نفسِ ذکیہ - قسط١٩

مجدی بار بار ٹیکسی میں بیٹھا اسی ہزار روپے کا چیک نکال کر دیکھ رہا تھا۔ صرف ایک ہفتے کام کرنے کے اتنے پیسے۔۔۔ اسے تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔ اس نے پھر چیک والٹ سے نکالا اور اسے غور غور سے پڑھنے لگا۔
’’اسی ہزار ہی لکھے ہیں نا۔۔۔‘‘ اس نے خود سے کہا اور ہلکا سا مسکرا دیا۔
’’چلو اب ذولقر کے پیسے بھی واپس کر دوں گا اور گھر میں بھی ہاتھ کھلا ہو جائے گا‘‘۔ مجدی اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا۔ کچھ عرصے قبل جو پیسے اس نے مجھ سے ادھار لئے تھے وہ اب تک واپس نہیں کئے تھے۔

ٹیکسی والے نے گاڑی ایک بینک کے سامنے روک دی۔ مجدی تیزی سے ٹیکسی سے اترا اور بینک میں گھس گیا۔دو تین دن بعد چیک کلئیر ہو جانا تھا۔ اس نے دو تین دن کا انتظار نہ کیا اور جو کچھ پیسے اس کے پاس پہلے سے موجود تھے وہ اے ٹی ایم سے نکال کر ایک بڑے شاپنگ مال چلا گیا۔

ایک اسپورٹس شاپ پر بہت سی رنگ برنگی اسپورٹس ٹی شرٹس اور شورٹس وغیرہ لٹکے ہوتے تھے۔ اس نے لائٹ بلو کلر کے شارٹس اور دو تین مختلف شوخ رنگوں کی ٹی شرٹس وہاں سے خرید لیں۔ پھر وہ ایک اور دوکان میں گھسا اور وہاں سے جاگرز لے لئے۔

شاپنگ مال سے نکل کر وہ ایک مشہور اور مہنگے جِم چلا گیا اور وہاں چھ ماہ کی ایک ساتھ ریجسٹریشن کروا لی۔
۔۔۔۔۔۔۔

بہت دن ہو گئے تھے۔ دلاور کی نہ مجدی سے ملاقات ہوئی تھی اور نہ ہی مجھ سے۔ ویسے تو اسے ہماری کوئی پر واہ نہیں ہوتی تھی۔ وہ تو ہمیشہ سے ہی اپنے مشغلوں میں اپنی مزوں میں گم رہتا تھا۔ وہ ان لوگوں میں سے تھا جن کو کسی کے ہونے نہ ہونے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا تھا۔ ان کے لئے ان کی اپنی ذات ہی کا کائنات ہوتی تھی۔ پھر بھی دوستوں کے ساتھ کا بھی ایک اپنا مزہ ہوتا ہے ۔ وہ اس مزے کو بھی چکھتے رہنا چاہتا تھا۔ ویسے بھی میں اور مجدی دونوں ہی مخلص دوست تھے۔ ایسے دوستوں سے ملتے جلتے رہنا بھی اسی کے فائدے کے بات تھی۔

کئی دنوں بعد اسے ہماری یاد آ ہی گئی۔ اسے یہ تو معلوم ہی تھا کہ میں نے مجدی کو وقتی طور پر اپنے آفس میں رکھ لیا ہے۔ لہذا وہ گیارہ بجے ہمارے آفس پہنچ گیا۔ نہ میں وہاں موجود تھا اور نہ ہی مجدی۔

’’کہاں ہیں بوس؟؟؟‘‘ دلاور نے مجھے دکان میں نہ پا کر میرے ایک ورکر سے سوال کیا۔
’’سر! وہ تو آج کل لیٹ آتے ہیں۔۔۔ اور اکثر چھٹی بھی کر لیتے ہیں۔‘‘۔ دلاور اس کی بات سن کر حیران ہو گیا۔ میں تو ایک بہت محنتی ، ذمو دار اور دلجمئی سے کام کرنے والا آدمی تھا۔ وہ حیران تھا کہ میں کیوں لیٹ آ رہا ہوں اور چھٹیاں بھی کر رہا ہوں۔
’’۔۔۔اور مجدی ۔۔۔ وہ کہاں ہے؟؟؟‘‘ دوسرا سوال دلاور نے مجدی کے بارے میں کیا۔
’’سر ! وہ تو آتے ہیں۔۔۔ مگر کہہ رہے تھے ان کی بھی کہیں اور جاب ہو گئی ہے۔ اس لئے بیچ بیچ میں چھٹی بھی کر لیتے ہیں اور ہاف ڈے لیو بھی لے لیتے ہیں۔‘‘
’’اچھا!‘‘ دلاور کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ اسے ان سب باتوں کی کوئی اطلاع نہیں تھی۔ نہ ہی ہم میں سے کسی نے اسے کچھ بتایا اور نہ ہی اس نے ہمارا کوئی حال چال پوچھا تھا۔

دلاور وہیں ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ موبائیل نکالا اور میرا نمبر ڈائیل کر دیا۔
میں اپنے کمرے میں پڑا سو رہا تھا ۔رات بھر کا جاگا ہوا۔ مجھے کیا ہوش تھا کہ آفس میں کیا ہو رہا ہے۔ کون مجھے یاد کر رہا ہے۔ میں ویسے بھی اپنا موبائیل سائلنٹ پر ہی رکھتا تھا۔ موبائیل بجتا رہا اور میں سویا پڑا رہا۔
دلاور نے کال کاٹ کر مجدی کا نمبر ملایا۔
’’ہیلومجدی کہاں ہو تم؟؟؟‘‘
’’میں آفس آیا ہوا ہوں‘‘۔ دلاور بولا۔
’’ام م م م۔۔۔ آفس ۔۔۔ آ۔۔۔ او کے۔‘‘
’’یار میں تو آج لیٹ آؤ ں گا آفس۔۔۔‘‘ مجدی نے کہا۔
’’اچھا‘‘۔’’ کیوں؟؟؟ ‘‘ دلاور نے پھر پوچھا۔
’’یار وہ بس ایک۔۔۔ ایک کال سینٹر ہے ۔ اس میں میری جاب ہو گئی ہے۔ رات کی شفٹ تھی ۔۔۔ اس لئے میں آج نہیں آ سکا۔۔۔‘‘ مجدی نے وضاحت کی۔
’’اچھا! اور ذولقر؟؟؟ اسے کیا ہوا ہے؟؟؟‘‘ دلاور سمجھا شاید میں بیمار ہوں یا کوئی اور ایسی وجہ ہو گی کہ میں آفس میں ٹائم نہیں دے پا رہا۔
’’ذولقر! یار۔۔۔ ذولقرکی حالت ٹھیک نہیں ہے‘‘۔ یک دم مجدی انتہائی اداس ہو گیا ۔اس کی اداسی اس کی آواز سے چھلک رہی تھی۔
’’ہیں!!! کیوں؟؟؟ کیا ہوا؟؟؟‘‘ دلاور نے بھی پریشان کن لہجے میں پوچھا۔
’’یار ! بس وہ۔۔۔ وہ فوزیہ کے ہاں رشتہ بھیجا تھا ۔ انہوں نے انکار کر دیا۔۔۔ اور وہ اس سے بات چیت بھی نہیں کر رہی۔۔۔‘‘ مجدی نے مختصراََ بات بتائی۔
’’اچھا! تو وہ۔۔۔ آئی مین۔۔۔ وہ پریشان ہے اس لئے آفس نہیں آ رہا؟؟؟‘‘ دلاور کو اس پیار محبت کے بارے میں کیا پتا تھا۔اس کے اندر تو غالباََ ہوس اور حرص کے علاوہ کوئی جزبات موجود ہی نہیں تھے۔ یا پھر ہوس اس کے تمام تر جزبات پر ہمیشہ حاوی ہو جاتی تھی۔
’’ہاں۔۔۔ وہ بہت غمزدہ رہتا ہے۔اداس سا رہتا ہے۔ کم کم بات کرتا ہے۔۔۔ پچھلے کئی دنوں سے تو آفس پر بھی ٹائم نہیں دے رہا۔۔۔ پہلے تو میں سنبھال لیتا تھا۔ مگر اب میری بھی دوسری جاب ہو گئی ہے۔۔۔‘‘
’’اوہ۔۔۔ عجیب بات ہے‘‘۔ دلاور کو یہ سب بہت عجیب لگا۔
’’چلو پھر ایک دو دن میں اس کی طرف چکر لگاتے ہیں۔ پھر اس کی خبر لیتا ہوں میں‘‘ ۔ دلاور نے مسکرا کر کہا اور بات ختم کی۔

مجدی تو روزہی مجھ سے ملنے آتا تھا ۔ مگر دلاور یہ سب جاننے کے باوجود بھی اس دن میری طرف نہیں آ یا۔ اس شام تو اس کی کہیں اور سیٹنگ تھی۔ اس نے سوچا مجھ سے دو تین دن میں مل لے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔

’’بیٹا! سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ میں رشتے کی بات کر ہی چکی ہوں۔اب انہوں نے منع کر دیا ہے تو میں کیا کروں۔ ‘‘ مجدی میرے گھر بیٹھامیرے والدین سے بات کر رہا تھا۔ وہ میرے کہنے پر امی ابوکو منانے کی کوشش کر رہا تھا کہ ایک بار پھر فوزیہ کے رشتے کی بات کریں۔
’’سچ پوچھو تو مجھے تو ذولقر کی اس حرکت سے بہت مایوسی ہوئی۔ بے شک ذولقر کی شادی ہمیں کرانی ہے۔ مگر ابھی ہم سب اس کے لئے تیار نہیں ہیں۔ بیٹا ذولقر کی چھوٹی بہنیں ابھی گھر بیٹھیں ہیں۔ کسی کی شادی نہیں ہوئی۔کم از کم ایک بہن کی تو شادی ہو جاتی۔ چھوٹا بھائی بھی ابھی یونیورسٹی میں گیا ہے۔ ان کی ابو بھی ریٹائرڈ ہیں۔ ذولقر کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چائیے‘‘۔

’’آپ تو خود ہی ہم سب کو جانتے ہو۔ ‘‘ ابو جان بھی بولے۔
’’کوئی نئی لڑکی آئے گی۔ باہر کی۔۔۔ کوئی جان پہچان نہیں۔۔۔ نا جانے کیسی فیملی ہو گی۔ گھر کا سارا ماحول ڈسٹرب ہو گیا تو پھر کیا ہوگا۔۔۔ سارا نظام خراب ہو جائے گا‘‘۔
ابو جی نے مزید کہا۔ مجدی چپ چاپ ان کی باتیں سننے رہا تھا۔ فوزیہ کے حق میں کوئی بات کہنے سے پہلے وہ بہت محتاط تھا۔ کیونکہ وہ خود بھی اس کے معاملے میں ایک تشویش کا شکار تھا۔

’’بیٹا! بہتر ہے آپ ذولقر کو سمجھاؤ۔۔۔ ہم دیکھ رہے ہیں وہ کام پر توجہ نہیں دے رہا۔ باقی بہن بھائی بھی پوچھنے لگے ہیں کہ بھائی کو کیا ہوا ہے۔ اب بتاؤ ہم کیا کہیں؟؟؟ ‘‘ ذولقر کی والدہ نے کہا۔
’’میں بھی ایک دو دن میں اسٹور کا چکر لگاؤ ں گا۔ اب کام تو نہیں ہوتا مگر جا کر بیٹھ جاؤں گا۔۔۔ کیا کروں!!!‘‘ ابوجان بولے۔
’’ملازموں کے حوالے کاروبار کر دیا تو جلد ہی سڑک پر آ جائیں گے۔ ذولقر رات بھر جاگتا رہتا ہے۔ دن کو دیر سے اٹھتا ہے۔ پھر دوپہر کو آفس جاتا ہے۔ پتا نہیں وہاں کیا حالات ہیں۔ جو کچھ بال بچوں کی ضروریات پوری ہو رہیں ہیں اسی بزنس سے ہو رہیں ہیں۔ کاروبار ٹھپ ہو گیا تو کیا ہو گا!!!‘‘ ابو جان بہت ضعیف تھے۔ ساری عمر محنت مشقت کرتے گزار دی تھی۔ اب ان کا آرام کا وقت تھا۔ بے شک اس عمر میں ان پر کام کا بوجھ ڈالنا نا انصافی ہوتی۔ میں کمر ے کے باہر ہی کھڑا ان سب کی باتیں سن رہا تھا۔امی ابو کی یوں لاچاری دیکھ کر میرا چہرا شرم سے لال ہو گیا۔ اپنے آپ پر شرمندگی ہونے لگی۔ افسوس ہونے لگا اپنے کئے پر۔۔۔ ساتھ ساتھ بہت درد بھی ہونے لگا۔ اندازہ ہو گیا کہ فوزیہ کو اپنی شریکِ حیات بنانے کا خواب ایک کانٹوں بھرا راستہ ہے۔

میں منہ موڑ کر ایک ایک قدم چلتے وہاں سے دور ہو گیا اور اپنے کمرے میں گھس کر دروازہ بند کر دیا۔ ایک روز قبل ہی میں نے ایک فارمیسی سے نیند کی گولیوں کا ایک پیکٹ خریدا تھا۔ میں نے دراز کھولی اورجلدی جلدی دو تین نیند کی گولیاں نکال کر کھا لیں۔
۔۔۔۔۔۔۔

مجدی رات کو اپنے کمرے میں اکیلا بیٹھا تھا۔ اس نے اپنا فیس بک اکاؤنک اوپن کیا اور’’ فوزیہ ارشد ‘‘کی پروفائل دیکھنے لگا۔ وہ اس کے پاس ایڈڈ تھی۔ اس نے ایک ایک کر کے اس کی تمام پوسٹس کا معائنہ شروع کر دیا۔ اس کی ہر پوسٹ کے کمینٹس دیکھنے شروع کر دئیے۔ جس بھی چیز پر اسے کچھ تشویش ہوتی وہ اس کو کلک کر کے اور اس پر سرچ کرنے لگتا۔

فوزیہ کی تمام پوسٹس بالکل نارمل تھیں۔ کہیں کوئی شاعری لکھی تھی۔ کہیں کوئی خوبصورت تصویر تھی۔ کہیں کوئی اچھی بات یا وڈیو تھی۔۔۔
ایک اور چیز جو مجدی کی توجہ کا مرکز بنی وہ بہت سی دلہنوں کے ڈریسز اور مہندی وغیرہ کی پوسٹس تھیں۔ فوزیہ روز ہی دو تین پوسٹس بھیج رہی تھی اور مختلف چیزوں پر لائک وغیرہ بھی کر رہی تھی۔ اس کی کسی پوسٹ سے نہیں لگ رہا تھا کہ وہ اداس ہے یا نا خوش ہے۔

پھر مجدی کو ایک پکچر نظر آئی جس میں فوزیہ اپنی کچھ دوستوں کے ساتھ کسی ریسٹورینٹ میں بیٹھی لنچ کر رہی تھی۔ بہت سے لائکس اور چھ سات کمینٹس وہاں موجود تھے۔ مجدی نے ایک ایک کر کے تمام لائکس پر نظر دوڈائی اور پھر کمینٹس پڑھنے شروع کر دئیے۔ گزشتہ روز ہی فوزیہ اپنی دوستوں کے ساتھ ایک بڑے مال میں شاپنگ کرنے گئی تھی۔

شک کا بال تو مجدی کے دل میں پہلے ہی پیدا ہو گیا تھا۔ اب اسے یقین ہوتا جا رہا تھا کہ فوزیہ مجھ سے کوئی کھیل کھیل رہی ہے۔ مجدی نے فوزیہ کی فرینڈز لسٹ چیک کی اور اس موجود دو تین لڑکیوں کو چن کر انہیں فرینڈ ریکویسٹ بھیج دی۔

مجدی نے انتہائی احتیاط سے فوزیہ کی دوستوں سے بات چیت شروع کی۔ آخر کار یہ راز کھل ہی گیا کہ فوزیہ کا اگلے ماہ نکاح ہونے جا رہا ہے اور وہ اس رشتے سے نہایت خوش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔

ابوجان صبح سویرے اٹھ کر اسٹور چلے گئے۔ میں اپنے کمرے میں پڑا سو رہا تھا۔ وہ ریٹائرڈ تھے۔ ساری زندگی نوکری کرتے رہے۔ اب آرام کرتے اور کچھ کتابیں وغیرہ پڑھ کر وقت گزارتے تھے۔ اب کام کی عادت بھی ختم ہو گئی تھی۔ انہیں میرے تیور ایک آنکھ نہ بھائے۔ اچانک میرا کام سے منہ پھیر لینا ۔۔۔ یہ غیر ذمہ داری ۔۔۔ دیر سے اٹھنا۔۔۔ سب سے کٹے کٹے رہنا۔۔۔ وہ اندر ہی اندر مجھ پر کڑھ رہے تھے۔

کوئی تین چار ماہ میں ایک بار وہ وقت گزاری کے لئے آفس آ جایا کرتے تھے۔ مگر اس دن وہ وقت گزارنے نہیں بلکہ کاروبار سنبھالنے کے ارادے سے گھر سے نکلے تھے۔ ان کی ذمہ داریاں ابھی کہاں ختم ہوئیں تھیں۔ بیٹیاں گھر میں کنواری بیٹھیں تھی۔ چھوٹے بیٹے کی پڑھائی ابھی نا مکمل تھی۔

انہوں نے اسٹور میں بنے آفس کی سیٹ سنبھال لی اور ایک پرانے ملازم کو بلا کرشوز کے آڈر، سپلائی، سیل وغیرہ کے بارے میں پوچھ گچھ کرنے لگے۔
ملازمین نے بہت سے رجسٹرز اور فائلز لا کر ان کے سامنے ڈھیر کر دیں۔ انہوں نے ماتھے پر بل دیتے ہوئے کچھ کاغذات چیک کرنا شروع کئے۔ کمپیوٹر پر ذیادہ کام کرنے کی تو انہیں عادت تھی نہیں جبکہ اب ذیادہ تر کام کمپیوٹر پر ہی ہوتا تھا۔ لہذا انہوں نے پرانے طور طریقوں پر معاملات کا جائزہ لینا شروع کیا۔

کچھ دیر تو وہ آفس کے معاملات سمجھنے کی کوشش کرتے رہے پھر پریشان سے ہوگئے۔ انہوں نے کمپیوٹر آن کر لیا اور اس میں کوئی کام کی چیز ڈھونڈنے لگے۔ وہ مختلف ڈاکومنٹس اوپن کلوز کرتے جاتے ۔ پھر انہوں نے اکتا کر کمپیوٹر بھی بند کر دیا۔
’’مال سارا ٹائم پر آ رہا ہے نا؟ کوئی چیز ڈیلے تو نہیں؟؟؟‘‘ وہ ایک ملازم کو مخاطب کر کے پوچھنے لگے۔
’’ام م م۔۔۔ جی سر۔۔۔ لیدر سپلائیر بہت تنگ کر رہا ہے۔۔۔‘‘
’’بہت سا کام اس کی وجہ سے رکا ہوا ہے‘‘۔
’’کوئی ایک ماہ سے اس کو کالیں کر کر کے تھک گئے ہیں مگر وہ۔۔۔‘‘ ایک سیلز مین نے جواب دیا۔
’’اچھا! دو اسکا نمبر۔۔۔‘‘ ابو جان نے اس سے اس سپلائیر کا نمبر مانگا۔

’’السلام علیکم! جی بھائی صاحب کیا مسئلہ ہے آپ لیدر کیوں نہیں سپلائی کر رہے؟؟؟‘‘ ابو جی نے کرخت آواز میں پوچھا۔
’’جناب! آپ کو پہلے بھی کئی بار بتا چکے ہیں کہ ریٹ بڑھ گیا ہے۔ آپ لوگ بات آگے بڑھا ہی نہیں رہے‘‘۔
’’ارے ریٹ کیوں بڑھ گیا ہے؟ یہ توسال بھر کا ایگریمنٹ ہوتا ہے۔۔۔‘‘ ابو نے اس سے بحث شروع کر دی۔
’’ایسا کوئی ایگریمنٹ نہیں ہے ہمارا آپ سے۔۔۔ اب پرانے ریٹ پر مٹیرئیل سپلائی نہیں ہو گا۔‘‘
’’آپ نے کسی کو اطلاع دی تھی؟؟؟‘‘ ابو جان نے پھر پوچھا۔
’’ ذولقرنین صاحب کو ہم پہلے پتا چکے ہیں۔ مگر انہوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ آپ ریٹ اپرووکردیں۔ مال سپلائی ہو جائے گا۔ ورنہ نہیں۔۔۔‘‘
’’یہاں کام رکا ہو ہے بھائی!!! لیدر بھیجو۔۔۔‘‘ ابو کی اس شخص سے منہ ماری ہو گئی۔ عمر رسیدہ افراد کو ویسے بھی غصہ جلدی آ جاتا ہے۔ آخر کار انہوں نے پٹخ کر فون رکھ دیا ۔ ان کا پارا چڑھا ہوا تھا۔ وہ منہ ہی منہ میں کچھ بڑ بڑاتے ہوئے آفس سے نکل گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔

دوپہر کے بارہ بج رہے تھے۔ میں رات کو نیند کی گولیاں کھا کر بستر پر پڑا ہوا تھا۔ اب تو یوں لگتا تھا گویا تب تک نیند ہی نہیں آئے گی جب تک کہ چار پانچ گولیاں نہ کھا لوں۔ یہ گولیاں تو ایک نشہ بن جاتی ہیں۔ ایک دن جتنی کھاؤں گے دوسرے دن اس سے ذیادہ کھانی پڑیں گی۔روز کی طرح میرا اس دن بھی آفس لیٹ ہی جانے کا ارادہ تھا۔ میں از خود تصور کر کے بیٹھا تھا کہ مجدی روز آفس جاتا ہی ہے تو سارا کام سنبھال لیتاہو گا۔ حالانکہ وہ اب پہلے کی طرح میرے اسٹور کو ٹائم نہیں دے پاتا تھا۔ اس کی تو دوسری جاب بھی ہو گئی تھی۔

میں نیند اور بیداری کے بین بین کسی کیفیت میں تھا۔ دماغ جانے کیا کیا باتیں سوچ رہا تھا۔ خود با خود کوئی کہانی بنائے جا رہا تھا۔ کبھی میں کسی کے بارے میں سوچنے لگتا کبھی کسی کے بارے میں۔۔۔ اچانک مجھے فہد کا خیال آ گیا۔۔۔ ہاں وہی۔۔۔ جس نے کسی کے لئے اپنی کلائی کاٹ ڈالی تھی ۔ میری آنکھوں کے سامنے وہ منظر گھومنے لگا۔ ایک عجیب نشیلی سی حالت تھی فہد کی۔۔۔ جب اس نے اپنے آپ کو زخمی کیا تھا۔ وہ خون سے رستی ہوئی کلائی۔۔۔وہ سرخ رنگ۔۔۔ ’’ہاں! کتنا سکون ہے اپنے آپ کو تکلیف دینے میں۔۔۔‘‘ میں نے خود سے کہا۔ شاید میری کٹی ہوئی کلائی دیکھ کر فوزیہ کو مجھ پر ترس آ جائے۔ اسے میری محبت کا یقین ہو جائے۔

میرے پیار کا یقین اسے ہو گا مگر
مجھے زہر پڑے گا پینا

دوسری طرف آج مجدی اسٹور نہیں گیا تھا۔ وہ تو اس تذبذب کا شکار تھا کہ مجھے فوزیہ کی حقیقت کیسے بتائے۔ یہاں ماتم بچھا تھا اور وہاں شہنائیاں بج رہی تھیں۔ مجدی میری حالت سے باخوبی واقف تھا۔ وہ جانتا تھا کہ فوزیہ کے نکاح کی خبر میرے لئے موت کے پروانے سے کم نہیں ہو گی۔ میں پاگل دیوانہ اب بھی اسی خوش فہمی کا شکار تھا کہ میرا محبوب تو بس مجھ سے خفا ہو گیا ہے۔ عشق کے بھول بھلیوں میں ایسے موڑ تو آتے جاتے ہیں۔ جلد ہی فوزیہ پھر مجھ سے ویسے ہی برتاؤ کرنے لگے گی جیسے ہمیشہ سے کرتی رہی تھی۔مگر بے وفائی کا یہ تیر تو اب چھوٹ چکا تھا۔ جس نے میرا سینے کے پار ہونا ہی تھا۔ پہلے تو مجدی نے ارادہ کیا کے وہ میرے گھر کی راہ لے اور دو بدو مجھے سب کچھ بتا دے۔ مگر پھر اس کی بھی ہمت نہ ہوئی۔ کچھ نا مناسب سا لگنے لگا۔ آخر میں ایک مرد تھا ۔ ہر تکلیف بے دردی سے برداشت کر لینا تو میری صفتِ اول خیال کی جاتی تھی۔

وہاں میں نیند کے نشے میں چور خیالوں ہی خیالوں میں ایک بلیڈ اپنے ہاتھ میں لے کر اسے اپنی کلائی پر رگڑ رہا تھا۔چھوٹے چھوٹے خون کے قطرے میری کلائی پر نمودار ہوئے۔ میں نے ایک گہرا سانس لیا اور اس ہلکے سے درد کو محسوس کرنے لگا۔ پھر میں نے بلیڈ کے ایک کنارے کو ایک خون کے قطرے میں ڈبویا اور اسے آہستہ آہستہ چیرنے لگا۔ زخم کچھ بڑا ہوا۔ خون کی ایک لکیر بہہ نکلی اور اس کا پہلا قطرہ زمین پر گِر گیا۔’’ہاہ!‘‘ ۔میری آنکھیں کسی نشوئی کی طرح اوپر کو ہو گئیں۔ میں نے پھر بلیڈ سیدھا کیا اور زخم کو گہرا کرنے لگا۔ ہر طرف خون ہی خون نظر آنے لگا۔

’’دروازہ کھولو! دروازہ کھولے ! ذولقر نین!‘‘ کوئی زور زور سے چلا رہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے دروازے پہ کچھ مار رہا ہو۔ میں نے دروازہ لاک کیا ہوا تھا۔
’’دروازہ کھول!‘‘ کسی نے چنگھاڑ لگائی۔ کوئی بہت غصے میں تھا۔ میں دھیرے دھیرے اپنی خوابیدہ کیفیت سے باہر آنے لگا۔
’’ذولقر! دروازہ کھولو۔۔۔‘‘ یہ کسی عورت کی آواز تھی۔
میں نے کوشش کر کے اپنی آنکھیں کھولنی شروع کیں۔ آنکھوں کے آگے ایک اندھیرہ سا چھا گیا۔ مجھے چکر آنے لگے۔
’’بھائی! کیا کر رہے ہیں؟؟؟ دروازہ کھولیں۔۔۔‘‘ یہ کسی لڑکی کی آواز تھی۔
’’اوہ! ‘‘ یہ تو گھر کے سب لوگ تھے۔ مجھ پر کمزوری طاری تھی۔ میں نے مشکل سے چادر اپنے پر سے ہٹائی اور دروازہ کھولنے آگے بڑھا۔
’’پٹاخ!!!‘‘ ابو جان نے مجھے دیکھتے ہی ایک زور دار تھپڑ میرے چہرے پر رسیدکیا۔ میں لڑکھڑا کر زمین پر گِر گیا۔ جو غصہ ان کے اندر لاوے کی طرح دبا ہوا تھا وہ آج پھٹ گیا۔
’’ابو کیا کر رہ ہیں۔۔۔‘‘
’’ ماریں تو نہیں۔۔۔‘‘
’’چھوڑ دیں ابو!‘‘ تمام بہن بھائی چیخ چیخ کر ابو کو پکڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔
’’خبیث! تو ادھر پڑا رہ ۔۔۔ادھر اسٹور میں ڈاکہ پڑ گیا ہے۔۔۔‘‘ ابو نے چیخ کر کہا اور نیچے ہو کر میری شرٹ کا کالر پکڑ لیا۔ وہ مجھے کھینچ کر اٹھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنی پوری طاقت سے مجھے بن دیکھے مارنا شروع کر دیا۔ سارا گھر ایک ماتم کدہ بن گیا تھا۔ تمام بہن بھائی اور امی، سب ابو کو پکڑنے کی کوشش کر رہے تھی۔ انہیں اور مجھے دور کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
’’تو اِدھر عشق معاشوقی کرتا رہ۔۔۔ اُدھر ہمارا سب کچھ لٹ گیا۔۔۔ ذلیل انسان! بے غیرت !‘‘
مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا ۔۔۔ کیا ہو رہا ہے! کیوں ہو رہا ہے! اسٹور میں ڈاکہ پڑ گیاہے! میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے!!!
ایک تیس بتیس سال کا آدمی اپنے سارے گھر کے سامنے ذلیل ہو رہا تھا ۔۔۔ تمانچے کھا رہا تھا۔۔۔ میرا دل بند سا ہو گیا۔ سانسیں چڑھ گئیں۔ میں تو پہلے ہی آدھا پاگل ہو گیا تھا اب بالکل ہی نڈھال ہو کر گِر پڑا۔
’’اٹھ جا! دفع ہو جا یہاں سے۔۔۔ خبیث ۔۔۔ کمینے۔۔۔ ‘‘ ابو نے مجھے نیچے ہی پڑے پڑے لاتیں مارنی شروع کر دیں۔
’’چھوڑ دیں ابو!!!!‘‘ ایک طرف چھوٹی بہن نیچے گِر کر دھاڑیں مارنے لگی۔ امی جب بھی ابو کے قریب جاتیں ابو جان انہیں بھی ایک دھکہ مار کر پیچھے گرا دیتے۔

میرا دماغ چکرانے لگا۔ ہاتھ کپکیانے لگے۔ مجھے اور کچھ نہ سوجھا میں کمرے سے باہر کو بھاگا ۔ گاڑی کی چابی لپک کر اٹھائی اور اسے لے کر گھر سے بھاگ گیا۔ آنسوؤں سے میرا چہرہ بھیگا ہوا تھا۔ شرٹ کے بٹن ٹوٹے ہوئے تھے۔ میں بے قابو ہو رہا تھا۔ کبھی گاڑی کسی فٹ پاتھ پر لے کر چڑھنے لگتا تو کبھی کہیں ٹکرانے لگتا۔ میں گہرے گہرے سانس لے رہا تھا۔ کچھ پتا نہیں تھا کہ کہاں ہوں اور کہاں جا رہا ہوں۔ میں نے گاڑی ہائی وے کی طرف موڑی اور دور ویرانے میں گاڑی دوڑانے لگا۔ موبائیل میری جیب میں ہی پڑا تھا۔ کسی کا میسج آیا۔ میں نے موبائیل نکال کر دیکھا۔

’’ فوزیہ کو بھول جاؤ ذولقر نین! ایک ماہ بعد اس کا نکاح ہو رہا ہے اور وہ بہت خوش ہے‘‘۔ یہ مجدی کا میسج تھا۔ میرے سینے میں جیسے کسی نے چھرا گھونپ دیا۔ میں نے میسج پڑھا اور بے ہوش ہونے لگا۔ گاڑی ریت میں گھس گئی ۔ میں نے زور سے بریک پر پیر مارا اور ردھڑام سے گاڑی کے اسٹیئرنگ پر گِر گیا۔
میرے ہاتھ پاؤں سن ہو رہے تھے۔ سینہ گھٹ رہا تھا۔ میں نے زور زور سے اپنا سینہ پیٹنا شروع کر دیا۔ ’’ہاہ! ہائے!‘‘ میری سانسوں کی آوازیں زوز زور سے آ رہی تھی۔ مجھے لگ رہا تھا جیسے میں مر جاؤں گا۔ میں ایک بار پھر نڈھا ہو کر گِر پڑا۔ ہاتھ پاؤں بالکل ٹھنڈے ہو گئے۔ میں نے گاڑی کی کر سیاں دروزے کھرچنے شروع کر دیئے۔ میری انگلیوں کا ایک ناخن اکھڑ گیا۔
’’اف!‘‘
میں نے زور زور سے اپنا ہاتھ اپنے منہ میں لے کر خود کو کاٹنا شرع کر دیا۔ اپنا چہرہ اپنے ناخنوں سے نوچنے لگا۔ ناخنوں کے نشان میرے چہرے پر پڑ گئے۔ لال رنگ کی باریک باریک لکیریں میرے چہرے پر ابھر آئیں۔ میں نے بے دھیانی میں گاڑی کا دروازہ کھولا اور غشی کھا کر نیچے ریت پر گِر کر بے ہوش ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔

Kishwer Baqar
About the Author: Kishwer Baqar Read More Articles by Kishwer Baqar: 70 Articles with 78609 views I am a Control Systems Engineer, working in Saudi Arabia.

Apart from work, I am interested in religion, society, history and politics.

I am an
.. View More