قلم کی طاقت٬ علیشہ حجاب لکھ پتی بن گئی

اﷲ کریم کا کروڑہا بار شکر جس نے میرے قلم کو اتنی طاقت دی کہ جب بھی کسی غریب اور دُکھی انسان کے حوالے سے قلم اُٹھایا تو اُس کی گونج اربابِ اختیار کے کانوں تک پہنچی اور حقدار کو اُس کا حق مل گیا۔ نرگس گل، احرار احمد کے بعد علیشہ حجاب میرا انتخاب بنی۔ میں نے علیشہ بیٹی کو پہلے دن ہی بتا دیا تھا کہ انشاء اﷲ آپ کو آپ کی سوچ سے بڑھ کر انعام ملے گا۔ میں نے علیشہ میں کمال کی خود اعتمادی دیکھی، یوں سمجھ لیں کہ میری آنکھ نے ایک گوہر نایاب کو پہچان لیا۔ اگر اس بچی کا سارا دھیان تعلیم ہی رہا تو انشاء اﷲ یہ پاکستان کا قیمتی اثاثہ بنے گی۔ ڈی سی چکوال ڈاکٹر عمر جہانگیر نے مجھے وٹس ایپ پیغام کے ذریعے بتایا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے علیشہ اور اُن کے خاندان کو لاہور بلایا ہے میرے لئے یہ خبر کسی بڑے انعام سے کم نہ تھی۔ مجھے انتہائی خوشی ہوئی اور فوراً میں نے یہ بڑی خبر علیشہ کے والد کو سنائی۔ وہ سب بہت خوش ہوئے اور وہ خوشی میں رات بھر سو نہ سکے۔ صبح طے ہوا کہ سب سے پہلے ڈی سی آفس جائیں گے اور اُس کے بعد جیسے ڈی سی صاحب بتائیں گے اُس پر عمل ہو گا۔ ڈی سی صاحب 10 بجے دفتر پہنچے۔ اُن سے پہلے چیف ایگزیکٹو آفیسر ایجوکیشن ڈاکٹر غلام مرتضیٰ اور اے سی چکوال شاہد یعقوب موجود تھے۔ علیشہ کی خواہش تھی کہ میں نے اُن کے ساتھ وزیر اعلیٰ ہاؤس جانا ہے مگر بیورو کریسی ایسا نہیں چاہتی تھی کیونکہ ان سب نے اپنے اپنے نمبر بنانے تھے۔ اگر میں وہاں جاتا تو شاید ان کی اہمیت میں کمی ہو جاتی۔ چیف ایگزیکٹو آفیسر ایجوکیشن ڈاکٹر غلام مرتضیٰ بچی کو اپنے سبق یاد کرا رہے تھے کہ آپ نے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کو اس طرح بتانا ہے کہ میں آپ لوگوں کا بہت خیال رکھتا ہوں۔ سکول کی ہیڈ مسٹریس اور کلاس ٹیچر آپ پر بہت محنت کرتی ہیں یعنی وہ سارا کریڈٹ محکمہ تعلیم کے پاس ہی رکھنا چاہتے تھے۔ آج سکول کی ہیڈ مسٹریس اور کلاس ٹیچر بھی خوب تیار ہو کر وزیر اعلیٰ کو ملنے کے لئے پہنچی تھیں چونکہ آج ان کو انعام جو ملنا تھا مگر چند دن پہلے تک اسی علیشہ حجاب کو کوئی جانتا تک نہ تھا۔ نہ ڈی سی، نہ اے سی، نہ سی ای او، نہ ہیڈ مسٹریس اور نہ کلاس ٹیچر۔ رزلٹ آنے کے کئی دن بعدمیں نے تلاش کیا، اُن کے گھر پہنچا، اُس پر قلم اُٹھایا، اُس کا پنجاب کالج میں داخلہ کرایا، کئی ساتھیوں کو ان کی مدد کا کہا مگر آج تو سب علیشہ حجاب کے دیوانے بن چکے تھے۔ یاد رہے کہ یہ وہی چیف ایگزیکٹو آفیسر ایجوکیشن ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ہیں جنہوں نے گذشتہ سال سب سے زیادہ نمبر لینے والے احرار احمد کا نام لسٹ میں ہی نہیں ڈالا تھا۔ جب میں نے کالم لکھا تو ان کو ہوش آیا مگر آج تو سب دعویدار تھے اور تو اور اے سی چکوال شاہد یعقوب بھی بغیر پروں کے اُڑ رہے تھے۔

قارئین محترم! غریبوں کی مدد کرنا میری گھٹی میں شامل ہے۔ میں جس حد تک ممکن ہوتا ہے اپنے قلم اور زبان سے غریبوں کی مدد کرتا ہوں۔ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اگلے سال کسی نئے ٹیلنٹ کو تلاش کریں گے اور اﷲ کی بارگاہ میں سرخرو ہوں گے۔ مجھے اس فانی دُنیا کے چھوٹے چھوٹے انعامات کی ضرورت نہیں مجھے پر اﷲ کا خاص کرم ہے۔ مجھے آخرت کا بڑا انعام چاہئے اور میں ہر وقت اﷲ کی بارگاہ میں اسی کے لئے دُعا کرتا ہوں۔ آج علیشہ کو اپنی منزل مل گئی۔ مجھے کتنی خوشی ہو گی جب یہی بچی ڈاکٹر بن کر پاکستان کے غریب عوام کی خدمت کرے گی۔ مجھے ابھی مزید ایسی بے شمار بچیوں کو تلاش کرنا ہے جن کو ہمارا معاشرہ نظر انداز کرتا ہے۔ میں آخر میں تمام میڈیا ہاؤسز اور تمام صحافی برادری کا تہہ دل سے مشکور ہوں جنہوں نے اس نیک کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
٭٭٭٭٭
 

Javed Iqbal Anjum
About the Author: Javed Iqbal Anjum Read More Articles by Javed Iqbal Anjum: 79 Articles with 56989 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.