امریکاکااگلاشکار...مصرکے اخوان المسلمون ؟

ڈونلڈٹرمپ کے امریکی صدرمنتخب ہونے کے بعدمصرکے ڈکٹیٹراورغاصب حکمران السیسی مشرق وسطی کےپہلے حکمران ہیں جوقصر سفید کے نئے فرعون کی خدمت میں کورنش بجالانے کیلئے حاضر ہوئے ہیں۔ دراصل امریکا میں دائیں بازوکے عناصرایک زمانے سے اس امرکیلئے کوشاں رہے ہیں کہ اخوان المسلمون کودہشتگرد تنظیم قراردے دیا جائے۔ اب جبکہ منہ پھٹ اورفکری اعتبارسے غیر متوازن ڈونلڈ ٹرمپ ایوان صدرمیں ہیں،اخوان کودہشتگرد تنظیم قراردینے سے متعلق کوششوں میں تیزی آگئی ہے۔سینیٹرٹیڈکروزنے کانگریس میں ایک مسودہ قانون متعارف کرایاہے،جس کے تحت وزیرخارجہ کیلئےلازم قراردیاگیاہے کہ وہ کانگریس کوبتائے کہ اخوان دہشتگردقراردیے جانے سے متعلق معیارپرپوری اترتی ہے یانہیں اوراگرنہیں توکہیں ایساتونہیں کہ کسی اہم نکتے کونظراندازکردیاگیاہو۔نیویارک ٹائمز نے حال ہی میں اطلاع دی ہے کہ صدر ٹرمپ ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کرنے کی تیاری کررہے ہیں جس میں وزیرخارجہ کوحکم دیاجائے گاکہ وہ اخوان کودہشتگردتنظیم قراردینے سے متعلق جوازپیش کریں۔ یادرہے کہ مصراورمتحدہ عرب امارات چاہتے ہیں کہ اخوان کو دہشتگرد تنظیم قراردیاجائے۔

اِخوان المسلمون کودہشتگردقراردینے کاآئیڈیانیانہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ بھی انتہائی دائیں بازوکے اس مطالبے کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے ہیں۔یہ معاملہ بہت حدتک ریڈیکل اسلام کے خلاف جاری تہذیبی جنگ سے بھی تعلق رکھتا ہے۔امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل میں یاروسلیف ٹروفیموف نے لکھاہے کہ اخوان کو دہشتگردقراردیناایساآسان بھی نہیں۔ اب بھی اس تنظیم کے کروڑوں حامی موجود ہیں۔دہشتگردقراردیے جانے کی صورت میں کئی ممالک سے امریکاکے تعلقات میں کشیدگی آسکتی ہے۔ ان میں ترکی بھی شامل ہے۔نیتھن براؤن اور مائیکل ڈان نے بھی خبردارکیاہے کہ اخوان کودہشتگرد قراردینے سے مقاصدتو کیاحاصل ہوں گے،الٹانقصان پہنچ سکتاہے۔اس کاسبب انہوں نے یہ بیان کیاہے کہ اخوان اوراس قبیل کی متعددتنظیمیں بہت حدتک پرامن رہتے ہوئے رفاہی کام بھی کررہی ہیں۔ اگرانہیں دہشتگرد قراردے دیاگیاتوکروڑوں مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوں گے۔انہیں یہ پیغام جائے گا کہ پرامن رہتے ہوئے بھلائی کے کام کرنے والےاداروں کوبھی امریکااوراس کے حلیف نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔ ایسے کسی بھی اعلان کو بہت حد تک مجموعی طور پر پورے عالم اسلام کے خلاف اعلانِ جنگ تصور کیا جائے گا۔

اگرڈونلڈ ٹرمپ نے اخوان کودہشتگرد تنظیم قراردینے سے متعلق کوئی اقدام کیا توایک بڑی قباحت کاسامناکرناہوگا،یہ کہ ایساکرناسراسرغیرقانونی ہوگا۔ معاملہ یہ ہے کہ اخوان کسی بھی اعتبارسے ایسی سرگرمیوں میں ملوث نہیں پائی جا رہی جن کی بنیاد پراسے غیرقانونی اوردہشتگردقراردیاجاسکے۔ ایسے میں اگرڈونلڈ ٹرمپ نے اسے غیرقانونی قراردینے کی طرف قدم بڑھایاتومعاملات مزیدخرابی کی طرف جائیں گے اورعالم اسلام میں مجموعی طورپرامریکا مخالف ماحول مزید پروان چڑھے گا۔ امریکی قوانین نے وزیر خارجہ کو اس بات کا اختیار دیا ہے کہ اگروہ محسوس کریں کہ کوئی بھی غیرامریکی تنظیم دہشتگردی میں ملوث ہو،امریکاکی قومی سلامتی کیلئے خطرہ بن سکتی ہو،امریکیوں کی زندگی خطرے میں ڈالنے کاباعث بن سکتی ہو،امریکی مفادات کو داؤپرلگاسکتی ہوتو اسے دہشتگرد قراردیاجائے۔ اس وقت اخوان ایسی کسی بھی سرگرمی میں ملوث دکھائی نہیں دے رہی جو متعلقہ معیارات پر پوری اترتی ہو۔ ایسے میں اخوان کو دہشتگرد قرار دینا انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ایسا کرنے سے امریکا کے انتہائی متنازع اقدامات میں اضافہ ہوجائے گا۔ وزیر خارجہ کیلئے لازم ہے کہ جس تنظیم کووہ دہشتگرد قراردیناچاہتے ہیں اس کے بارے میں تمام بنیادی اور حساس باتیں فیڈرل جرنل میں لکھیں۔ یہ باتیں خفیہ بھی رکھی جاسکتی ہیں۔ جس تنظیم کو دہشتگرد قرار دیا گیا ہو، وہ ڈی سی سرکٹ کورٹ آف اپیل میں نظر ثانی کی درخواست دے سکتی ہے اور اگر امریکی انتظامیہ نے اسے دہشتگرد قرار دینے سے متعلق تمام معاملات کا خیال نہیں رکھا، متعلقہ ریکارڈ ناکافی ہے تو عدالت کے لیے ذریعے دہشتگردی کا لیبل ہٹوایا بھی جاسکتا ہے۔ کورٹ آف اپیل میں ایک تنظیم کا کیس کئی سال تک چلتا رہا۔ یہ ماننے کی کوئی معقول وجہ نہیں کہ کورٹ آف اپیل ناکافی شواہد کی بنیاد پر کوئی فیصلہ سنادے گی۔

آئیے!اب اس سوال کاجائزہ لیں کہ کیا اخوان ایک ایسی غیر ملکی تنظیم ہے جو دہشتگردی میں ملوث ہے، یا ایسا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس سے امریکا یا اس کے شہریوں کو خطرات لاحق ہیں۔

اس حقیقت کو ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ اخوان ایک تنظیم کا نام نہیں۔ اس تنظیم کے کئی حصے یا پہلو ہیں۔ چند ایک حصے ایسے ہیں جن کے بارے میں دہشتگردی کا شبہ ہوسکتا ہے اور چند ایسے ہیں جن کے دہشتگرد ہونے کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ مجموعی طور پر یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ اخوان ایک ایسی تنظیم ہے جس سے امریکی سرزمین اور اس کے شہریوں کو بظاہر کوئی خطرہ لاحق نہیں۔

اِخوان المسلمون میں مصر میں قائم کی گئی تھی۔ اس کا صدر دفتر اب بھی مصر ہی میں ہے۔ کئی ممالک میں اخوان کی شاخیں ہیں اور یہ تمام شاخیں مل کر ہی کام کرتی ہیں۔ مصر میں سپریم گائیڈ ان کے لیے رہنما کردار ادا کرتی ہے۔ بہت سے ممالک میں اخوان کی شاخیں زیادہ کھل کرکام کرتی ہیں اوران کے معاملات میں شفافیت بھی دکھائی دیتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مصر میں اخوان بہت حد تک خفیہ رہ کرکام کرتی رہی ہے۔ اس کابنیادی سبب یہ ہے کہ مصرمیں قائم ہونے والی فوجیں حکومتیں اخوان کوکچلتی رہی ہیں اوران سے بچنے کیلئےخفیہ رہتے ہوئے کام کرناہی زیادہ مناسب تھا۔

دستیاب شواہد سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ اخوان کی بین الاقوامی تنظیم(التنظیم العالمی یا التنظیم الدولی)ماتحت گروپوں کوکسی بھی اعتبارسے اپنی بات ماننے پرمجبورنہیں کرسکتی۔ کسی بھی ملک میں کام کرنے والی اخوان کی شاخ اپنی حکومت سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ اسلامی شریعت نافذکی جائے مگر اس مقصد کے حصول کے طریقے مختلف ہیں۔ ہر ملک میں اخوان کی شاخ اپنے ڈھنگ سے کام کرتی ہے۔ اخوان کی شاخیں مرکزی ڈھانچے سے اختلاف کرتے ہوئے اس سے الگ بھی ہو سکتی ہیں۔ مثلا کویت میں اخوان کی شاخ نے صدام حسین کی طرف سے کویت پر قبضے کی حمایت کی تھی جس کے نتیجے میں مرکزی تنظیم سے اس کے اختلافات ہوئے اور وہ الگ بھی ہوگئی۔ اس وقت اخوان کی شاخیں ایک ڈھیلے ڈھالے نظام کے تحت آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ ہر شاخ اپنے طورپرکام کرتی ہے۔ کبھی کبھی اجلاس ہوتے ہیں، جن میں ایک دوسرے کے تجربات سنے جاتے ہیں اور بس۔ اخوان کی کسی بھی شاخ کو کسی ایجنڈے یا پروگرام پر عمل کے حوالے سے مجبور یا پابند نہیں کیا جاسکتا۔ اخوان کی تمام شاخیں ایک بین الاقوامی ایجنڈے پر متفق ضرور ہوتی ہیں مگر اسے غیر معمولی ترجیح نہیں دیتیں۔

حماس کی شاخیں اسرائیلی قتل وغارت کے جواب میں اپنے ردّعمل کااظہار ضرورکرتی ہیں جس کومغربی میڈیاسیاسی تشدد اوردہشتگردی کانام دیکرانہیں بدنام کرنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑتا،یہی سبب ہے کہ حماس کوامریکی محکمہ خارجہ نے دہشتگرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیاہے۔مصرمیں اِخوان المسلمون نے،۱۹۴۰ء ۱۹۵۰ءاور۱۹۶۰ء کی دہائی میں مصری حکومت کے شدیدترین ظلم وستم اورتعذیب کے خلاف تشدد کا طریقہ اختیار کیالیکن بعد میں اخوان کے دوسرے لیڈروں نے باقاعدہ اس پالیسی کوباضابطہ طور پر ترک کرنے کا اعلان کیا۔ ۲۰۱۳ء میں منتخب صدر محمد مرسی کی برطرفی اور گرفتاری پر بھی اخوان نے تشدد کا راستہ نہیں اپنایا۔ حد یہ ہے کہ رباع مسجد میں ایک ہزار سے زائد اخوان کارکنوں کی شہادت کے بعد بھی قائدین نے تشدد کی راہ پر گامزن ہونے کی ہدایت نہیں کی۔ مصر میں اخوان کے قائدین کی بنیادی ہدایت ہے کہ تشدد سے حتی الامکان گریز کیا جائے۔ اخوان کے بعض کارکنان حکومتی ہتھکنڈوں کے باعث مجبور ہوکر تشدد پر اتر آتے اور نجی و سرکاری املاک کو نقصان بھی پہنچاتے ہیں مگر مجموعی طور پر تنظیمی ڈھانچہ تشدد کو دوبارہ اپنانے کی بات نہیں کرتا۔ مصر میں اخوان کے بعض کارکنوں پرقبطی عیسائیوں کو بھی نشانہ بنانے کاالزام لگایاگیا مگر یہ پارٹی پالیسی نہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا یہ خیال ہے کہ مصر میں اخوان کے خلاف جو کریک ڈاؤن کیا گیا اور جتنے بڑے پیمانے پر گرفتار کرکے ریاستی بہیمانہ تشددکرکے کارکنوں کو سزائیں سنائی گئیں ،اس کے نتیجے میں بہت سے کارکن اب قائدین کی ہدایات کی بھی پروا نہیں کرتے اور کریک ڈاؤن کے جواب میں تشدد پر اتر آتے ہیں۔ پارٹی کے بیشتر بڑے عہدیداروں کی گرفتاری نے تنظیم میں اندرونی سطح پر انتشار پیدا کیا ہے اور کریک ڈاون کے جواب میں پرامن احتجاج تمام کارکنوں کے لیے ممکن نہیں رہا۔ اخوان کے بہت سے کارکن تشدد یا دہشتگردی پر قطعاً مائل نظرنہیں آتے اورنہ ہی ان کے کسی عمل سے یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ تنظیم دہشتگردی کی راہ پر گامزن ہے یا ایسا کرنے کا بھرپور ارادہ رکھتی ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز نے امریکی محکمہ خارجہ کے ایک افسر کے حوالے سے بتایاگیا ہے کہ امریکی خفیہ ادارے اخوان کے بارے میں جو معلومات فراہم کرسکے ہیں اس کاجائزہ لینے اوربھرپوربحث وتمحیص کے بعداس نتیجے پرپہنچاجاسکاہے کہ اس وقت اخوان کودہشتگردتنظیم قراردینے کاکوئی جوازنہیں باوجودیکہ موجودہ حکومت کے بے تحاشہ تشدد کے وہ کسی بھی سطح پر دہشتگرد دکھائی دے رہی ہے نہ ایسا کرنے کا ارادہ دکھائی دے رہا ہے۔

بہت سے ممالک میں اخوان کی شاخیں انتہائی پرامن طریقے سے کام کر رہی ہیں۔ حکومتوں نے اِخوان المسلمون کو سیاسی سرگرمیوں اور انتخابات میں حصہ لینے کی آزادی دی ہے۔ کویت، اردن، بحرین، یمن اور اسرائیل میں اخوان سیاست میں حصہ بھی لیتی ہے اور پارلیمنٹ میں اس کی نمائندگی بھی ہے۔ امریکی تسلط کے دوران عراق کے نائب صدر اخوان کے رکن تھے۔ مراکش میں اِخوان المسلمون سے نظریاتی ہم آہنگی رکھنے والی جماعت نے گزشتہ حکومت کی سربراہی کی تھی اور ممکنہ طور پر آئندہ حکومت بھی اِسی پارٹی کی ہوگی۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مراکش بھی امریکی شراکت داری ہے۔اگرامریکا نے اخوان المسلمون پر پابندی عائد کی توہوسکتا ہے کہ مراکش کی قیادت سے بھی اس کے تعلقات کشیدہ ہو جائیں ۔
اسرائیل میں اخوان المسلمون کے سربراہ شیخ درویش سے ملاقات کرنے والے ایک مصنف نے بتایا کہ اخوان کا ڈھانچا سیاسی ہے اور جمہوریت کا حامی بھی۔ اخوان چاہتی ہے کہ سیاسی عمل میں حصہ لے کر منتخب اداروں میں نمائندگی بڑھائی جائے تاکہ سسٹم کے ساتھ رہتے ہوئے کام کرنا ممکن ہو۔ اخوان نے اسرائیل میں میونسپل اور قومی اداروں تک رسائی چاہی ہے۔ انقلابی نظریات رکھنے والوں نے شیخ درویش سے دوری اختیار کی ہے کیونکہ ان کے خیال میں اسرائیلی پارلیمنٹ کنیسیٹ کے انتخاب میں حصہ لینا اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ حقیقت بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ شیخ درویش نے حماس کا غیر ضروری طور پر دفاع کرنے سے گریز کیا ہے۔ شیخ درویش کی سوچ منفرد ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں ایک انسان ہوں، مسلم ہوں اور عرب بھی ہوں۔ میں اپنی سرزمین پر رہتا ہوں جو اب اسرائیل کا حصہ ہے۔ میں چونکہ اس سرزمین کا حصہ ہوں اس لیے اس کے شہریوں سے کسی بھی سطح پر نفرت کرتا ہوں نہ کوئی بدگمانی پالتا ہوں ۔ انہوں نے کوشش کی ہے کہ فلسطینیوں، اسرائیل میں آباد مسلمانوں اور اسرائیل کے غیر مسلم شہریوں کے درمیان ہم آہنگی کوزیادہ سے زیادہ فروغ دیاجائے تاکہ قتل وغارت کاخاتمہ ہو اور ایک دوسرے کوقبول کرنے کی فضا مزید پروان چڑھے۔ آج چند ایک ممالک ہی نے اپنی ٹاؤٹ کورٹس کے ذریعے اخوان کو دہشتگرد قرار دے رکھا ہے، جن میں مصر،سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، روس اور شام شامل ہیں۔ چند ایک ممالک نے مقامی شاخوں کو دہشتگردتوقرار دیا ہے لیکن ایسا کرنے کیلئے ان کے پاس ایسے کوئی مضبوط اورٹھوس شواہدقطعاً نہیں۔اخوان یاکسی بھی اور تنظیم کودہشتگردقراردیاجاسکتاہے مگرشرط یہ ہے کہ اس کے خلاف شواہد ہوں اوریہ ثابت کیاجاسکتا ہو کہ وہ دہشتگردی میں ملوث ہے۔ اگر اخوان کی کوئی شاخ سیاسی تشدد یا دہشتگردی کی طرف مائل ہوتواس کایہ مطلب ہرگزنہیں کہ اخوان کومجموعی طورپردہشتگردقراردے دیاجائے۔ اِخوان المسلمون کی مجموعی پالیسی تشدد اوردہشتگردی سے گریز کی ہے۔ اس حقیقت کو ذہن نشین رکھنا لازم ہے۔

امریکا میں انتہائی دائیں بازو کے عناصر چاہتے ہیں کہ اخوان کو دہشتگرد قرار دیا جائے مگر محض دباؤیا جذبات کے تحت ایسا کرنا انتہائی احمقانہ عمل ہوگا۔ امریکی محکمہ خارجہ کے پاس اخوان کے خلاف شواہد انتہائی ناکافی ہیں۔ اگر وہ تمام معیارات کاخیال رکھے بغیراخوان کودہشتگردقراردے گاتویہ عمل سراسر غیرقانونی کہلائے گااوراس کے نتیجے میں ٹرمپ انتظامیہ مزید متنازع ہو جائے گی۔ مصر میں اخوان خالص جمہوری ڈھانچے میں رہتے ہوئے غیر لبرل ایجنڈے کے لیے فعال ہےمگر اِسے کسی بھی اعتبار سے غیرقانونی عمل قرارنہیں دیا جا سکتا۔ محض نظریاتی بنیادپرکسی بھی تنظیم کو دہشتگردقراردے کراس پر پابندی عائد کرنا کسی بھی اعتبار سے قانونی عمل نہیں۔

امریکی سپریم کورٹ نے۲۰۱۰ء میں اپنی ایک رولنگ میں کہا تھا کہ کسی بھی دہشتگردتنظیم کومالی مدد فراہم کرنابھی دہشتگردی میں تعاون کرنے کے مترادف ہے۔ یہ بالکل درست بات ہے مگر اس کااطلاق اخوان پرنہیں ہوتاکیونکہ یہ تنظیم مجموعی طورپرسیاست اورامن کی بات کررہی ہے۔ مثلاً اسرائیل میں شیخ درویش کے گروپ کو مالی امداد فراہم کرنا کسی بھی اعتبار سے دہشتگردی کی حمایت نہیں کیونکہ یہ گروپ کسی بھی سطح پر دہشتگردی میں ملوث ہے نہ اس کی حمایت کرتا ہے۔امریکی سپریم کورٹ نے مالی تعاون سے متعلق جو رولنگ دی ہے،اس کااطلاق ہرمعاملے پرنہیں کیاجاسکتا۔

امریکاکئی سال سے مختلف گروپوں کودہشتگردقراردینے میں ناکام رہا ہے یاشاید ایسا کرنے سے گریزکیاجاتارہاہے۔ بات یہ نہیں کہ سابق یاان سے پہلے امریکی صدورکواخوان کے حامیوں نے گھیررکھاتھا۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی قیادت کے پاس اخوان اوردوسرے بہت سے گروپوں کے پاس ایسے شواہد ہیں ہی نہیں جن کی بنیاد پرانہیں دہشتگرد قراردے کران کی تمام سرگرمیوں پرپابندی عائد کی جا سکے۔

 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 351914 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.