سائیکلنگ

سائیکل کا استعمال کھیل کے ساتھ ساتھ سفری ذریعے کے طور پر بھی کیا جاتا ہے
اس کھیل میں ایک پاکستانی خاتون سائیکلسٹ نے کئی عالمی ریکارڈ قائم کیے

’’سائیکلنگ ‘‘واحدکھیل ہے جس کی ابتداء ’’سفری ضرورتوں‘‘ سے ہوئی ، جوبعد ازاں ایک مقبول عام کھیل بن گیا اور آج یہ دنیا کے پانچوں براعظموں میں کھیلا جاتا ہے۔ سائیکلنگ کے کھیل کی ابتدا کیسےہوئی ؟اس کے لیےپہلے سائیکل کی ایجاد، اس کے استعمال اور بعد ازاں کھیل کی حیثیت اختیار کرنے تک کےمفصل احوال کا علم ضروری ہے۔ پہیے کی ایجاد ہزاروں سال قبل مسیح میں ہوئی لیکن اس کا استعمال 19ویں صدی میں اس وقت سے ہوا جب جرمنی میں سائیکل کی ایجاد ہوئی ۔سب سے پہلے فرانس کے ڈی سیوراک نے 1690 میں دو پہیوں کو ایک ڈنڈے سے جوڑ کر سائیکل بنائی تھی، اس کا نام انہوں نے ’’ہابی ہارس‘‘ رکھا،لیکن یہ ایجاد ایک صدی تک خام شکل میں رہی ۔1817 ء میںجرمنی کے شہر بیڈن کے گرانڈڈیو ک کے ملازم ، وون کارل ڈرائسن نے انسانی قوت سے چلنے والی ’’ڈینڈی ہارس‘‘جیسی ہیئت کی بائسیکل بنائی، جو 1818ء میں فرانس میںرجسٹر ہوئی ۔ ڈرائسن کی اصطلاح کے مطابق اسے ’’لاف مشین‘‘ یا دوڑنے والی مشین کا نام دیا گیا۔ابتدا میں ڈرائسن جب اپنی ایجاد کی ہوئی سائیکل پر بیٹھ کر جرمنی کی سڑکوں پر نکلے تولوگ ان کی عجیب و غریب سواری کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔ ڈرائسن اسے پیر وں کی قوت سے ڈھکیلتے ہوئے چلا رہے تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے ڈینڈی ہارس نامی سائیکل، دو پہیوں کو لکڑی یا اسٹیل کے ڈھانچے پر جوڑ کر بغیر چین اور پیڈل کے گھوڑا گاڑی کی شکل میں بنائی تھی، جسے دونوں پیر زمین پر رکھ کرپیدل چلنے یا دوڑنے کے انداز میں جسمانی قوت کی مدد سے چلانا پڑتا تھا ۔ اگلے پہیے کوایک رسی سے باندھ کر گھوڑے کی باگ کی طرح اسٹیرنگ کی جگہ رکھا گیا تھا جسے سوار موڑنے کے لیے استعمال کرتا تھا۔ 1819ء تک برطانیہ اور فرانس کے کئی سائیکل ساز اداروں نے ڈینڈی ہارس سائیکل کی نقل تیار کی جس میں لندن کا سائیکل ساز ، ڈینس جانسن قابل ذکر ہے، جس نے لکڑی کے خم دار فریم اور بڑے قطر کے پہیے جوڑ کر بگھی طرز کی سائیکل بنائی۔ سائیکل کی ایجاد سے قبل لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ یا ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کے لیے گھوڑے پر سفر کرتے تھے ۔جب سائیکل کا استعمال بڑھنے لگا تو اس میں نت نئی جدتیں پیدا کی گئیں ۔ 1838 میں اسکاٹ لینڈ کے میک ملن نے اس کے پرزوںمیںتبدیلی کی اور تقریبا 3 سال کی عرق ریزی کے بعد اس کو چین اورپیڈل سے چلنے والی سائیکل بنایا گیا ۔ اس وقت سائیکل کو روکنے کیلئے اس میں بریک نہیں لگے ہوئے تھے اور پیروں سے ہی سائیکل کو روکا جاتا تھا، جو بعض اوقات خطرناک بھی ہوتا تھا، اس لیے اسٹیر کرنے کے لیے گھوڑے کی باگ کی جگہ ہینڈل اور اگلے ، پچھلے پہیے کے ساتھ بریکیں لگائی گئیں، جن کا نظام ہینڈل کے ساتھ رکھا گیا۔ 1879ء میں ہنری جان لاسن نے اسے عجیب و غریب ہیئت دی، اس کا اگلا پہیہ خاصے بڑے قطر کا تھا جب کہ پچھلا چھوٹا رکھا گیا، لوگوں نے اس کا نام ’’مگرمچھ‘‘ رکھ دیا، اسے فروخت کے لیے مارکیٹ میں پیش کیا گیا لیکن مذکورہ ایجاد کو عوامی پذیرائی نہ مل سکی۔ 1885ء میں جان کمپ اسٹارلے نے اسے محفوظ شکل میں تیار کیا جو کامیاب ثابت ہوا ، اس کا نیا نام ’’روور‘‘ ر کھا گیا،اس کے اگلے پہیے کو لوہے کے دو چمٹوں کے ساتھ ہینڈل سے منسلک کیا گیا، دونوں پہیے یکساں سائز کے لگائے گئے، لیکن اس وقت تک اس میں لوہے کے پہیے لگائے جاتے تھے، جس کی وجہ سے سفر زیادہ تر تکلیف دہ ہوتا تھا۔ جان ڈنلپ نے اس صعوبت کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹائر اور ٹیوب تیار کیے، جنہیں لوہے کے پہیے پر چڑھایا گیاجس کے بعد یہ ہموار طریقے سے دوڑنے لگی اور اس پر سفرپہلے کی نسبت زیادہ آرام دہ ہوگیا۔ بیسویں صدی میں یہ سواری پوری دنیا میں ’’اسٹیٹس سمبل‘‘ سمجھی جاتی تھی، سرکاری افسران، پولیس اہل کار، فوجی حکام، ڈاکیے ،امراءاور عام لوگ اس پر سفر کرتے ہوئے فخر کرتے تھے۔ہندوستان میںیہ سواری 18ویں صدی کے آخری عشرے میں متعارف ہوئی جس کے بعد برصغیر کے تمام علاقوں میں مقبول ہوتی گئی۔

جب سائیکل کا استعمال بڑھتا گیا توسفر کے ساتھ ساتھ، مقامی طورپر اس کی ریسوں کا انعقادبھی ہونے لگا۔1868ء میں سرکاری سطح پر پہلی مرتبہ اسے کھیل کا درجہ دیا گیا اور فرانس میں مختصر فاصلے کی سائیکل ریس کا پہلی مرتبہ انعقاد ہوا ،جو پیرس کے نزدیک فوارے اور سینٹ کلاؤڈ پارک کے داخلی دروازے تک 1.200میٹر کے فاصلے تک محیط رہی، یہ ریس پیرس میں مقیم 18سالہ برطانوی نوجوان جیمز مورے نے جیتی۔ اس ریس کی کامیابی اور عوام میں مقبولیت کے بعد فرانسیسی حکومت کی جانب سے 1869ء میں ایک شہر سے دوسرے شہر تک طویل فاصلے کی ریس منعقد ہوئی جو پیرس سے شروع ہوکر 135کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے ’’رائین ’‘ شہر میں اختتام پذیر ہوئی۔ اس کا دورانیہ 10گھنٹے 25منٹ تھا جس میں پہاڑی چڑھائی کے کچے راستے پر پیدل سفر بھی شامل تھا، اس کا فاتح بھی جیمز مورے رہا۔چند سالوں میں پورے براعظم یورپ میں روڈ ریس کو مقبولیت حاصل ہونے لگی، جب کہ برطانیہ میں سڑکوں کی خستہ حالت اور ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے ٹریک یا ٹائم ٹرائل سائیکل ریس متعارف کرائی گئی۔ امریکا میں 1878ء میں بوسٹن کے مقام پر پہلی مرتبہ سائیکل ریس کا انعقاد ہوا، جب کہ یونائیٹڈ اسٹیٹس میں ابتدائی ریسوں کا انعقاد ٹریکس پر ہوا اور 1890ء میں تمام بڑے شہروں میں سیمنٹ یا لکڑی کی مدد سے ٹریکس بنائے گئے۔ اسی سال وہاں 6روزہ نان اسٹاپ ریس کے مقابلے ہوئے، جس میں دنیا بھر کے سائیکل سواروں نے حصہ لیا۔ ریس کی انعامی رقم10ہزار امریکی ڈالر رکھی گئی تھی۔ اسی سال اسے باقاعدہ طورپر ایک کھیل کی حیثیت دی گئی۔1899ء میں اس کے قواعد میں تبدیلی کرکے ہر ٹیم ایک کی بجائے دو سائیکلسٹس پر مشتمل کردی گئی۔ 1899ء کے بعد امریکا میں کسی طویل دورانیے کی ریس کا انعقاد نہ ہوسکا لیکن سائیکل ریس کی یہ شکل اٹلی فرانس اور جرمنی میں مقبول ہوگئی اوروہاں باقاعدگی سے اس کا انعقاد ہونے لگا۔ یورپ میں اس کھیل میں نت نئی جدتیں متعارف کرائی گئیں، سڑکوں کی مرمت کرکے وہاں ایک روزہ ریسوں کا انعقاد ہونے لگا، جس کی ابتدا سب سے پہلے فرانس اور بلجیم سے کی گئی۔ اس سلسلے کی پہلی ریس پیرس سے ’’راؤ بیکس‘‘ تک منعقد کی گئی، جس کے بعد اس کا انعقاد ہالینڈ، اٹلی اور اسپین میں بھی کیا جانے لگا۔ سائیکلنگ کے کھیل کو دو درجات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، ٹریک اور روڈ سائیکلنگ۔ ٹریک سائیکل ریس کا انعقاد خصوصی طور سے بنائے جانے والے 250میٹر طویل ویلو ڈرم میں ہوتا ہے، اس کے مقابلے میں روڈ سائیکل ریس کا انعقاد عام سڑک پر ہی خالص فطری ماحول میں ہوتا ، جس میں ریس کے کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ ٹریفک کی روانی بھی جاری رہتی ہے۔

1903ء میں 21روز ہ ’’ٹور ڈی فرانس چیمپئن شپ‘‘سائیکل ریس کا آغاز ہوا، اس کے بعد سے یہ چیمپئن شپ ہر سال تواتر کے ساتھ ہوتی ہے، صرف اول اور دوئم عالمی جنگوں کے دوران دس سال کا تعطل رہا۔ ٹور ڈی فرانس کا انعقادجولائی میں ہوتا ہے،جب کہ اس سے قبل مئی اور جون میں ’’دی گیروڈی اطالیہ‘‘ نامی ریس کا اہتمام ہوتا ہے۔ ستمبر اسپین کی’’ ووئلٹاسائیکل ریس‘‘ اور اکتوبر میں عالمی چیمپئن شپ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ان ریسوں میں جیتنے والے سائیکلسٹس کو خاصی بڑی رقم انعام میں دی جاتی ہے، جب کہ صرف ’’ٹور ڈی فرانس چیمپئن شپ‘‘ کی انعامی رقم ڈھائی ملین ڈالر ہے۔ یورپ سے نکل کر یہ کھیل آسٹریلیا اور ملائیشیا میں بھی معروف ہوا۔ فروری سے اکتوبر تک براعظم یورپ اور امریکا میں سائیکلنگ سیزن کہلاتاہے، جب کہ نومبر، دسمبر کے درمیان ایشیاء میں اس کا اختتام ہوتا ہے۔ 1899ء سے 1980ء تک امریکا میں کسی بھی قسم کی سائیکل ریس کا انعقاد نہیں ہوسکا، البتہ مقامی سطح پر یہ کھیل وہاں مقبول رہا اور اس میں کئی اچھے کھلاڑی ابھر کر منظر عام پر آئے۔ 1984ء میں لاس اینجیلس میں منعقد ہونے والے اولمپک گیمز میں اسے بھی بہ طور کھیل شامل کیا اور امریکی سائیکلسٹس نے حیران کن طور پر اس میں تمغے جیتے۔ 1986ء میں امریکی کھلاڑی گریگ لی پہلی مرتبہ ٹور ڈی فرانس ریس جیتی۔

برطانیہ میں اس کھیل کا آغاز 20ویں صدی میں ہوا، وہاں پروفیشنل اور ایمیچر سائیکلنگ کو مقبولیت حاصل ہوئی، ’’ملک ریس‘‘ اور ’’پروٹور ریس‘‘ کا اہتمام کیاگیا۔ آسٹریلیا میں ’’ٹور ڈاؤن‘‘، ملائیشیا میں ’’لانگ کاوی‘‘، اور’’ جاپانی کپ‘‘ کے دوران شاہراہوں پر لکیریں ڈال کر ریس کے لیےعلیحدہ سے ٹریک بنادیا جاتا ہے۔ ان ممالک میں منعقدہ سائیکل ریس یورپ اور امریکا کی پروفیشنل ٹیموں کے لیے پُرکشش ہیں۔ ایشیاء کے کئی دیگر ممالک میں بھی سائیکل ریسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے، جن میں ایشین چیمپئن شپ اور ساؤتھ ایشین چیمپئن شپ قابل ذکر ہیں، جن میں صرف ایشین ٹیمیں ہی حصہ لیتی ہیں۔ مردوں کی روڈ اور ٹریک سائیکل ریس تو1896ء میں اولمپکس گیمز کا حصہ بنیں لیکن 1984ء میں خواتین کی پہلی سائیکل ریس اور 1988ء میں خواتین ٹریک ریس کو اولمپک گیمز میں شامل کیا گیا۔ 1996ء میں اٹلانٹا میں اولمپکس گیمز کے موقع پر خواتین کی پروفیشنل ٹیموں کو یس اور ٹریل مقابلوں میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی۔
بھارت میں سائیکلنگ کے کھیل کا آغاز 1938ء میں ہوا، سائیکلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے نام سے ایک قومی تنظیم تشکیل دی گئی جو ملکی سطح پر اس کے مقابلوں کا انعقاد اور نگرانی کرتی ہے اس کے علاوہ ہر صوبے اور ریاست میں مقامی تنظیمیں موجود ہیں۔ بھارت میں ہر سال ماؤنٹین بائیکنگ ریس کا باقاعدگی سے انعقاد کیا جاتا ہےجس میں بھارت کی مقامی ٹیموں کے علاوہ بین الاقوامی کھلاڑی بھی حصہ لیتے ہیں۔ گزشتہ سال سکم کی ریاست کی جانب سے سب سے بڑی سائیکل متعارف کرائی گئی جس کی رقم جنوبی ایشیاء کے ملکوں کی بہ نسبت سب سے زیادہ رکھی گئی ہے۔ بھارت میں ’’ٹور آف نیلگریس‘‘ کے نام سے 100 کلومیٹر سائیکل ریس کا انعقاد کیا جاتا ہے، لیکن یہ قطعی طور پر غیر تجارتی بنیادوں پر منعقد کی جاتی ہے۔ ہر سال فروری میں نیشنل روڈسائیکلنگ چیمپئن شپ ہوتی ہے جس میں بھارت کے مختلف اداروں اور شہروں سے تعلق رکھنے والی 25ٹیمیں حصہ لیتی ہیں۔ گزشتہ سال بھارت کی جونیئر سائیکلنگ ٹیم، عالمی جونیئر چیمپئن شپ جیت کر بین الاقوامی تنظیم یونین آف سائیکلسٹس انٹرنیشنل کی عالمی درجہ بندی میں پہلے نمبر پر آئی، چند سال قبل یہی ٹیم 149ویں نمبر پر تھی۔

پاکستان میں یہ کھیل حکومت کی عدم توجہی اور کھیلوں کی سیاست کی وجہ سے انحطاط کا شکار ہے۔ قومی کھلاڑی انفرادی طور پر کارنامے انجام دیتے رہتے ہیں لیکن حکومت کی طرف سے نہ تو انہیں پذیرائی ملتی ہے اور نہ ہی سرپرستی حاصل ہے۔ پاکستان میں سائیکلنگ کے کھیل کا آغاز، قیام پاکستان کے بعدکے فوری بعد ہوگیا تھا، بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ملک میں کھیلوں کے فروغ میں خصوصی دل چسپی رکھتے تھے۔ 1947ءمیں پشاور میں سائیکلنگ کی مجلس منتظمین، پاکستان سائیکلنگ فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا، جس کے پہلے صدر ، قائد اعظم تھے، واپڈا اور آرمی کی چار جب کہ چاروں صوبوں اور اسلام آباد کی سائیکل ٹیمیں باقاعدگی سے قومی ایونٹ میں حصہ لیتی ہیں۔سائیکلنگ کی مذکورہ قومی تنظیم کا پاکستان اسپورٹس بورڈ، پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اور ایشین سائیکلنگ کنفیڈریشن کے ساتھ الحاق ہے، جب کہ عالمی تنظیم ،یونین آف سائیکلسٹس انٹرنیشنل سے منظور شدہ ہے۔پی سی ایف میں چاروں صوبائی ایسوسی ایشنز کے علاوہ پاکستان آرمی، سوئی سدرن گیس، واپڈا اور اسلام آباد سائیکلنگ ایسوسی ایشن بھی شامل ہیں۔ 1948ء میں کراچی میں پہلے پاکستان اولمپکس گیمز کا انعقادہوا، جس میں قومی سائیکلنگ چیمپئن شپ کے ٹورنامنٹس بھی ہوئے۔ ریس کا افتتاح بانی پاکستان نے کیا۔ پی سی ایف کے زیر اہتمام ہردو سال بعد ٹور ڈی پاکستان انٹرنیشنل سائیکل ریس کا انعقاد ہوتا ہے اس میں150ملکی و بین الاقوامی سائیکلسٹ حصہ لیتے ہیں ۔ پہلے اس کا آغاز کراچی سے ہوتا تھا لیکن اب اس کا دائرہ کار بلوچستان تک بڑھا دیا گیاہے ۔ یہ ریس دنیا کی سب سے بڑی سائیکل ریس ہوتی ہے جو بلوچستان سے شروع ہوکر1648کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے پشاور میں اختتام پذیر ہوتی ہے۔ اس دوران گیارہ مقامات پر کھلاڑیوں کوآرام کرنے کے لیے ٹھہرایا جاتا ہے۔پاکستان سائیکلنگ فیڈریشن کا دوسرا بڑا ایونٹ ’’ٹور دی گلیات نیشنل روڈ سائیکل ریس ‘‘ کے نام سے خیبر پختون خوا سائیکلنگ ایسوسی ایشن اور ٹورزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن خیبر پختون خوا کے اشتراک سے کیا جاتاہے ۔ اس کا انعقاد ،دو مرحلوں میں ہوتا ہے، ریس کے پہلےمرحلے کا آغازاسلام آباد سے ایبٹ آباد تک ہوتا ہے، وہاں سے دوسرے مرحلے میں شروع ہونے والی ریس 8200فٹ کی بلندی پر واقع نتھیا گلی تک جاتی ہے، جہاں اختتامی تقریب منعقد ہوتی ہے جس میں جیتنے والے کھلاڑیوں میں انعامات و اعزازت تقسیم کیے جاتے ہیں۔پاکستان میں1960سے 70کی دہائی تک اس کھیل کو سرکاری سرپرستی حاصل رہی، صدر اور وزرائے اعظم کی جانب سے سائیکلسٹوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی، اس دور میں پاکستانی کھلاڑیوں نے اولمپکس سمیت دیگر بین الاقوامی مقابلوں میں بھی حصہ لیا لیکن 1970ء کے بعد اس کھیل کا کوئی پرسان حال نہ رہا۔ ملک کے لیے کارہائے نمایاں انجام دینے والے کئی بین الاقوامی سائیکلسٹس انتہائی کس مپرسی کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں۔1960ء اور 1964ء میں پاکستانی سائیکلسٹ محمد عاشق نے اولمپکس مقابلوں میں اپنے وطن کی نمائندگی تھی۔ اپنے کیریئر کے دوران ملکی و بین الاقوامی مقابلوںمیں 70سے زائدسونے، چاندی اور کانسی کے تمغے حاصل کیے۔ حکومت پاکستان کی طرف سے انہیں چار مرتبہ قومی ہیرو کے ایوارڈ سے نوازا گیا لیکن ایک ریس کے دوران زخمی ہونے کے بعد ان کی کارکردگی متاثرہوئی ،جسے جواز بنا کرمحکمہ ریلوے کی طرف سے انہیں ملازمت سےفارغ کردیا گیا۔ بے روزگاری کی وجہ سے ان کی ساری جمع پونجی ختم ہوگئی، گھر اور دیگر اثاثے فروخت ہوگئے، آج کل اپنے اہل خانہ کو فاقہ کشی سے بچانے کےلیے رکشہ چلانے پر مجبور ہیں۔موجود دور میں اس کھیل کے لیے سہولتوں کا فقدان ہے، صوبائی ایسوسی ایشنز اپنے طور سے سائیکل دوڑ کا انعقاد کرتی ہیں۔ ٹریک سائیکل ریس کے انعقاد کے لیے پورے ملک میں 1952ء میں واحد ویلو ڈرم تعمیر ہوا تھا جو خستہ حالی کا شکار ہوکر ریس کے قابل نہیں رہا۔ ملک میں سائیکل کےبے شمار باصلاحیت کھلاڑی موجود ہیں، ان میں سے کئی سائیکلسٹ ناکافی سہولتوں کے باوجود عزم و ہمت اور حوصلے کی بہترین مثال ہیں، جو کوئٹہ سے پشاور تک ٹور ڈی پاکستان سائیکل ریس میں حصہ لے کر کوئٹہ سے پشاور تک سائیکل دوڑاتے ہوئے جاتے ہیں، جب کہ ٹور ڈی گلیات سائیکل ریس میں پہاڑی بلندیوں پر سائیکل چلا کر 8200فٹ بلندی پر چڑھنا انتہائی جوکھوں کا کام ہے، لیکن پاکستانی سائیکلسٹس یہ کارنامہ ہر سال انجام دیتے ہیں، جولائی 2016ء میںپاکستان کی خاتون سائیکلسٹ ثمر خان نے اسکردو میں سطح سمندر سے 13500فٹ کی بلندی پر واقع بیافو گلیشئر پر سائیکل چلا کر نیاعالمی ریکارڈ قائم کیا جب کہ انہوں نے اسلام آباد سے بیافو گلیشیئر تک سائیکلنگ کا بھی ریکارڈ بنا ڈالا۔وہ اس سے قبل سائیکل پر خنجراب تک کا سفر کرنے کا کارنامہ انجام دے چکی ہیں۔ مرد کھلاڑیوں میںمقصود صادق، نصرت خان اور محمد شفیق بہترین کھلاڑیوں کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ 1999ء میں ہونے والی سارک سائیکلنگ چیمپئن شپ میں ہارون رشید اور دل شیر علی نے بالترتیب طلائی اور نقرئی تمغہ حاصل کیا تھا، یہ کسی بین الاقوامی سائیکل ریس میں پہلا چیمپئن شپ اعزاز تھا جو مذکورہ کھلاڑیوں نے پاکستان کو دلوایا۔

انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کی ہدایت پر پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن نے ویمن سائیکلنگ کو فروغ دیا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خواتین میں یہ کھیل خاصامقبول ہوا اوراب تک خواتین کی دو سائیکلنگ چیمپئن مقابلوںکا انعقاد ہوچکا ہے جن میںراحیلہ بانو اور مصباح مشتاق نے قومی اعزازت جیتے۔خواتین کھلاڑیوں نے صرف ملک میں ہی نہیں بلکہ غیرممالک میں بھی کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں۔ پہلے پاک بھارت پنجاب گیمز جو دسمبر 2014میں بھارت کے شہر پٹیالہ میں منعقد ہوئے تھے، پاکستان کی خاتون سائیکلسٹس نے کئی بین الاقوامی اعزازات اپنے نام کیے۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 13 Articles with 18469 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.