زار ہے وہ سب کے سامنے ہے۔میانمارکے مسلمانوں کا مسئلہ نیا نہیں ہے بلکہ برسوں پرانا ہے،وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب یہ مسئلہ خاصا پیچیدہ ہو گیا ہے،سوشل میڈیا کے ذریعے ہی ان پر ہونے والے غیر انسانی روئیے اور مظالم،ان کی بستیوں کو جلانے اور درندگی کے ساتھ ان کی نسل کشی کئے جانے کی معلومات پوری دنیا کو مل رہی ہیں۔ان کی المناک اور درد انگیز تصاویردیکھنا کسی بھی درد ِ دل رکھنے والے انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔

اگر ماضی کے جھروکوں میں جھانکا جائے تو تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے تباہ کن اثرات کے بعد دنیا کو پرامن ماحول فراہم کرنے کی نیت سے سب سے پہلے ایک ادارہ ’’لیگ آف نیشن ‘‘ کا قیام معرض وجودمیں آیا ۔جس کا مقصد جنگ کی روک تھام کرنا اور لوگوں کو امن کی اہمیت کا احساس دلانا تھا،مگر بے سود۔ جب بڑی طاقتوں کی مفاد پرستی بروئے کار آئی تو انجمن کے مقاصد کوشکست ہونے لگی۔ انجمن کو اپنے فیصلوں کے نفاذ کا عملاً کوئی اختیار حاصل نہیں تھا۔ یہی خامی اس کی تباہی کا موجب بنی اور دنیا دوسری جنگ عظیم کا شکار ہو گئی ۔دوسری جنگ عظیم ایک عالمی جنگ تھی جو 1939ء سے شروع ہوئی اور 1945ء میں ختم ہوئی۔جس کے بعد پچاس نمائندوں کی کانفرنس کے نتیجے میں اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا۔اس کے چارٹر کی تمہید میں لکھا ہے کہ ہم اقوام متحدہ کے لوگوں نے مصمم ارادہ کیا ہے کہ آنے والی نسلوں کو جنگ کی لعنت سے بچائیں گے،انسانوں کے بنیادی حقوق پر دوبارہ ایمان لائیں گے اور انسانی اقدار کی عزت اور قدرومنزلت کریں گے،مرد اور عورت کے حقوق برابر ہوں گے اور چھوٹی بڑی قوموں کے حقوق برابر ہوں گے،

ایسے حالات پیدا کریں گے کہ عہد ناموں اور بین الاقوامی آئین کی عائد کردہ ذمہ داریوں کو نبھایا جائے اور آزادی کی ایک وسیع فضا میں اجتماعی ترقی کی رفتار بڑھے اور زندگی کا معیار بلند ہو۔چارٹر مرتب کرتے وقت تو تمام ممالک میں بلا تفریق پرامن ماحول فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیاتھا مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو ۔۔۔ کی طرح کا ماحول دیکھنے میں آرہا ہے،اس کا بھی وہی حال ہے جو لیگ آف نیشن کا تھا ۔بلاشبہ اس کی ناکامی کے پیچھے بھی بڑی طاقتوں کا مفاد اور احکامات ہیں، یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی چودہدراہٹ کے نتیجے میں برما اور دیگر اسلامی ممالک میں انسانیت کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جا رہا ہے۔کیا اقوام متحدہ روہنگیا اور مظلوم انسانوں کو مسلمان ہونے کی پاداش میں ظلم کی چکی میں پستے ہوئے تماشہ دیکھے گی اور امن کی صدائیں لگائے گی تو کیااس کی ذمہ داری مکمل ہو جائے گی۔اسی خاموشی اور بڑی طاقتوں کی حکم پرستی کی وجہ سے آج دنیا تیسری جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے مگر اقوام متحدہ کو اس بات کا کوئی خیال نہیں ہے۔

کتنی حیرت کی بات ہے نا ایک طرف دنیا امن کا عالمی دن منائیں گی اور امن پسند ہونے اور انسانیت کے احترام کی تقرر یں کریں گے،تو دوسری طرف روہنگیا میں مظلوم انسانوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک ہو رہا ہو گا ۔کیاروہنگیا مسلمان انسانوں میں شمار نہیں ہوتے ،کیا انکے لیے روئے زمین میں رہنے کے لیے کوئی خطہ میسر نہیں ہے،کیا انہیں آزادنہ مذہبی آزادی نہیں مل سکتی،ان کا قصور کیا ہے جو ان کو اپنے ہی ملک کا شہری قرار نہیں دیا جا سکتا ،صرف اس لیے کہ وہ مسلمان ہیں ۔اور یہی وجہ ہے کہ ان کو وہاں سے نکالنے کے لیے ان کے ایک گاؤں میں گن پاوڈر چھڑک دیا جس سے پورا گاؤں دیکھتے ہی دیکھتے تباہ و برباد ہو گیا۔ایسا صرف اس لیے کیا گیا کیونکہ برمی حکومت انہیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے،اور جو زندہ ہیں وہ در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں ۔ در اصل بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد اور آنگ سان سوچی یا میانمار کی فوج روہنگیا مسلمانوں کے حوالے سے یکساں موقف رکھتے ہیں کہ یہ مظلوم لوگ عالمی طور پر مسلَّمہ انسانی حقوق کے حق دار نہیں ہیں۔برمی حکومت واضح طور پر کہہ چکی ہے کہ اگر روہنگی مسلمان زندہ رہنے چاہتے ہیں تو وہ ہمارے ملک کو چھوڑ کر کہیں بھی چلے جائیں ،یہاں ان کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں ہے اور جب وہ جان بچاتے بنگلہ دیش میں پہنچتے ہیں تو وہاں کی حکومت بھی اپنے ہاں لٹے پٹے پناہ گزینوں کو زبردستی واپس بھیج رہی ہے اور میانمار کی فوج واپس آنے والوں کے راستے میں بارودی سرنگیں بچھارہی ہے، حال ہی میں ایک واقعہ بھی رونما ہوا ہے کہ روہنگی مسلمان جب واپس برما کی طرف آ رہے تھے برما کی جانب سرحدی علاقے میں نصب بارودی سرنگ پھٹنے سے 3 روہنگی شہید ہوگئے۔جن کا مقصد روہنگیا مسلمانوں کی واپسی کو روکنا ہے، حالانکہ پناہ گزینوں کو جبراً واپس بھیجنا عالمی اقدار کے منافی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اب تک 3 لاکھ 70 ہزار سے زیادہ روہنگیا پناہ گزین سرحد عبور کر بنگلہ دیش جاچکے ہیں،ہزاروں افراد ابھی راستہ میں ہیں جس بنا پر انہیں اس وقت ہجرت کرنے والوں میں شامل کرنا مشکل ہے،جبکہ پناہ گزینوں میں 60فیصد بچے شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے ترجمان جوزف تریپورا نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ 25 اگست سے اب تک میانمار سے ہجرت کر کے بنگلہ دیش آنے والے روہنگیا مہاجرین کی تعداد 313000 ہو گئی ہے۔ ایک تو وہ سخت ترین حالات کا سامنا کرتے ہوئے جیسے تیسے بنگلہ دیش کی سرحد پار کرنے اور وہاں پناہ لینے میں کامیاب ہوئے ہیں مگر ان کی مشکلات میں کمی نہیں ہوئی کیونکہ ان کو وہاں مناسب سہولیات کا فقدان ہے اور علاج کی مناسب سہولیات بھی حاصل نہیں۔افسوس تو یہ ہے کہ میانمار کی فوج کی جانب سے بچھائی گئی بارودی سرنگیں پھٹنے سے ہجرت کرنے والے روہنگیا مسلمان معذور ہونے لگے ہیں۔انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق میانمار حکومت روہنگیا مسلمانوں کو واپس آنے سے روکنے کے لیے سرحد پر بارودی سرنگیں بچھا رہی ہے اور برطانوی میڈیا نے بتایا ہے کہ ان سرنگوں کی زد میں آنے والے مہاجرین معذور ہوگئے ہیں۔میانمار فوج کی جانب سے بارودی سرنگیں بچھائے جانے پر آسٹریلوی وزیرخارجہ نے شدید تنقید کرتے ہوئے اقدام کو عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قراردیا ہے۔دوسری طرف بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد نے پناہ گزینوں کے کیمپوں کے دورے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ میانمار فوری طور پر اپنے شہریوں کو واپس لے، برسو ں سے میانمار میں مقیم افراد کواپنا شہری تسلیم نہ کرنا درست نہیں۔ مانا کہ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی حکومت ہے مگر انسانیت بھی تو کوئی چیز ہے۔ وہ برمی مسلمانوں سے دشمنوں جیسا برتاؤ کررہی ہیں کیا انھیں نہیں معلوم کہ یہ مسلمان بنگال کے ہی مختلف علاقوں سے ہجرت کرکے برما میں آباد ہوئے تھے۔ چنانچہ بنگلہ دیش میں داخل ہونا ان کا حق بنتا ہے مگر وہ انھیں اپنی سرحد میں داخل نہیں ہونے دینا چاہتیں۔بنگلہ دیشی فوج ان کے حکم پر ان مظلوم مسلمانوں پر گولیاں چلاکر انھیں اپنی سرحد میں داخل ہونے سے روک رہی ہے۔اطلاعات کے مطابق اب بنگلہ دیشی فوج نے سرحد پر بارودی سرنگیں بچھادی ہیں۔اس کے باوجود یہ مسلمان زبردستی بنگلہ دیش میں پناہ لے چکے ہیں گو کہ اب ترک صدر اردوان بنگلہ دیشی حکومت کو کھلی آفر دے چکے ہیں کہ وہ ان پناہ گزینوں کا تمام خرچ خود برداشت کریں گے تب بھی بنگلہ دیشی حکومت ان مظلوموں کے داخلے میں مشکلات پیدا کررہی ہے یہ ان کے ساتھ کھلا ظلم ہے۔اس وقت آنگ سان سوچی اور حسینہ واجد میں کوئی فرق نظر نہیں آرہا ہے دونوں ہی خواتین ان مسلمانوں کی دشمن بن کر منظر عام پر آئی ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ شر پسند نریندر مودی میانمار کے دارالحکومت میں جاکر آنگ سان سوچی اور وہاں کی مقتدر فوج کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرچکے ہیں۔

روہنگیا مسلمانوں کی آبادی لگ بھگ دس لاکھ ہے جو برما میں صدیوں سے رہتے آرہے ہیں، لیکن برما کے لوگ اور وہاں کی حکومت ان لوگوں کو اپنا شہری ماننے کو تیار نہیں۔ ان بے زمین روہنگیا لوگوں کو میانمار میں شدید مظالم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہی سبب ہے کہ یہ لوگ بڑی تعدادمیں بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ کی سرحد پر واقع پناہ گزین کیمپوں میں غیر انسانی حالات میں رہنے پر مجبور ہیں۔روہنگیامسلمان اراکان کے رہنے والے ہیں جو میانمار کی مغربی سرحد پر ہے اور یہ آج کے بنگلہ دیش (جو کہ ماضی میں بنگال کا ایک حصہ تھا) کی سر حد کے پاس ہے۔تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ 1400ء کے ارد گرد یہ لوگ برما کے اراکان صوبے میں آکر بس گئے تھے۔ ان میں سے بہت سے لوگ 1430ء میں مقامی راجہ کے دربار میں ملازم ہوگئے تھے۔ اس راجہ نے مسلم مشیروں اور درباریوں کو اپنے دارالحکومت میں پناہ دی تھی۔یہاں کے راج دربار پر مغل بادشاہوں کا خاص اثر تھا اور یہاں عہدے ومناصب اسی طرح کے ہوتے تھے جس طرح مغل درباروں میں۔جنوری 1948 میں برما آزاد ہو گیا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سال 1948 میں کچھ روہنگیا مسلمانوں نے اراکان کو ایک آزاد مسلم ملک بنانے کے لئے مسلح جدوجہد شروع کی۔ سال 1962 میں جنرل نی ونگ کے فوجی انقلاب تک یہ تحریک بہت فعال تھی۔ جنرل نی ونگ کی حکومت نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف وسیع پیمانے پر فوجی کارروائی کی جس کی وجہ سے کئی لاکھ مسلمانوں نے موجودہ بنگلہ دیش میں پناہ لی۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے بعد میں کراچی کا رخ کیا اور ان لوگوں نے پاکستان کی شہریت لے کر پاکستان کو اپنا ملک مان لیا۔ ملائیشیا میں بھی25 سے 30 ہزار روہنگیا مسلمان چلے گئے تھے۔ برما کے لوگوں نے طویل جدوجہد کے بعد ڈکٹیٹر سے نجات حاصل کر لی ہے اور ملک میں جمہوریت کی بیل پڑ گئی ہے۔

2012 کے انتخابات میں جمہوریت کی سب سے بڑی حامی آنگ سانگ سو چی کی پارٹی کی کامیابی کے باوجود روہنگیا مسلمانوں کے لئے شہریت کے دروازے بند ہیں اور ان پر مسلسل ظلم جاری ہے جو جمہوریت کے بارے میں سوچی کے بیانات سے مکمل طور پرمتضاد ہے۔ ان لوگوں کو نہ زمین جائیداد خریدنے کا حق ہے، اور نہ ہی پڑھنے لکھنے کا۔ان کے آنے جانے پر بھی کئی طرح کی پابندیاں ہیں۔یہ مقامی لوگوں اور وہاں کی حکومت کے مظالم سے تنگ آکر بڑی تعداد میں برما چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔زیادہ تر روہنگیا ملیشیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور آسٹریلیا کا رخ کرتے ہیں، لیکن پناہ کی تلاش میں40 ہزار سے زیادہ لوگ بھارت بھی گئے ہیں اور وہاں جھگیاں بناکر رہ رہے ہیں۔ یہ لوگ دہلی کے علاوہ، جموں، ہریانہ، اترپردیش، راجستھان اور آندھرا پردیش میں الگ الگ جگہوں پر رہ رہے ہیں۔ ہندوستان میں رہنے والے روہنگیوں کا سب سے بڑا مسئلہ غربت ہے کیونکہ محدود تعلیم کے ساتھ یہ لوگ خود کو ایک غیر ملکی شہری ماحول میں پاتے ہیں۔ یہاں رہنے والے زیادہ تر روہنگیا مزدوری کرتے ہیں اور کبھی کبھی ان کااستحصال بھی ہوتا ہے مگر اس کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ بھی تو نہیں ہوتا۔بنگلہ دیش کی طرح بھارت بھی ا نہیں وہاں سے نکالنے کے پر تول رہا ہے،تھائی لینڈ میں ان کی عورتوں کے ساتھ ’’جنسی غلام‘‘ جیسا برتاؤ عام ہے۔بہت سے لوگ یہ سوچ کر ملائیشیا اور انڈونیشیا کا رخ کرتے ہیں کہ مسلم اکثریتی ملک ہونے کے ناطے وہاں انہیں پناہ ملے گی، لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ دونوں ہی ملک روہنگیوں سے ہمدردی تو رکھتے ہیں لیکن انہیں اپنے یہاں پناہ دینا نہیں چاہتے۔انہیں ڈر ہے کہ پناہ دی تو مزید لوگوں کو آنے کا حوصلہ ملے گا، جس کا اثر ان کی معیشت کے ساتھ ساتھ سماجی تانے بانے پر بھی پڑے گا۔اقوام متحدہ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ تین سال میں تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار روہنگیوں نے کشتیوں پر سوار ہوکر برما چھوڑنے کی کوشش کی ہے۔ماضی میں پاکستان میں بھی برمی پناہ گزینآئے تھے جو آج بھی پاکستان کا حصہ ہیں۔سعودی عرب میں بھی خاصی تعداد میں روہنگیا مسلمان موجود ہیں۔

میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی مختلف مسلم ممالک بشمول بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور پاکستان کی جانب سے میانمار میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو تنقید کا نشانہ نہ بنانے پر دباؤ کا شکار ہیں اور ان سے نوبل انعام واپس لینے کے لیے ایک آن لائن دستخط کی مہم بھی چل رہی ہے۔غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق میانمارکی رہنما آنگ سان سوچی کونیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سیشن میں شرکت کرنا تھی لیکن اب ان کی پارٹی نے سوچی کے اجلاس میں شریک نہ ہونے کا اعلان کیا ہے۔سوچی کے پارٹی ترجمان کی جانب سے ان کی عدم شرکت کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی تاہم غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز سے گفتگو میں سوچی کے ایک اور ترجمان نے ان کی اجلاس میں عدم شرکت کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ سوچی کو کچھ اہم امور نمٹانے ہیں۔

میانمار میں روہنگیا مسئلے پر پہلی بارلب کشائی کرتے ہوئے نوبل انعام یافتہ دلائی لاما نے میانمار حکومت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مظالم کے باعث نقل مکانی کرنے والے معصوم روہنگیا مسلمانوں کی مدد کی جائے کیونکہ بدھ مت کی یہی تعلیم ہے۔جو لوگ مسلمانوں کو ڈرا دھمکا رہیں ہیں، انہیں بدھا کے بارے میں سوچنا چاہیے کہ ان حالات میں بدھا ہوتے تو وہ بھی یقینا ان بے چارے مسلمانوں کی مدد کر رہے ہوتے، میں اس حوالے سے بے انتہا دکھ محسوس کر رہا ہوں۔

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے میانمار کی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں پر جاری تشدد سے پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے میانمار کی حکومت یا تو روہنگیا مسلمانوں کو شہریت دے یا پھر کم از کم فوری طور پر ایسی قانونی حیثیت دے جس کے تحت وہ معمول کی زندگی گزار سکیں جس میں نقل و حرکت کی آزادی، ملازمتوں تک رسائی، تعلیم اور صحت کی سہولیات شامل ہیں۔انڈونیشیا کے وزیر خارجہ نے نوبل انعام یافتہ رہنما اور میانمار کے آرمی چیف من آنگ ہلانگ سے پیر کو ملاقات کی اور ملک میں جاری خونریزی کو ختم کرنے کی تلقین کی۔روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے کو حل کرنے کے سلسلے میں کئی اسلامی ممالک نے او آئی سی کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ۔جس کے نتیجے میں حال ہی میں او آئی سی نے اقوام متحدہ اور یورپی یونین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں پر مظالم بند کرائیں۔ تنظیم نے قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں اپنے اجلاس کے دوران برما کی صورت حال پر تشویش ظاہر کی اور سیکرٹری جنرل نے بین الاقوامی اداروں کے نام خطوط ارسال کیے ہیں جن میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ دونوں ادارے مظالم بند کرائیں۔ اسی طرح یہ بتایا گیا ہے کہ راکھائن میں سکیورٹی فورسز انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کررہی ہیں۔ کچھ بھی محفوظ نہیں ہے۔اجلاس میں روہنگیا مسلمانوں کو برما کی شہریت دینے اور ان کی وطن واپسی کی کوششیں تیز کرنے پر بھی زور دیا گیا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ او آئی سی نے صرف آواز ہی بلند کی ہے یا وہ ان مظلوم مسلمانوں کو ان کا حق دلانے میں عملی طورپر بھی اقدام کرے گی یا آواز اٹھانے سے ہی یہ سمجھے گی کہ اس نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ 57اسلامی ممالک میں صرف مالدیپ ایک ملک ہے جس نے کسی قدر جرات کا مظاہرہ کیا اور برما سے تعلقات منقطع کر لیے ہیں۔پاکستانی حکومت اور عوام دونوں ہی اس ظلم کے خلاف آواز بلند کر رہے اور اقوام عالم کی توجہ اس مسئلے کی طرف کر رہے ہیں کتنا اچھا ہوتا پاکستان اور باقی اسلامی ممالک بھی مالدیپ حکومت کی طرح ٹھوس کام کرتے ۔ امریکہ نے بھی اب میانمار میں تشدد کے واقعات کی مذمت کی ہے۔ وائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری کا کہنا ہے کہ میانمار میں جاری بحران پر گہری تشویش ہے، تشدد کے واقعات کی مذمت کرتے ہیں۔ برمی فوج پر حملوں اور روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی پر تشویش ہے۔اقوام متحدہ کی ا نسانی حقوق کونسل کے سربراہ کا کہنا ہے کہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کا نسلی طور پر صفایا کیا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق زید ابن رعد حسین نے کونسل میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میانمار حکومت روہنگیا مسلم اقلیت کو منظم انداز میں نشانہ بنارہی ہے۔میانمار پر اپنا ظالمانہ فوجی آپریشن بند کرنے کے لیے زور دیتے ہوئے کہا کہ میانمار حکومت نے انسانی حقوق کے تفتیشی اہلکاروں کو متاثرہ علاقوں تک جانے کی اجازت دینے سے انکار کردیا ہے، اس لیے وہاں کے حالات کا پوری طرح اندازہ نہیں لگایا جاسکتا، تاہم موجودہ صورتحال مسلمانوں کی نسل کشی کی بدترین مثال ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر نے کہا کہ میانمار میں جاری فوجی آپریشن میں مسلمانوں کو بلاامتیاز نشانہ بنایا جارہا ہے جس کے دوران بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں تک کا خیال نہیں رکھا جارہا، ہمیں برمی فوج اور مقامی ملیشیا کی متعدد اطلاعات اور سیٹ لائٹ تصاویر موصول ہوئی ہیں جن میں وہ روہنگیا مسلمانوں کے گاؤں کے گاؤں جلا رہے ہیں، جبکہ ماورائے عدالت قتل عام کا مستقل سلسلہ جاری ہے،یہاں تک کہ نقل مکانی کرنے والے معصوم عام شہریوں تک کو گولیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ زید ابن رعد حسین نے میانمار پر زور دیا کہ اپنا سفاکانہ فوجی آپریشن بند کرے، انسانی حقوق کی تمام خلاف ورزیوں کا حساب دے، اورروہنگیا آبادی کے خلاف بہیمانہ اور وسیع امتیازی سلوک کو بند کرے۔ برمی فوج کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کو واپس آنے سے روکنے کے لیے سرحد پر بارودی سرنگیں بچھانے پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ اقوام متحدہ کی ترجمان نے صورت حال کو ’’انتہائی خطرناک‘‘ قرار دیتے ہوئے اس سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت کا اظہار کیا ہے۔مگر اس کے باوجود میانمار سرکار اور ان کی رہنما آنگ سان سوچی کا رویہ انتہائی افسوس ناک ہے۔میانمار کی ریاست رخائن میں سرگرم باغیوں نے یکطرفہ طور پر جنگ بندی کا اعلان کر دیا ہے۔ ارکان روہنگیا سالویشین آرمی کے مطابق جنگ بندی اس وجہ سے کی جارہی ہے تاکہ متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیوں کا آغاز ہو سکے ۔بین الاقوامی امدادی ادارے ریڈ کراس نے میانمار میں روہنگیا باغیوں کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کو بڑی مثبت پیش رفت قرار دیا ہے اور امید ظاہرکی ہے کہ اس سے متاثرین کی امداد کے لیے محفوظ رسائی مل سکے گی۔حقیقت یہ ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کی درد انگیز اور اندوہناک صورتحال پر او آئی سی کا نمائندہ اجلاس خوش آئند اور بروقت ہے۔کیونکہ اس تنظیم سے عالم اسلام کو بڑی توقعات وابستہ ہیں کیونکہ اس کے قیام کا مقصد بھی یہی ہے۔

میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار اور ان کے قتل عام کے خلاف جو موقف اختیار کیا گیا اب ضرورت اس اعلامیہ پر اس کی روح اور الفاظ کی روشنی میں مکمل عملدر آمد کی ہے۔ پاکستان اور دوسرے کئی مسلمان ملکوں کے علاوہ امریکہ اور یورپ میں بھی عوامی سطح پر روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے لیکن ترکی کے سوا کسی بھی ملک نے حکومتی سطح پر ان مظلوموں کی عملی امداد کے لیے کوئی قابل ذکر اقدام نہیں کیا ہے۔ ستاون اسلامی ملکوں پر مشتمل او آئی سی، پوری عالمی برادری کی نمائندہ انجمن اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی درجنوں تنظیمیں زبانی احتجاج سے زیادہ کچھ نہیں کرسکی ہیں حالانکہ یہ ایک نہایت سنگین انسانی مسئلہ ہے جسے فوری طور پر حل نہ کیا گیا تو یہ تاریخ کے بدترین انسانی المیوں میں ایک اور ہولناک باب کے اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔ لہٰذا پوری عالمی برادری کا فرض ہے کہ میانمار کی حکومت کو روہنگیا مسلمانوں کو مکمل شہری حقوق دینے پر آمادہ کرے اور اس کے لیے تمام ضروری اقدامات عمل میں لائے کیونکہ یہی اس مسئلے کا واحد قابل عمل اور منصفانہ حل ہے۔بین الاقوامی برداری کو چاہئے کہ میانمار کے سب سے بڑے معاون چین پر دباؤ بنائیں۔حال ہی میں چین کی جانب سے میانمار کے حق میں مداخلت، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں اسے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف مظالم پر عالمی سرزنش سے بچانے کے لیے کی گئی۔ ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش باہمی تعاون سے میانمار حکومت پر اخلاقی دباؤ بنائیں اور میانمار حکومت اور وہاں کی فوج پر زور دیں کہ روہنگیا کو وہ اپنے ملک کاشہری تسلیم کریں اور ان کی سلامتی کے لیے ضروری اقدامات کریں۔

Ishrat Javed
About the Author: Ishrat Javed Read More Articles by Ishrat Javed: 69 Articles with 83105 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.