وہ چھوٹی سی راتیں وہ لمبی کہانی

کہانیاں اور اساطیر ان کے عقائد اور اخلاقی قدروں کی ترجمانی کرتے ہےں۔ اور ان تہذیبوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کہانیوں کے ورثے کو محفوظ رکھےں اور اس روایت کو اپنے آنے والی نسلوں میں منتقل کرے۔

کہانیاں

ایک دفعہ کا ذکر ہے“……”ایک۔۔۔ ہوا کرتا تھا“۔ یہ ایسے جملے ہیں جن کو سنتے ہی ہمارے ذہنوں میں فوراً بچپن میں سنی ہوئی کہانیوں کی آواز گونجنے لگتی ہے اور تصور میں کہانی سنانے والوں کی تصویر محوِ رقص ہوتی ہے۔ یقینا یہ کہانیوں کی وہ تاثیرہے جو ہمارے ذہنوں پر نقش ہو کر زندگی کے حصے بن جاتی ہیں۔

قصہ گوئی یا کہانی سنانا ایک ایسا فن ہے جس میں الفاظ، تصویر اور آواز کے ذریعے ایک حقیقی یا افسانوی واقعہ کی نقشہ کشی یا عکاسی کی جاتی ہے۔ کچھ کہانیاں صرف تفریحی مقاصد کے لیے ہوتے ہیں جبکہ اکثر کہانیاں سبق آموز ہوتی ہیں اور اخلاقی قدریں بیان کرتی ہیں۔

فن تحریر کے وجود میں آنے سے قبل اقوام یا افراد قصہ گوئی کے ذریعے اپنی روایات اور ورثے کو اپنے آنے والی نسلوں تک پہنچاتے تھے۔ کہانیوں نے نہ صرف تاریخ کو محفوظ کرنے کا کام سرانجام دیا بلکہ ایک نسل سے دوسری نسل میں زندگی کے تجروبات منتقل کرنے اور تہذیبوں کو زندہ رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔رسمی نظام تعلیم کے وجود میں آنے سے قبل کہانیاں ہی اخلاقی اور معاشرتی اقدار کی تعلیم کا ذریعہ ہوا کرتی تھیں۔ لہٰذا اگر کہانی سنانے کے رواج کو ابتدائی ذریعہ تعلیم اور طریقہ تدریس کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ کہانیوں کا راوج نہ صرف ماضی میں مقبول تھا بلکہ آج بھی تقریباً تمام معاشروں میں بھی موجود ہے اور انھیں اہمیت دی جارہی ہے۔

مذاہب عالم اور تہذیبوں کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہو جا تی ہے کہ مختلف مذاہب اور تہذیبوں نے اپنے اخلاقی اقدار اور اصولوں کا بیان اور تشہیر کے لئے کہانیوں کا راستہ اختیار کیا۔ اور یہی کہانیاں اور اساطیر ان کے عقائد اور اخلاقی قدروں کی ترجمانی کرتے ہےں۔ اور ان تہذیبوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کہانیوں کے ورثے کو محفوظ رکھےں اور اس روایت کو اپنے آنے والی نسلوں میں منتقل کرے۔

مسلمانوں نے جہاں دوسرے شعبہ ہائے زندگی میں اہم تخلیقات کیں وہاں کہانیوں اور حکایات کا ایک بیش بہا ادب بھی تخلیق کیا جو نہ صرف مسلمانوں میں بلکہ دوسری قوموں میں یکساں طور پر آج بھی مقبول ہیں۔ جن میں مولانا رومی اور شیخ سعدی کی حکایات، اخوان صفا کی کہانیاں، کلیلہ و دمنہ اور دوسرے قصے شامل ہیں۔ اور سالہاسال یہ کہانیاں اور حکا یتیں مسلمانوں کی رسمی اور غیر رسمی تعلیم کا حصہ رہے ہیں۔کہانیوں کی افادیت اور تاثیر کو مدنظر رکھتے ہوئے آج بھی ماہرین تعلیم کہانی سنانے کو ایک اہم طریقہ تدریس قرار دیتے ہے۔ بلکہ ابتدائی تعلیم کے نصاب کو کہانیوں کے بغیر نامکمل سمجھا جاتا ہے۔

ابتدائی تعلیم اور کہانیاں
ہماری ذاتی تجروبات اور ماہرین کی تحقیق سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ابتدائی عمر میں سنی ہوئی کہانیوں کا ہماری شخصیت پر گہری اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کہانیوں کی مدد سے بچوں کے اندر مخفی صلاحیتوں اور مہارتوں کو اجا گر کیا جاسکتا ہے۔ کہانیاں کے ذریعے تعلیم صرف سکول تک محدود نہیں ہوتا بلکہ اس کا شروعات گھر میں بہت ابتدائی عمر سے ہوتا ہے۔ آج کل بچے چونکہ بہت جلد مختلف ناموں سے سکول جاتے ہیں مثلا کندڑ گارڈن ، مونٹسوری ، یا ای سی ڈی وغیرہ۔ ان ابتدائی نظام تعلیم میں کہانیوں کو خاصی اہمیت دی جاتی ہے اور نصاب کا اہم حصہ قرا ر دیا جاتا ہے۔
کہانیاں کیوں اہم ہیں ؟
٭۔ کہانیاں دلچسپ ہوتی ہیں اس لیے بچے شوق سے سنتے اور پڑھتے ہیں۔
٭۔ کہانیاں بچوں کے تخیلات کو وسعت دینے میں مددگار ہوتی ہیں۔ جس سے ان کی تخلیقی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔
٭۔ ان سے زبان فہمی میں بہتری آتی ہے۔
٭۔ ان سے بچوں کے ذوق جمالیات میں اضافہ ہوتا ہے۔
کہانیوں کے ذریعے مشکل اور مجرد تصورات کو سمجھانے میں مدد ملتی ہے۔

Rao Anil Ur Rehman
About the Author: Rao Anil Ur Rehman Read More Articles by Rao Anil Ur Rehman: 88 Articles with 208421 views Learn-Earn-Return.. View More