یہ کس کی کہانی ہے

یہ چار سالہ مزمل سوا سال کے مقدس کی کہانی نہیں جنہیں ان کی ماں کنویں میں پھینک کر بیٹی سمیت خود بھی کود گئی ۔ یہ چھ سالہ حفصہ کی کہانی بھی نہیں جو کنویں سے تو بچ نکلی مگر اس کے چہرے پر درد ،سکوت اور بے یقینی جبکہ آنکھوں میں حیرت ٹھہرسی گئی ہے ۔ یہ اس بد نصیب ماں کی کہانی بھی نہیں جو تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں ذہنی توازن کھو کر زندہ لاش بنی پڑی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اس کے دونوں جگر پاروں مزمل اور مقدس کو خاک کا کفن پہنا کر لوگ منوں مٹی تلے دفن کر آئے جبکہ ہوش و حواس سے بے گانہ یہ لاش اس وقت تک ہسپتال کے بستر پہ ہے جب تک سانسوں کی ڈوری نہیں ٹوٹتی ۔

ساری عمر زمانے کی ٹھوکریں کھانے والی 22سالہ سعیدہ جب اپنے دو بیٹوں اور ایک بیٹی سمیت کنویں میں کود گئی توشاید قدرت کو اُس پے رحم آگیا زندگی ابھی باقی تھی لیکن ہوش و حواس سے بے گانہ کرکے وہ اسے لمحہ لمحہ مرنے کی سزا سے بچا گئی اب بستر مرگ پر پڑی اس عورت کو تو یہ احساس بھی نہیں کہ وہ کیا کر بیٹھی ہے ؟اور اس پر کیا قیامت ٹوٹی ہے ؟

سعیدہ نے حضرو کے جس گھر میں جنم لیا وہاں بھوک کے سوا کچھ نہ تھا ۔ بچپن اپنی خواہشات کا گلہ گھونٹتے روکھی سوکھی پر صبر وشکر کرتے گزرا ابھی لڑکپن میں قدم ہی رکھا تھا کہ اپنے خالہ زاد فیاض کے ساتھ بیاہ دی گئی ۔ فیاض کے حالات اس کے گھر سے بھی بد تر تھے سبزی منڈی میں ریڑھا چلاتا تھا زندگی کا سفر جیسے تیسے آگے بڑھتا ہی چلا گیا ۔

اس کی شادی کے سات سال بیت گئے زندگی اپنے معمول پر رواں دواں تھی دن بھر گھر کے کام کاج کرتی تبدیلی آئی تھی تو صرف اتنی کہ وہ اب تین بچوں کی ماں تھی اسب سے بڑی حفصہ پھر اس سے چھوٹا مزمل اور پھر سب سے چھوٹا بیٹا مقدس اس کی عمر ابھی صرف 22سال تھی مگر حالات کی سختی چہروں پر گھونسلے بنالیتی ہے وہ اپنی عمر سے کہیں زیادہ دکھائی دیتی تھی۔

اس روز جب وہ سحری بنانے اُٹھی تو آنکھیں یوں جل رہی تھیں جیسے کسی نے دہکتے ہوئے انگارے ڈال دیے ہو اس نے دونوں ہتھیلیوں کو خم دے کر جوڑا اور پیالہ سا بنا کر پرانی بالٹی سے بے تحاشہ پانی کے چھینٹے آنکھوں پر مارے مگر جلن تھی کہ جانے کا نام نہ لے رہی تھی ۔

سحری کرنے اور نماز پڑھنے کے بعد وہ پھر لیٹ گئی ۔اس روز گرمی بھی زوروں پر تھی عجیب سی گھٹن تھی اس نے ایک بار پھر پرانے دوپٹے پانی میں بھگوئے اور بچوں پر ڈال دیے یہ عمل وہ رات میں کئی دفعہ کرتی تھی گیلے دوپٹے سے جب ہوا ٹکراتی ہے تو فرحت کا احساس ہوتا ہے وہ روزانہ خود سوئی جاگی سی رات کاٹ دیتی تھی مگر اپنے بچوں کو اس آزمودہ نسخے سے گرم ہوا کے تھپیڑوں سے محفوظ رکھتی تھی ۔
جیسے ہی دن چڑھا بچوں نے ہنگامہ بپا کردیا وہ کئی روز سے عید کے کپڑوں کی ضد کررہے تھے وہ یہ خوب اچھی طرح جانتی تھی کہ اس سال بھی اسے بچوں کو بہلا پھسلا کر اگلے سال کے وعدوں کی تھپکیاں دے کر ٹرخانا ہوگا لیکن آج تو بچے بھی جان کو آگئے تھے چنانچہ اس نے ان سے وعدہ کرلیا کہ جب وہ شام کو پڑھ کر لوٹیں گے تو وہ انہیں بازار لے جاکر نئے کپڑے دلادے گی ۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں انہیں والدین کی مجبوری یا بے بسی کا کیا اندازہ ماں کا وعدہ سن کر کھل اٹھے انہیں کیا خبر تھی کہ خوشی کے یہ رنگ آخری بار ان کے چہرے پر بکھرے ہیں اور ان کی ماں عید کے کپڑوں کے نام پر کفن اوڑھانے چلی ہے ۔
ان کے گھر سے ذرا دور ایک جان پہچان والی عورت بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی تھی سعیدہ کے دونوں بڑے بچے بھی اسی عورت کے پاس پڑھنے جایا کرتے تھے ۔وہ خود ہی بچوں کو لانے چھوڑنے کا فریضہ سرانجام دیتی تھی وہ صبح سے بے چین تھی مزمل نے ٹیوشن پر جانے سے قبل دس روپے کی ضد شروع کردی باپ کے پاس بھی گیا مگر نامرادلوٹا اور سعیدہ کے پاس تو پھوٹی کوڑی تک نہ تھی ، بچے کا رونا بھی ماں کے دل پر خنجر چلاگیا وہ بچوں کو چھوڑ کر لوٹی تو راستے میں پڑنے والے پرانے کنویں کو غور سے دیکھنے لگی ۔ فاقہ کشی کی ماری اس ماں نے زندگی کے بوجھ کو اتارنے کا فیصلہ کرلیا مگر پھر اسے خیال آیا کہ اس کے تین بچے ہیں ان کو کیوں زمانے کی بے رحمیوں کے حوالے کرجائے چنانچہ لمحوں میں اس نے ایک اور فیصلہ کرلیا ۔

دوبارہ وہ بچوں کو لینے گئی تو فیصلے سارے کرچکی تھی اس نے کمال ضبط سے آنسو چھپائے بچوں کے بستے یہ کہہ کر استانی کے پاس چھوڑدیے کہ وہ انہیں سیدھا نانی سے ملوانے لے جارہی ہے ۔ بچے ماں سے پوچھ رہے تھے کہ کیا وہ کپڑے لینے جارہے ہیں اور پھر چشم فلک نے عجیب منظر دیکھا ،دکھیاری ماں نے بچوں کو کنویں میں پھینکا اور پھر خود بھی کودگئی اسے کنویں میں کودتے کسی نے دیکھ لیا ہوگا شور شرابہ سے لوگ اکھٹے ہوگئے اور کنویں سے دو بچوں کی لاشیں، زخمی بیٹی اور زخموں سے چور ذہنی توازن کھو بیٹھنے والی سعیدہ کو نکال لیاگیا ۔

لیکن یہ ان سب کی کہانی نہیں اس فیاض کی بھی نہیں جو کبھی پولیس کے آگے ہاتھ جوڑتا گڑگڑاتا ہے کہ میرا سب کچھ لٹ گیا مجھے میرے حال پر چھوڑ دو ۔یہ ہماری اجتماعی بے حسی کی کہانی ہے یہ ہماری سنگدلی اور غفلت کی داستان ہے یہ ہماری شوبازی کا نوحہ ہے ۔یہ واقعہ پہلی بار رونما ہوتا تو حیرت بھی ہوتی مگر گزشتہ دوسالوں میں رپورٹ ہونے والے واقعات کے مطابق پاکستان کے 35مختلف علاقوں میں تین سو سے زائد خودکشی کے کیسز سامنے آئے ہیں بچوں سمیت نہروں اور دریاؤں میں چھلانگیں لگانے والی کئی ماؤں کی کہانیاں رونگٹے کھڑے کردینے کیلئے کافی ہیں ۔

محترم نواز شریف صاحب!
آپ موٹرویز بنائیں ،اقتصادی راہداریاں بنائیں ، سڑکوں کے جال بچھائیں ہم خوش ہیں آپ کی دور رس نگاہی کے قائل ہیں لیکن زندگی کی سب سے تلخ حقیقت بھوک ہے جو وطن عزیز کی گلیوں میں بھنگڑے ڈال رہی ہے آپ ان کی امید تھے جن کے گھروں سے فاقوں نے رشتے جوڑلیئے تھے مگرانہیں خوشحالی کے دعوؤں کے سوا کچھ نہیں ملا۔ مائیں آج بھی بچوں سمیت خودکشیاں کررہی ہیں اور عام آدمی کے حالات پہلے سے بدتر ہوگئے ہیں مگر شاید آپ کے حالی موالی ’’سب اچھا ہے ‘‘سے آگے کچھ سننے ہی نہیں دیتے ۔

Hafeez Usmani
About the Author: Hafeez Usmani Read More Articles by Hafeez Usmani: 57 Articles with 40469 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.