سیاست میں جانور!

 گزشتہ روز وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے لیہ میں ایک جلسہ سے خطاب کیا تو وہاں بھی شیر کا خوب ذکرِ خیر ہوا۔ انہوں نے قوم کو بتایا کہ’’․․․ اگر سو گیدڑ بھی آجائیں تو شیر اپنی جگہ کھڑا رہتا ہے․․․‘‘۔گویا سیاست اب انسانوں کا نہیں، شیروں، گیدڑوں ․․․اور دیگر مخلوقات کا کام رہ گیا ہے۔ شیر کے اتنے روپ تاریخ میں اس سے قبل کبھی سامنے نہ آئے ہونگے جتنے آج کل آرہے ہیں۔ محاورات اور استعارات کی زبان میں شیر ہمہ وقت اپنے ارد گرد ہی دکھائی دیتا ہے۔ پاکستانی سیاست میں یہ اہم مقام حاصل کر چکا ہے۔ وجہ تو سادہ سی ہے کہ حکمران پارٹی کا انتخابی نشان شیر ہے، اسی لئے اس کو جہاں کوئی چاہتا ہے اپنے مقصد کے لئے استعمال کررہا ہے۔ ن لیگ کا جلسہ ہو یا کوئی تقریب، قائدین کی آمد پر ’’شیر آیا، شیر آیا‘‘ کے نعرے ضرور لگتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ شیر آ جاتا ہے، یار لوگ اس کی آمد پر استقبالی نعرے لگاتے ہیں، اسے سرآنکھوں پر بٹھاتے ہیں، سرخ قالین پر چل کر وہ آتا ہے، انتظامات ایسے ہوتے ہیں کہ اسے کم سے کم قدم چلنا پڑے، جہازوں سے ہیلی کاپٹر، ہیلی کاپٹر سے گاڑی اور گاڑی سے سٹیج۔ ایک طرف تو شیر کو دیکھ کر ہی انسان کا پِتہ پانی ہو جاتا ہے، دوسری طرف اسی شیر کی آمد پر خوشی کے نعرے؟ یہ تضاد ہے، یا محاوروں کا کرشمہ۔ حکمران جماعت اپنے انتخابی نشان کو طاقت اور عظمت وغیرہ کے طور پر سامنے لاتی ہے، ہر موقع پر شیر کا تذکرہ ساتھ رہتا ہے۔

اپنے خطاب میں وزیراعظم نے مخالفین (بلکہ مخالف) پر الزام لگایا کہ’’․․․ وہ گالیوں کی زبان استعمال کرتے ہیں، اپنی زبان پر قابو نہ رکھنے والا حکمرانی کے قابل نہیں ہو سکتا ․․‘‘ ۔اور یہ بھی کہ ’’․․․اُن کی دس جلسیاں مل کر بھی ہمارے ایک جلسے کے برابر نہیں ہو سکتیں․․․‘‘۔ نوبت یہاں تک آچکی ہے کہ الفاظ کے استعمال میں اب کوئی بڑی جماعت بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتی کہ اس کے لیڈر بہت مہذب انداز میں گفتگو کرتے ہیں، الفاظ کے چناؤ میں احتیاط سے کام لیتے ہیں، دوسروں کی تضحیک اور توہین سے گریز کرتے ہیں۔ ہر فرد کسی نہ کسی موقع پر دل کی بھڑاس نکال ہی لیتا ہے، اگر وزیراعظم خود کچھ احتیاط کرتے ہیں، تو وہ بھی جذبات میں دوسروں کو گیدڑ اور خود کو شیر قرار دے دیتے ہیں، مگر ان کے وزراء اور برادرِ خورد خادمِ پنجاب بھی مخالفین کے پیٹ پھاڑتے اور انہیں سڑکوں پر گھسیٹنے کی دھمکیاں دیتے نظر آتے ہیں، کرپشن وغیرہ ثابت ہونے پر اپنا نام تبدیل کردینے کا پیغام بھی دیتے رہتے ہیں۔

یہ جانور جب انتخابی نشان بنتے ہیں تو امیدوار پر اس کے بڑے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ہم ایک ایسے نحیف سے امیدوار سے واقف ہیں، جنہیں کبھی ہاتھی کا انتخابی نشان ملا تھا، تب سے تامرگ ہاتھی ان کے نام کا حصہ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اب گائے، بطخ، بکری، اورا سی نوع کے دیگر چھوٹے بڑے جانوروں کو کوئی امیدوار قبول ہی نہیں کرتا۔ ویسے بھی الیکشن کمیشن نے ایسے بہت سے جانور فہرست سے خارج ہی کردیئے ہیں۔ مگر ایسے بہت سے جانوراور بھی ہیں، جنہیں ضبطِ تحریر میں نہیں لایا جاسکتا، نہ ہی ان کو انتخابی نشانوں کی فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے، مگر اپنے سیاستدان جلسوں میں ان کا خوب استعما ل کرتے ہیں، اپنی نجی محفلوں میں بھی ان کا خوب تذکرہ ہوتا ہے، دوسروں کو ان سے تشبیہ دی جاتی ہے۔
وزیراعظم نے سو گیدڑوں کی آمد پر بھی شیر کے کھڑے رہنے کی بات کی ہے، ہمارا خیال ہے کہ جہاں ایک شیر ہو وہاں گیدڑ کیا، کوئی جانور بھی قریب نہیں آتا۔ شیر کو جنگل کا بادشاہ ماننے کی وجہ سے ہی اس کی بات بنی ہوئی ہے، ورنہ شیر میں بہت سی ’کمزوریاں‘ بھی ہیں، مثلاً شیر کو ہم لوگ بہادری کی علامت قرار دیتے ہیں، جبکہ شیر اپنی طاقت اور خونخواری کی وجہ سے جنگل کا بادشاہ ہے۔ بہادری کے مناظر تو لوگوں نے ٹی وی چینلز پر دیکھے ہوئے ہیں، جب دو چار بھینسے بھی سیدھے ہو جائیں تو شیر دُم دبا کر بھاگ نکلتا ہے، ہاں کوئی سادہ جانور اکیلے میں قابو آجائے تو بچ کر نہیں جاسکتا۔ جو کچھ بھی ہے، اپنی سیاست کو شیروں ، گیدڑوں اور دیگر جانوروں کی گرفت سے باہر نکالنے کی ضرورت ہے، بہتر ہے کہ ہم لوگ خود کو فخریہ جانور قرار دینے کی بجائے انسان بن کر انسانوں اور کائنات کی دیگر مخلوقات کی خدمت کریں۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428422 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.