جے آئی ٹی سے جے آئی پی

ایک جنگ میں حضرت علیؓ دشمن کو زمین پر لٹائے سینے پر وار کرنے ہی والے تھے کہ منحوس نے آپؓ کے چہرہ مبارک پر تھوک دیا۔ آپ ؓ دشمن خدا کو چھوڑ کر اُٹھ کھڑے ہوئے، پوچھا گیا واصل جہنم کیوں نہیں کیا، فرمایا اﷲ کی رضا کے لیے گرایا تھا، اپنا غصہ شامل ہوگیا تو اس کو مارنا مناسب نہیں سمجھا۔ معافی کی طلب کے ساتھ یہ پاک مثال ایک ایسے بھدے قسم کے پھڈے میں دی ہے جہاں سیاسی گند کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔پانامہ ایک ایسا اشو تھا جس میں الجھے لوگوں کو خود ہی اپنا حتساب کر لینا چاہیے تھا اور اپنی ذمہ داریوں سے الگ ہو جانا چاہیے تھا، مگر یہ مثال قائم کرنا شائد اس معاشرے کی قسمت میں کہاں، جہاں بچپن سے گھٹی ہی جھوٹ اور خودغرضی کی دی جاتی ہے۔جہاں اپنا مسلک، اپنا مولوی، اپنی پارٹی اور اپنا لیڈر ہر حال میں پاک پَوِتر ہے چاہے کرپشن اور بد کرداری کی لعنت میں لت پت کیوں نہ ہو۔اگر یہ قضیہ سمجھ نہ آئے تو پی پی اور نون کی لیڈر شپ کو کرپشن کے الزام میں نکالنے اور پھر ہیرو بن کر عوام پر سوار ہونے کی تاریخ کا مطالعہ کر لیا جائے۔خیال یہ ہے کہ پانامہ کی کرپشن حکمرانوں کی کرپشن کا عشر عشیر بھی نہیں،عالمی میڈیا سے ہوتی یہ خبر ہمارے میڈیا کے ہاتھ لگ گئی، جس کی بدولت ایک طبقے نے اسی میں تمام مسائل کا حل پا کر خزانہ قارون کے حصول کے لیے سرپٹ دوڑ لگا دی جو تا حال جاری ہے۔عدلیہ نے پہلے اس کیس کو ناقابل سماعت سمجھ کر سننے سے انکار کیا اور پھر شائد کسی حکمت عملی کے تحت شعیب اختر کی بال کی رفتار سے بھی تیز ترین سماعت کا آغاز ہوگیا۔حالانکہ جید قانون دانوں اور اہل دانش کا ایک غالب حصہ اس کیس میں سیاسی عنصر کی چھلانگ کے باعث اسے اعلیٰ عدلیہ کے وقار اورغیرجانبداری کے خلاف تصور کرتا ہے۔عدلیہ میں توشائد کچھ افتخاری آثار تاحال موجود ہوں، مگر یہ بات عام فہم سے بالا تر ہے کہ عسکری قیادت کے سیاسی معاملات سے دور رہنے کے عزم کے باوجود کوئلوں کے اس کاروبار میں داغ سیاہی سے بچنے کی کیوں کوشش نہیں کی گئی۔شنید ہے کہ جے آئی ٹی کی پہلی رپورٹ طارق شفیع کے بیان کے بعد معزز بینچ کے سامنے پیش کی گئی تھی ، جس میں سب اچھا تھا، اس لیے خوب تھپکی بھی نصیب ہوئی تھی، جب تصویر کا معاملہ سامنے آیا، جے آئی ٹی کے رویے کے خلاف شکایت ہوئی تو، جے آئی ٹی کو بھی اپنی حکمت عملی بدلنی پڑی اور ملزمان کے خلاف مجبوراً یا حکمتاًپارٹی بن کر شکایت درج کرا دی۔ حالانکہ یہ سب کچھ اگر ہورہا تھا تو شروع سے ہی تھا۔ بد قسمتی سے جانبداری کا غلط یا صحیح تصور تو قائم ہو چکا، وہ حکومتی ایما پر ہوا ،یا جے آئی ٹی کے اندر کسی مہم جو کی سوچ کی وجہ سے۔ اس طرح جے آئی ٹی ،جے آئی پی یعنی جوائینٹ انویسٹی گیشن ٹیم سے جوائینٹ انویسٹی گیشن پارٹی کا روپ دھار چکی ہے۔آغاز کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ،کیا یہ پارٹی اپنے مخالفین کے خلاف جورپورٹ مرتب کرے گی۔ وہ انصاف کے تقاضے پورے کر سکے گی۔مجھے نہیں معلوم کہ اس جے آئی ٹی کی مرتب کردہ رپورٹ کی روشنی میں ہونے والے عدالتی فیصلے کو مستقبل کا مؤرخ کن الفاظ میں رقم کرے گا، مگر اتنا واضح ہے کہ اندرونی اور بیرونی چارہ گروں کی طرف سے، مادر پدر آزاد، اور بے مہار میڈیا کو، ایوان انصاف کو متنازعہ بنانے کے ساتھ ساتھ مشرفی دورِزیاں کے بعد ایک بار پھر عوام اور فوج میں خلیج پیدا کرنے کے لیے استعمال کرنے کی مزموم کوشش کی جائے گی۔ جس کی جھلک تصویر آؤٹ کرنے والے، ـ نامعلوم محکمے کے نامعلوم شخص کے ڈنڈھورے میں نظر آرہی ہے۔ اور ایسا تأثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ سارے کھیل کے پیچھے وہ ہی نا معلوم محکمہ ہے۔ سب کچھ کہہ بھی رہے ہیں اور کچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔ پاک کا فوج نام لیے بغیر عجیب اور بھونڈے انداز میں مذاق اُڑایا جا رہا ہے۔ جس میں بعد از وردی اور بے وردی ترجمان بھی شامل ہیں۔ چڑیوں والے بابے تو یہ بول بھی الاپ رہے ہیں کہ، کسی نئے نظامِ سیاست کی داغ بیل ڈالنے کے لیے یہ سب کچھ ہو رہا ہے جس میں ایوبی،ضیائی اور مشرفی دور کی عکس بندی کسی نرالے انداز میں ہو سکتی ہے۔ کہتے ہیں کوہلو کے بیل کی جب پٹی اترتی ہے تو وہ خود کو وہیں کھڑا پاتا ہے جہاں سے گھنٹوں پہلے مسافت کا آغاز ہوتا ہے،مگر اس بے خبر عوام کے لیے تو عباس تابش کے الفاظ کچھ یوں صادق آتے ہیں۔
ہمارے پاؤں الٹے تھے فقط چلنے سے کیا ہوتا۔ بہت آگے گئے لیکن بہت پیچھے نکل آئے۔

S Zaman Gujjar
About the Author: S Zaman Gujjar Read More Articles by S Zaman Gujjar: 6 Articles with 5383 views I AM FROM DISTRICT MANSEHRA OF KPK. WAS PUBLISHING MY OWN WEEKLY NEWS PALER (SIRN NEWS) FROM KARACHI WHICH IS STILL BEING PUBLISHED BY MY FRIEND. I A.. View More