ہوس ِ اقتدار

عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو کرۂ ارض پر دو طرح کی قومیں آباد ہیں۔ ایک خوش نصیب قومیں ہے جن کے حکمران کو ہوس ِ اقتدار کی کوئی فکر لاحق نہیں ہے۔ اور اسی بے نیازی کی وجہ سے اقتدار کی رونقوں اور میلے ٹھیلوں کو عوامی اصرار پر چھوڑ دیتے ہیں، یعنی عوامی اُمنگیں ان کے رگ و پے میں ہر وقت دوڑتی رہتی ہیں۔ جس کی ایک مثال فرانس کے عظیم رہنما چارلس ڈیگال ہیں جنہوں نے رضاکارانہ طور پر ڈی سنٹر لائزیشن آف پاور کے نام پر ریفرنڈم کروایا اور عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے اپنا بوریا بستر گول کیا۔ایسے حکمران عزت و وقار پاتے ہیں اور انسانی تاریخ میں ہمیشہ کے لئے امر ہوجاتے ہیں اور ایسی قومیں خوش نصیبی کے زینوں پر چڑھ کر عروج و کمال پاتی ہیں۔ اِن خوش نصیب قوموں کے علاوہ کرۂ ارض پر بد نصیب قومیں بھی اپنا وجود رکھتی ہیں۔ جن کے حکمران ہوسِ اقتدار کے بھوکے ننگے ہیں اور جو ہر قیمت پر دو چیزوں کو مقدم رکھتے ہیں۔ پہلے حصول ِ اقتدار اور بعد میں طوالت اقتدار، یعنی حصول ِ اقتدار پر بات ختم نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنا اقتدار اپنی اولاد دَر اولاد تک میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ جس کی حالیہ مثال خلیج بحران کے دوران سامنے آئی جب سعودی شاہ نے اپنے بھتیجے محمد بن نائف بن عبدالعزیز کو ولی عہد ی سے ہٹا کر اپنی تیسری بیوی کے بتیس سالہ بیٹے محمد بن سلمان بن عبدالعزیز کو ولی عہد بنایا۔
ان دو قوموں کے تناظر میں ہم اپنی موجودہ حکومت اور سیاست کا جائزہ لیں تو ہمارا تعلق موخرالذکر قوم سے بنتا ہے۔جس کی ایک مثال آئین میں دو بار سے زیادہ وزیراعظم بننے کی ترمیم سے ملتی ہے۔ 2013 ء کے جنرل الیکشن میں وزرات ِ عظمیٰ کا خواب چکنا چور ہونے کے بعد چیئرمین پاکستان تحریک ِ انصاف نے ریکارڈ ساز پریس کانفرنسیں کیں حالانکہ ان کی جماعت کو خیبر پختون خوا میں حکومت ہاتھ آئی ۔ اُمید یہی کی جارہی تھی کہ نیا پاکستان نہ سہی ، نیا خیبر پختون خوا تو کم از کم بن جائے گا۔ مگر افسوس وہ ہمہ وقت وکٹیں گرانے میں مصروف رہتے ہیں۔ اَب دل چسپ صورت حال یہ پیدا ہوتی جارہی ہے کہ وکٹیں گرانے یا خود ہِٹ وکٹ ہونے کے بعد کھلاڑی اس کے چاروں طرف پریس کانفرنسوں میں نظر آتے ہیں۔ جن کے لئے دانش ور حضرات مختلف کلمات استعمال کرتے ہیں جن میں ایک ’’نظر آتی ‘‘ سیاست کے الفاظ بھی ہیں۔ سو اَب کی بار نیا پاکستان ‘ پرانے کھلاڑی بنائیں گے۔ موجودہ سیاسی ہلچل میں خورشید شاہ کا بیان بھی قابل ِ توجہ ہے کہ آنے وقت ہی بتائے گا کہ الیکشن 2018 ء کے الیکشن میں پی ٹی آئی کی کتنی وکٹیں گرتی ہیں۔ یہاں یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی موجودہ حکومت کو ہٹانے کے چکروں میں نہیں ہے ۔ شاید اُن کے ستارے آج کل خود گردش میں ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارا شمار بھی مؤخرالذکر قوموں میں ہوتا ہے جہاں عوامی نمائندے حکومتی عہدوں پر براجمان ہوتے ہی عوام کی نظروں اور اُن کے مسائل سے آنکھ اوجھل ، پہاڑ اوجھل کی مانند ہوجاتے ہیں۔جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب کرسی پر بیٹھتے ہیں تو اُن کے پاؤں زمین سے اُٹھ جاتے ہیں اور یوں وہ ایک نادیدہ مخلوق بن جاتی ہے۔ اگر ہم تاریخ ِ اسلام کا مطالعہ کریں تو ہمارے حکمرانوں کے لئے روشن مثالیں مشعل ِ راہ ہیں، جن کی پیروی سے دنیاوی و آخروی دونوں زندگیاں کامیاب ہوسکتیں ہیں۔

جانشین ِ رسول ﷺ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے منصب خلافت سنبھالنے کے بعد فرمایا۔ ’’لوگو ! میں تمہارا امیربنایا گیا ہوں حالانکہ میں تم سے بہتر انسان نہیں ہوں اگر میں ٹھیک راہ چلوں تو میری اطاعت کرنا اور اگر کج روی اختیار کروں تو مجھے سیدھا کردینا۔ سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت ، تمہارا ضعیف فرد بھی میرے نزدیک اس وقت تک قوی ہے جب تک اس کا حق نہ دلوا دوں اور تمہارا قوی شخص بھی میرے نزدیک اس وقت تک ضعیف ہے جب تک دوسروں کا حق اس سے واپس نہ لے لوں۔سنو ! اگر میں خدا اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کروں تو تم میری اطاعت کرنا اور اگر میں خدا اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت لازم نہیں ‘‘۔

حضرت عمر بن عبدالعزیزؓخاندان بنو امیہ کے چھٹے خلیفہ حضرت سلیمان بن عبدالملک کے بعد سن 99 ہجری میں خلافت کی مسند پر بیٹھے۔ خلافت ملنے پر آپ کی زندگی یکسر بدل گئی۔ اور جب حسب ِ روایت آپ کے سامنے شاہی سواری پیش کی گئی تو آپ نے یہ کہہ کر واپس کر دی ۔ ’’میرے لئے میرا خچر کافی ہے ‘‘۔خلافت کی بھاری ذمہ داری لیے پریشانی کی حالت میں گھر آئے تو لونڈی نے پریشانی کی وجہ دریافت کی۔آپ نے فرمایا کہ اس سے بڑی تشویش اور کیا ہوسکتی ہے کہ مشرق و مغرب میں اُمت محمدیہ کا کوئی ایسا فرد نہیں ہے جس کا مجھ پر حق نہ ہو اور بغیر مطالبہ اور اطلاع کے اس کا ادا کرنا مجھ پر فرض نہ ہو۔اس کے بعد آپ نے لوگوں کو جمع کر کے کہا۔’’ لوگو! میری خواہش اور عوام الناس کی رائے معلوم کیے بغیر مجھے خلافت سونپ دی گئی ہے لہٰذا میں خود خلافت سے دستبردار ہوتا ہوں اور تم جسے چاہو اپنا خلیفہ منتخب کرلو ‘‘۔ مجمع میں موجود لوگوں نے جب آپ کے یہ الفاظ سنے تو اُنچی آواز میں یک زبان ہوکر بولے۔’’ ہم سب نے آپ کو خلیفہ مقرر کیا ہے اور ہم سب آپ کی خلافت پر راضی ہیں ‘‘۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ نے خلافت سنبھالتے ہی بنو امیہ کی تمام جائیدادیں قومی ملکیت میں دے دیں اور خود فقیرانہ زندگی اختیار کی۔عوام کی خدمت کو اپنا نصب العین بنایا اور ہمہ وقت مخلوق خدا کی بھلائی میں مصروف رہتے۔آپ نے سلطنت کے طول و عرض میں گرانقدر مذہبی اور سیاسی اصلاحات کیں۔یہاں تک کہ آپ نے دفتری اخراجات کی تخفیف کے احکامات صادر کرتے ہوئے ابوبکر بن حزم کو لکھا ۔’’قلم باریک اور سطریں قریب قریب لکھا کرو اور ضروریات میں خود شعاری سے کام لو ‘‘۔ غرض آپ نے اپنے عدل و انصاف ، روا داری اور جذبہ مساوات سے خلفائے راشدین کی یاد تازہ کی۔ اور اپنے طرز عمل سے ایسی مثال قائم کی کہ ’’ عمر ثانی ‘‘ کہلائے۔

Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 205 Articles with 265906 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.