مطالعہ کا شوق

فر صت کے لمحے جب کبھی میسرآجائیں، اسے غنیمت جانئیے کیوں کہ ٓاج کی الٹرا ھائی ٹیک زندگی میں انسان کے پاس سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہ ہونے کے برابر ہے۔ملٹی نیشنل کمپنی میں بہترین نوکری، الٹراماڈرن گھر، نئے ماڈل کی چمچماتی کار، بہت ہی لیٹسٹ موبایل فون، لیکن نا شکری کہ بس خدا خیر کرے!،اس کا اندازہ بخوبی اس بات سے ہوجاتا ہے کہ ہر شخص ایک دوسرے سے صرف اور صرف شکوہ اور شکایت ہی کرتا ملے گا۔

حد تو یہ ہے کہ ہر ایک کے پاس وہی شکوے وہی شکایتیں، جس میں سب سے عام گلہ وقت کی کمی ہے۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے یہی کہتے ہوئے ملے گا کہ اس کے پاس ـــــوقت نہیں ہے۔ وقت کی تنگی کو ذہن میں رکھ کر ہم نے فرصت کا حوالہ دیتے ہوئے اس مضمون کو شروع کیا ہے، الحمدﷲ آج بھی جب کبھی اپنے روز مرہ کی مصروفیات سے فرصت مل جاتی ہے تو ہم ضرور خزینہ کتب میں سے کوئی کتاب منتخب کرکے اس کا بغور مطالعہ کرتے ہیں۔ ہمارے والد محترم الحاج سرتاج محمد خان قادریؒ ( بانی محمدی قبرستان و عیدگاہ پنشن پورہ لنگر حوض)اس بات کی تاکید کیا کرتے تھے کہ مطا لعہ اور مشاہدہ کا عمل انسان کے لیے ہر وقت ضروری ہے۔

آج ہم نے ڈاکٹر عابد معز کی کتاب ’اردو ہے جس کا نام‘ کامطالعہ کیا ہے۔کتاب کا خوب صورت سرورق ہمیں متوجہ کرلیتا ہے۔ لاجواب طباعت سے آراستہ اس کتاب کے عنوانات پر نظر پڑتے ہی نگاہوں کے سامنے کئی چہرے رقص کرنے لگتے ہیں۔ جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے ان گنت انکشافات بھی ہوتے گئے۔ اسی طرح سے ہم تمام مضامین بغور پڑھتے چلے گئے۔ مطالعہ کے اختتام پر ہم اپنے احساسات آپ کے آگے پیش کرتے ہیں۔

’اردو ہے جس کا نام‘ دراصل مضامین اور کالموں کا مجموعہ ہے جو مختلف اوقات میں موقع و محل کی مناسبت سے تحر یر کئے گئے ہیں۔اپنی تخلیقی جواہرات کا یہ بیش بہا تحفہ تخلیق کار نے بہترین انداز سے تین حصوں میں تقسیم کرکے پیش کیا ہے۔پہلا حصہ ’سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے‘ کے تحت مختلف عنوانات کے 24 مضامین اردو کے حوالہ سے ہیں۔ یہ مضامین قارئین کی دلچسپی کا پر زور سامان فراہم کرتے ہیں۔ مطالعہ کے دوران ہمیں جو عنوانات زیادہ متاثر کئے ہیں وہ یہ ہیں’ مجھے اردو نہیں آتی، اردو کی خدمت، اسٹیج بھر گیا تو بس، کتاب مفت اور اردو کی تعلیم لازمی قرار دی جائے ۔

پہلے حصہ کے مطالعہ کا جو لطف ہمیں آیا ہے،وہ لطف دوسرے حصہ میں دوبالا ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ دوسرے حصہ کا عنوان ’کچھ شاعری ذریعہ عزت نھیں مجھے‘ ہے جس کے تحت 16مضامین شامل ہیں۔ کسی بھی قاری کے لیے اپنے ذوقِ مطالعہ سے لطف اندوز ہونے کا سنہری موقع ثابت ہوتا ہے، بالخصوص یہ عنوانات قاری کو اپنی طرف راغب کرنے میں کارآمد ثابت ہوتے نظر آتے ہیں، داد طلب، مشاعرہ ویک، یہ شعر میرا ہے، داد وصول کرنا بھی ایک فن ہے، وزن سنبھال کے اور شاعری پر پابندی لگائی جائے۔

اس دلچسپ کتاب کے تیسرے اور آخری حصہ کے مطالعہ کرنے سے ہم اپنے آپ کو روک نہ پائے۔ جیسا کہ ہم نے اس مضمون کے شروع ہی میں تحریر کیا ہے کہ فرصت کے لمحوں کا بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہم نے تیسرے حصہ کا مطالعہ پوری دلجوئی کے ساتھ کیا۔ تیسرے حصّہ کے عنوان ’لوگ ہنستے ہوئے چہروں کو دعا دیتے ہیں‘ پر نظر پڑی تو محسوس ہوا کہ ہم اپنے ارادہ میں کامیاب ہوگئے۔ اس حصّہ میں 8مضامین طنز ومزاح کے پیراہن میں رقص کرتے ، قاری کو محظوظ ہونے پر مجبور کرتے ہوئے ملتے ہیں، خاص طور پر 21 ویں صدی مزاح اور طنز کی صدی ہے، این آر آئی اور طنز و مزاح،ہنسی نہ آئے تو اور ہنسی بہترین دوا ہے۔

اس کتاب کا مطالعہ کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ یہ سبھی مضامین 1984 سے2012 تک ہندوستان اور باہر کے ملکوں کے مختلف جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ ان48 مضامین اور کالموں کو یکجا کرکے 232 صفحات پر کتابی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ ھدیٰ پبلی کیشنز کے سید عبدالباسط قابل ستائش و مبارکباد کے مستحق ہیں۔اس کتاب کا عنوان ’اردو ہے جس کا نام‘ ہمیں یہ دعوت فکر دیتا ہے کہ اس نام کو زندہ جاوید رکھنا ہے تو اپنے نو نہالوں اور نوجوانون کو اردو زبان کی تعلیم سے آراستہ کرنا ہوگا۔ اگر ہم یہ نہ کر پائے تو آنے والی نسلیں کل ہم سے کہیں یہ سوال نہ کر بیٹھے کہ اردو ہے کس کا نام ؟

Dastagir Nawaaz
About the Author: Dastagir Nawaaz Read More Articles by Dastagir Nawaaz: 14 Articles with 10612 views I'M An Hyderabadi(Deccan) On 26th April 1971. Born in A Pathan Family My Name Is Dastagir Mohammed Khan (Yousuf zai) Pen Name Dastagir Nawaaz Given By.. View More