خواتین کے حقیقی مسائل اور ہماری ذمہ داری

تین طلاق پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا شور ابھی تھما بھی نہیں تھا کہ حق رازداری پر حکومت کوایسی زبردست ہزیمت اٹھانی پڑی کہ اس کے ہوش ٹھکانے کردیئے۔ تین طلاق پر فیصلہ پانچ ججوں کی بنچ کا تھا جس میں سے تین لوگوں نے فیصلے لکھے اس لیے کہ اتفاق رائے نہیں ہوسکا۔ دو نے توصرف حمایت پر اکتفاکیا۔ چیف جسٹس کیھرکی رائے حکومت کے خلاف تھی اور جسٹس نریمن حکومت کے حق میں تھے۔ جوزف پرسنل لاء کی بابت کیھر کے ساتھ اور تین طلاق کے معاملے میں نریمن کے ساتھ تھے یعنی ان کی رائے منقسم تھی ۔ اس کے باوجود وزیراعظم نے ٹویٹ کرنے میں ایسی جلدی دکھائی کہ معلوم ہوتا ہے سب کام چھوڑ چھاڑ کر منتظر بیٹھے تھے اور پھر امیت شاہ سمیت سارے بھکت تائید و حمایت کی دم ہلانے لگے ۔حق رازداری پر ۹ ججوں کی بنچ کا متفقہ فیصلہ اس طرح آیا کہ یہ ہمارے جینے اور کھانے جیسا بنیادی حق ہے پھر پردھان سیوک سمیت سارے بھکتوں کی زبان بند ہے۔ جیٹلی بولے بھی تو یہ کہ حقِ رازداری بنیادی تو ہے مگر مطلق نہیں ہے۔ ہندوستان وزیرخزانہ اور وزیردفاع اگر سپریم کو رٹ کے فیصلے سے اختلاف کرسکتا ہے تومولانا ارشد مدنی کیوں نہیں کرسکتے؟ اس معاملے وزیراعظم کم ازکم یہ کہہ سکتے تھے کہ سپریم کورٹ نے ان کے ؁۲۰۱۳ میں کیے جانے والے اعتراض کی تائید کی ہے لیکن پھر لوگ سوال کرتے کہ اقتدار میں آنے کے بعد آپ نے خود اپنی تکذیب کیوں کردی؟

عصرِ حاضر میں دین اسلام سے عوام کو بدظن کرنے کا سب معروف نسخہ خواتین کے حقوق ہے۔ مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے تین طلاق جیسا کوئی شوشہ چھوڑ دیا جاتا ہےتاکہ معاشرے میں پنپنے والی بے شمار خرابیوں کی پردہ پوشی ہوجائے۔ ذرائع ابلاغ ان جعلی مسائل کو بڑھا چڑھا سب سے بڑا قومی مسئلہ بنادیتا ہے۔ تین طلاق کے فیصلے کی اگلی صبح تو اخبارات میں گویا نہ کوئی خبر تھی اور کسی موضوع پر تبصرہ لیکن صرف ایک دن بعد یعنی جمعرات کوہمارے اپنے ممبئی شہر کی ایک ہوش اڑادینے والی خبر سے سارا نشہ ہرن ہوگیا اور خواتین کو طاقتور کرنے اور مساوی حقوق مہیا کرنے والا دعویٰ کھوکھلا لگنے لگے ۔ ۲۳ اگست کو ٹھیک تین ماہ بعد ممبئی پولس نے سدھانتھ گنورے نامی ۲۰ سالہ قاتل کے خلاف ۱۷۲ صفحات پر مشتمل فردِ جرم داخل کردی ۔سدھانتھ نہ گئورکشک ہے اور نہ تو اس نے گئوماتا کی خاطر کسی مسلمان کو موت گھاٹ اتارا ہے بلکہ اس پر اپنی سگی ماں دیپالی کے قتل کا الزام ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے ٹائمز آف انڈیا کے علاوہ دوسرے اخبار ات نے اس اندوہناک خبر کو تقریباً نظر انداز کردیا اور یکساں سول کوڈ کی وکالت میں اداریہ لکھنے والے ٹائمز نے بھی اس کا تجزیہ کرنے ضرورت محسوس نہیں کی۔

ممبئی کے مضافات واکولہ میں رہائش پذیرپولس افسر دیانیشور گنورے جب ۲۳ مئی ۲۰۱۷؁ کی منحوس صبح بھارت نگرپولس تھانے پہنچے تو پتہ چلا ان کا تبادلہ ہوچکا ہے۔ شینا بورا قتل کے مجرموں کو زیردام لانے والے دیانیشورنے ناراض ہوکر صبح ۱۱:۳۰ بجے اپنی شریک حیات دیپالی کو اس کی اطلاع دی ۔ رات ۱۱:۳۰ گنورے گھر پہنچے تو دروازہ مقفل تھا۔ اہلیہ اور بیٹے کا فون بھی بند تھا انہوں نے سوچا ممکن ہے وہ فلم دیکھنے چلے گئے ہوں ۔ رات ۳ بجے دیانیشور نے باہر جوتے میں رکھی کنجی سے دروازہ کھولا اور دیپالی کو خون میں لت پت پایا ۔ دیپالی کے گلے پر ۵ ،سینے میں ۴ اوربانہوں پر ۳ چاقو کے زخم تھے۔۲۰سالانورِ نظر سدھانتھ غائب تھا اورلاش کے پاس زمین پر خون سے لکھا ہوا تھا ۔ میں اس سے بیزار ہوں۔ مجھے پکڑو اور سولی چڑھا دو(“tired of her. catch me, hang me,” ) اور اس کے آگے سمائیلی یعنی ہنستا چہرہ( ) بنا ہواتھا۔

کیا کائنات ہستی میں اس سے زیادہ درندگی کا مظاہرہ ہوسکتا ہے۔ سدھانتھ کو تلاش میں پولس جئےپور پہنچی تو پتہ چلا کہ ایک دن ٹھہرنے کے بعد وہ جودھپور نکل چکا ہے۔ اگلے دن اسے ۵لاکھ روپیوں کے ساتھگرفتار کرکے ممبئی لایا گیا۔ اس نے اقرار کرلیا کہ وہی اپنی ماں کا قاتل ہے۔ انجنیرنگ کالج سے تعلیمی سلسلہ ادھورا چھوڑ کرسدھانتھ نےبی ایس سی میں داخلہ لے لیا تھامگر وہاں بھی پہلے سال میں وہ ناکام ہوگیا ۔ اس کی ماں باربار مارک شیٹ لانے بلکہ کالج چلنے کے لیے کہتی تھی۔ سدھانتھ کو اس کے والدین کے آپسی لڑائی جھگڑے سے بھی شکایت تھی۔ ہوسکتا ہے دیپالی کا بیجا اصرار بیٹے کی بیزاری کا سبب بنا ہو لیکن اس کے سبب کیا سے کسی کے ذہن میں اپنی ماں کو قتل کا خیال آسکتاہے؟کجا یہ کہ وہ ایسے گھناونے جرم کا ارتکاب کر گزرے اور اس اطمینان کے ساتھ کہ لاش کے پاس اپنی تحریر اور ساتھ میں ہنستا مسکراتا چہرہ چھوڑجائے۔ ایسا سلوک تو کوئی دشمن کی ماں کے ساتھ بھی نہیں کرسکتا۔یہ اس معاشرے کی ایک بھیانک تصویر ہے جو مسلمانوں کو طعنہ دیتے نہیں تھکتا۔

ممبئی شہر میں ۴۰ دنوں کے اندر اس قسم کا وہ دوسرا واقعہتھا۔ ممبئی کے بوریولی میں دھیریہ نامی ایک ناخلف بیٹے نے اپنے دوست جسراج کو ۲۰ہزار روپئے نقد دے کراپنی ماں مینا چھیڈا کو قتل کروادیا۔ دھیریہ کا الزام تھا کہ اس کی ماں کے ناجائز تعلقات نے اسے بے چین کردیا تھالیکن تحقیق کے بعد پتہ چلا کہانشورنس کی رقم۲ لاکھ ۴۰ ہزار پر ہاتھ صاف کرنے کے لیے یہ گھناونا جرم کیا گیا ۔ کیا اپنے ۱۹ سالہ جگر گوشےسے کوئی ماں یہ توقع کرسکتی ہے؟ اس طرح کے واقعات کسی ایک شہریا ملک تک محدود نہیں ہیں ۔ گزشتہ سال دہلی میں نجف گڑھ کےپریم نگر میں رہنے والے ۲۲ سالہ سمیت کمار نے اپنے ساتھیوں دھرم ویر اور پردیپ کے ساتھ مل کر اپنی ماں اور بہن دونوں کو گولی مار دی ۔اس قتل کے لیےمہلوکین کوورغلا کر دھارمک یاترا پر چلنے کے لیےتیار کیا گیا اور راستے میں مانیسر کے قریب کار روک کر گولیوں سے بھون دیا گیا۔ سمیت کمار نے الزام لگایا کہ اسے اپنی ماں اور بہن کے عصمت فروشی کے کاروبار پر اعتراض تھا۔یہ تو تفتیش کے بعد ہی پتہ چلے گا اس میں کس قدر حقیقت ہے کوئی بعید نہیں کہ اس ظالم بیٹے نے اپنی ماں کے گھر پر قبضہ کرنے کےلیےیہ بہتان طرازی کی ہو لیکن اگر یہ الزام درست بھی ہوتو وہ ان سے کنارہ کش ہوسکتا تھا ۔ اپنی ماں اور بہن کا بہیمانہ قتل بھلا ایک بیٹا یا بھائی کیسے کرسکتا ہے؟

کچھ لوگ اس خیال خام میں مبتلا ہیں کہ پڑھ لکھ کر مغرب کے نام نہاد ترقی یافتہ معاشرے میں جانے والےتہذیب کے زیور سے آراستہ ہوجاتے ہیں لیکن امریکہ میں مقیم ایک ہندوستانی نژاد خاندان نے اس غلط فہمی کو بھی دور کردیا۔ شمالی کیرولینا میں پولس نےپچھلے دنوں ۱۷ سالہ ارنب اپل پٹیّ کو گرفتار کیا جس نے دوسال قبل اپنی والدہ نلنی تیلاپرولاکا گلا گھونٹ کر قتل کردیا تھا۔اعلیٰ تعلیم یافتہ نلنی ڈیوک میڈیکل سینٹر میں زیر ملازمت تھی اور ان کا خاندان ۴ لاکھ ۵۰ ہزار ڈالر کی شاندار کوٹھی میں رہائش پذیر تھا۔ یہ سفاک وحشی دوسال تک اپنے جرم کو چھپاتا رہا مگر بالآخر پولس کے ہتھے چڑھ گیا۔ اس واقعہ نے کیرولینا میں رہنے والے ہندوستانیوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس پر اظہار تاسف کرتے ہوئے نلنی کی سہیلی پدما تملاّ نے کہا ہمارا پورا سماج صدمہ سے دوچار ہے۔ ہمیں اس کی ہرگز توقع نہیں تھی۔ نلنی ہمیشہ اپنی اولاد کی جانب متوجہ رہتی تھی اور ساری توانائی انہیں پر صرف کرتی تھی۔ ایک اور دوست وجئے جوادی نےکہا ہمیں اب بھی یقین نہیں آتا کہ اچانک یہ کیا ہوگیا؟ان تمام لوگوں کا تعلق اس سماج سے ہے جو گائے کو ماں کا درجہ دیتا ہے اور اس کی حفاظت کے نام پر قتل و غارتگری کرتا پھرتا ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ سنگھ پریوار اپنے سماج کو گائے کے بجائےماں کاتقدس بتائے ورنہ گائے تو رہ جائیگی مگر ماں کی ممتا ناپیدہوجائیگی حالانکہ ماں سے متعلق کسی شاعر نے کہا ہے؎
موت کی آغوش میں جب تھک کے سو جاتی ہے ماں
مرتے مرتے بھی دعا جینے کی دے جاتی ہے ماں

تین طلاق کے فیصلے پر اپنی خوشی کا اظہار کرنے والوں میں صرف ایک وزیراعلیٰ پیش پیش تھا جو یوگی ہونے کے سبب نہ یہ جانتا ہے کہ شادی کیا ہوتی ہے اور طلاق کسے کہتے ہیں ۔ جس وقت وہ اس فیصلے کو تاریخی قرار دے رہا تھا اسی روز اتر پردیش کے لکھیم پور کھیری میں ایک بھیانک واقعہ رونما ہوگیا ۔ دوپہر ۳ بجے اسکول سے لوٹنے والی نویں جماعت کی ایک پندرہ سالہ طالبہ پر ونود چورسیا نامی نوجوان نے دن دہاڑے تلوار سے حملہ کردیا ۔ اس منظر کو دیکھ کر بازار میں موجود دو تین سو لوگ اس لڑکی کی مدد کے لیے آئے مگر تب تک ایک ہاتھ تن سے جدا ہوچکا تھا اور دوسرے پر وار کیا جارہا تھا ۔ مظلوم اگر مسلم ہوتا تو بھیڑ قاتل کو پکڑ کر پولس کے حوالے کرنے کے بجائے گئورکشک چورسیا کے حامی ہو جاتے یا اندھے اور بہرے خاموش تماشائی بن جاتے۔ چورسیا فرار ہوجاتا اس کی ویڈیو توساری دنیا دیکھتی مگر وہ خود پولس کی آنکھوں سے اوجھل ہی رہتا۔

یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ اس طرح کی وارداتیں بی جے پی کی صوبائی حکومت والی ریاستوں میں ہی کیوں رونما ہوتی ہیں۔ یوم آزادی کا جشن منا کر لوٹتے ہوئےہریانہ کی راجدھانی چندی گڑھ میں ایک ۱۲ سالہ طالبہ کی دوپہر کے وقت آبروریزی کیسے ہوجاتی ہے؟ یہ وہی چندی گڑھ ہے جہاں ایک ہفتہ قبل ۱۰سالہ بچی نے بچے کو جنم دیا ۔ اس معصوم بچی کو یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ کس ظلم عظیم ظلم کا شکارکردی گئی؟ اسے تو بس یہ کہہ کر بہلادیا گیا کہ اس کے پیٹ سے ایک پتھر نکالا گیا ہے۔ دوسال قبل اسی ہریانہ کے کرنال میں ایک ۱۲ سالہ بچی نے بچے کو جنم دیا تھا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہریانہ ہی میں اس قسم کے واقعات کیوں رونما ہوتے ہیں؟ اس سوال کا جواب ہریانہ بی جے پی کے صدر سبھاش برالا کے بیٹے وکاس کے ذریعہ آئی ای ایس افسر ویریندر کنڈو کی بیٹی ویرنیکا کنڈو سے چھیڑ چھاڑ میں پوشیدہ ہے۔
وکاس نے ویرنیکا کا تعاقب کرکے گاڑی رکوائی اور اغوا کی کوشش کی ۔ وکاس اگر مسلمان ہوتا تو ذرائع ابلاغ ویرنیکا کے حق میں دھرم یدھ چھیڑ دیتا۔ وکاس کی حرکت کو اسلام سے جوڑ کر دین حنیف کو بدنام کیا جاتا لیکن ویرونیکا ایک ابلہ ہندو ناری تھی جس سے سنگھ کو کوئی ہمدردی نہیں ہے اور وکاس ان کی اپنی جماعت کے رہنما کا ہونہار سپوت ۔ اخلاقیات کا درس دینے والاسنسکاری سنگھ پریوار مظلوم کے شانہ بشانہ کھڑا ہونے کے بجائےظالم بیٹے اور بے حیا باپ کی پشت پناہی پر کمر بستہ ہوگیا۔ ریاستی اکائی کے نائب صدر رام ویر بھٹی نے متاثرہ کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے سوال کردیا کہ ویرنیکانصف شبمیں باہر کیوں نکلی ؟بی جے پی کے ترجمان اور سپریم کورٹ کے وکیل این سی شائنا نےایک فوٹو شائع کرکے یہ افواہ پھیلائی کہ ویرنیکا اور وکاس ایک دوسرے کو جانتے جبکہ تصویر میں وکاس کے بجائے کوئی اور ہی شخص تھا۔انتظامیہ نے دباو میں آکراغوا کا الزام ہٹا دیا اور ۱۵ گھنٹے کے اندر مجرم ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ ویرنیکا اگر ایک بارسوخ باپ کی بیٹینہ ہوتی تو یہ معاملہ منظر عام پر ہی نہیں آتا۔

ہمارے اپنے صوبے مہاراشٹر میں چندرپورکے اندر بی جے پی کے ۴۸ سالہ رہنما رویندر باونتھاڈے نے استاد کے مقدس پیشے کے منہ پر اپنی رذیل حرکت سے کالک پوت دی۔ اس نےدو مرتبہ اپنی ہی ایک طالبہ کی بس کے اندر شادی کا وعدہ کرکے عصمت دری کی اور ویڈیو کے وائرل ہوجانے پر پکڑا گیا۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ حقوق نسواں کے یہ پاکھنڈی علمبردار خود اپنے سماج کی اس ابترحالت سے بے چین کیوں نہیں ہوتے اور اس کو بدلنے کی سعی کیوں نہیں کرتے ؟ شاید اس لیے کہ ایسا کرنے میں انہیں سیاسی خسارہ نظر آتا ہو؟ مسلمانوں نے تو خیر تین طلاق کے فیصلے پر احتجاج کرنے کے بجائےبہ دلِ ناخواستہ اسےقبول کرلیا مگراس کےتین بعد چنڈی گڑھ میں ڈیرہ سچاسودہ کے گرمیت رام رحیم کی عدالت میں پیشی پر ہنگامہ کھڑا ہوگیا اور فوج کو چوکس کردیا گیا۔ دفع ۱۴۴ نافذ کرکے انٹر نیٹ بند کردیا گیا۔ اس لیے کہ گرمیت رام رحیم کے لاکھوں عقیدتمند اپنے گرو کو چھڑانے کی خاطر گھروں سے نکل پڑے ۔ اس سے قبل ستلج جمنا ندی سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کی بھی شدید مخالفت ہوچکی ہے نیزکون نہیں جانتا کہ جلی کٹو کے مسئلے پر دستور کے پاسداروں نے کیا نہیں کیا؟

گرومیت کوئی فلاح وبہبود کی تحریک نہیں چلارہا ہے جوو اس کو اس قدرزبردست عوامی حمایت حاصل ہے بلکہ اس پر آشرم کی دوخواتین نے عصمت دری کا الزام لگایا ہوا ہے۔ اس کے ساتھیوں پر۱۸ خواتین نے آبرو ریزی کا الزام لگایا ہے۔ گرومیت پر ان دو لوگوں کے قتل کا الزام بھی ہے جن لوگوں نے ان مظلوم خواتین کی حمایت کی تھی ۔ اس کے باوجود بی جے پی سمیت ساری جماعتیں اس کے اثرو رسوخ سے استفادہ کرتی رہی ہیں۔ اس کے آشرم کی آمدنی ۶۰ کروڈ سے تجاوز کرتی ہے مگر اس سے ٹیکس وصول کرنے کے بجائے اس کی فلم کا تفریحی ٹیکس معاف کردیا جاتا ہے۔ ایسے ظالم شخص کو بچانے کی خاطر نام نہاد مہذب ہندو سماج کےلوگ سڑکوں پر اتر کر عدلیہ کو ڈرادھمکا تے ہیں۔ دوسال قبل ہریانہ کےہسار شہر میں رام پال بابااس طرح کا کہرام مچا چکا ہے۔اس پر بھی آسارام باپو کی طرح خواتین کی آبروریزی اور قتل و غارتگری کا الزام تھا ۔

رام پال کو گرفتار کرنے کے لیے ۴۵ ہزار فوجی اور نیم فوجی دستوں کی مدد لینی پڑی اور۴۰ کروڈ روپئے پھونک دئیے گئے۔ اس پاکھنڈی نے کثیر تعداد میں عورتوں اور بچوں کو انسانی ڈھال بنا لیا تھا ۔ پولس کو ۶ گھنٹوں میں ۹۰ راؤنڈ فائرنگ کرنی پڑی ۳۳۰ لوگ زخمی ہوئے جن میں ۱۲۵ پولس اہلکارتھےاور۸افراد ہلاک ہوئے جن میں پانچ خواتین تھیں۔قتل کا الزام تو کامکوٹی کے شنکرآچاریہ پر بھی لگ چکا ہےاور نہ جانے کتنے سادھو سنت خواتین کا استحصال کرنے کے جرم میں جیل کی ہوا کھاچکے ہیں۔ ان کے چنگل میں ہندوسماج کی لاکھوں خواتین گرفتار ہیں مگر ان کا استحصال نہ حکومت کو نظر آتا ہے اور نہ عدالت کو دکھائی دیتا ہے۔ ان بیچاروں کو تو بس مسلم خواتین سے ان کےطلاق یافتہ ہوجانے پر ہمدرددی پیدا ہوتی ہے ۔گرومیت کو سزا ملنے پر موم بتی جلانے والے شہر جلانے لگتےہیں اور مسلم خواتین کی خاطر ٹسوے بہانے والےہندو خاتون کے انصاف ملنے پرغصے ہوکر۳۰ بے قصوروں کا قتل کردیتے ہیں نیز کرودوں کی املاک پھونک دی جاتی ہیں۔

مسلم خواتین تو برضا و رغبت اپنی شریعت پر عمل کرتی ہیں اس کے باوجود تین طلاق والے فیصلے کے بعد یہ دعویٰ کیاجاتا ہے کہ انہیں بنیاد پرست ملاوں کے چنگل سے آزاد کرادیا گیا ہے۔یہ دیکھ کراستحصال کا شکار ہندو سماج کی خواتین اپنی جانب حکومت کی بے اعتنائی کسے پریشان ہوتی ہوں گی ۔ مسلمانوں نے تو نہ بی جے پی کو ووٹ دیا اور نہ دیں گے اس کے باوجود یوگی اور مودی ان پر مہربان ہیں مگر وہ تو ووٹ کے ساتھ نوٹ بھی دیتی ہیں پھر بھی یہ احسان فراموش ان پر نظر عنایت نہیں کرتے۔یہی سوال بی جے پی کی لٹیا ڈوبا سکتا ہے لیکن ہندو سماج کب ان خطوط پر سوچے گا کوئی نہیں جانتا ۔ دانشور وں کو شکایت ہے کہ مسلمان برادارن وطن کے مسائل میں دلچسپی نہیں لیتے مگر جب ان کی مشکلات کا ذکر کیا جاتا ہے تو تنقید کی جاتی ہے کہ غیروں کے مسائل گنا نے سے ہماری مشکلات کم نہیں ہوں گی ۔ ان مسائل پر گفتگو کے بغیر حل کیسے ہوگا؟مسلمانوں کی ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ اپنی خواتین کو غیروں کے دامِ فریب سے بچائیں اور اس ملک میں رہنے بسنے والی تمام خواتین کو ظلم و استحصال سے نجات دلائیں۔

یہ مسئلہ صرف قانون سازی سے حل نہیں ہوگا۔عدالت نے حکومت سے تین طلاق کے متعلق ۶ ماہ کے اندر قانون بنانے کی درخواست کی ہے۔ وزیر قانون روی شنکر پرشاد فرماتے ہیں کہ نیا قانون بنانے کی ضرورت نہیں حالانکہ اس مقدمہ کی سماعت کے دوران حکومت کا وکیل قانون بنانے کی بات کرچکا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر قانون بن بھی جائے تو کیا ہوگا؟ ؁۱۹۶۱ کے اندر جہیز کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا ۔ اس قانون کے تحت آج بھی ہرروز اوسطاً دس مقدمات درج ہوتے ہیں مگر پچھلے چارسالوں کے اندر ان ۱۵۰۰۰ ملزمین میں سے کسی کو سزا نہیں ہوئی ۔اس سرد مہری کے سبب بہت سارے لوگ عدالت کے دروازے پر دستک ہی نہیں دیتے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے ایسے کتنے واقعات ہوتے ہوں گے۔ اس ہفتہ ایک تعلیم یافتہ خاتون نے آرزومند خاتون نے جہیز کے مطالبات اور ایذارسانی سے تنگ آکر خودکشی کرلی ۔اس ظلم کا شکار ہونے والی خواتین کو بچانے کے لیے بھی کچھ کیا جائیگا یا صرف تین طلاق پر سیاست کرکے ووٹ بٹورے جائیں گے؟
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1223631 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.