یہ انعام گھر --یہ قرعہ اندازیاں ( قسط 2 )

میں نے اپنے ایک کالم " یہ انعام گھر --یہ قرعہ اندازیاں " میں محترمہ رئیس فاطمہ کی ایک تحریر کا حوالہ دیا تھا جس میں وہ کہتی ہیں کہ مختلف ٹی وی چینلز پر جو آجکل نام نہاد نیلام گھر -انعام گھر وغیرہ ہوتے ہیں ان میں میزبان کے کان میں لگا مائیک میزبان کو مسلسل ہدایات دیتا رہتا ہے کہ کس کو انعام دینا ہے اور کس سے سوال پوچھنا ہے - اس لئے بعض اوقات اشارے بھی دئے جاتے ہیں کہ وہ صحیح جواب دے -

میں نے اپنے ایک کزن کے بیٹے کا قصہ بھی بیان کیا تھا کہ ایک لکی ڈرا میں کسی اہم ادارے کے افسر نے حصہ لیا ہی نہیں تھا لیکن دھوم دھڑکے اور زور و شور کے ساتھ اسے انعام سے نوازا گیا -

اس دوران میں ایسے افراد سے بھی آگاہی ہوئی جو ان نا مساعد حالات کے سامنے پامردی اور استقلال سے سینہ سپر رہے اور مقابلہ کرتے رہے - عقیل عباس جعفری ان میں سے ایک ہیں - عقیل عباس جعفری کو کون نہیں جانتا - ایک زمانہ تھا کہ ٹی وی کےکوئیز پروگراموں میں ان کی دھوم مچی ہوئی تھی - انعامات جیتنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا - ایسا محسوس ہوتا تھا کہ معلومات کا سمندر ان کے سامنے ہے اور جب چاہے مطلوبہ سوال کا جواب اس سمندر میں ہاتھ ڈال کر نکال لیں گے - ان کی کتابیں پاکستان کرونیکل ' پاکستان کے سیاسی وڈیرے ' پاکستان کا قومی ترانہ -کیا ہے حقیقت کیا افسانہ ' وغیرہ ایسی کتب ہیں جنہیں پڑھے بغیر پاکستان کی صحیح تاریخ کا ادراک ہو ہی نہیں سکتا - وہ آج کل اردو ڈکشنری بورڈ کے سر براہ کی حیثیت سے اپنے فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں -

حال ہی میں میری نظر سے عقیل عباس جعفری کا ایک مضمون " کوئیز کہانی "جو الجامعہ میں چھپا تھا گزرا - اس میں انہوں نے کوئز پروگراموں کے بارے میں اپنی یاد داشتیں قلم بند کی ہیں - وہ اپنے اس دور کے کوئیز پروگراموں میں شرکت کرنے والے ساتھیوں کو دھیان میں لاتے ہوئےلکھتے ہیں 'مجھے وہ دن بھی یاد آرہا ہے جب مجھے 'ساجد مرزا غزنوی اور نجیب اللہ کو نیلام گھر کے ہال سے باوجود کارڈ ہو نے کے داخل ہو نے سے روک دیا گیا تھا- اور بعد میں ہم تینوں نے اسی نیلام گھر سے مختلف پروگراموں میں موٹر سائیکلیں انعام نیں جیتیں - مجھے وہ دن بھی یاد آرہا ہے جب ایک سی ایس پی افسر اور ایک سابق ڈپٹی کمشنر کو اس کی پبلک ریلیشننگ کے باعث کار سے نوازا گیا اور اسی پروگرام میں موجود باقی ذہین چہرے گھروں کو ناکام لو ٹے تھے " - وہ آگے رقم طراز ہیں کہ مجھے وہ دن بھی یاد آرہا ہے کہ چند طلباء پر ٹیلی ویژن کے دروازے محض اس لئے بند کر دئے گئے تھے کہ وہ تمام انعامات جیت لیا کرتے تھے

ایسے واقعات کے بارے میں پڑھ کر دل میں ایک افسردگی کی لہر سی اٹھتی ہے - ایسے ہی ایک لکی ڈرا کا واقعہ میں بھی دیکھ چکا ہوں - لکی ڈرا کا واقعہ نہ جانے کیوں کبھی میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ لے آتا ہے اور کبھی اس مسکراہٹ میں افسوس کی آمیزش ہو جاتی ہے -

کراچی میں ایک زمانہ تھا کہ سب لوگ شاپنگ کے لئے صدر ہی جایا کرتے تھے - اب کراچی کا دوسرا دور آگیا ہے وقت کے ساتھ ساتھ دوسرے علاقوں میں بھی مارکیٹیں کھل گئی ہیں اب صدر کم ہی لوگ جاتے ہیں -
خیر میں اس کے دوسرے دور کی بات کر رہا ہوں - اس دوسرے دور میں ‘ میں ایک مرتبہ ایک مرتبہ صدر چلا گیا - کوئی خاص کام نہیں تھا - دیکھا ایک جگہ کسی نام نہاد ویلفئر ادارے کا اسٹال لگا ہوا تھا -یہ وڈیو کی سب سے بڑی مارکیٹ -بمبینو سینٹر کے قریب کا علاقہ تھا - بار بار اعلان کیا جا رہا تھا کہ مستحق افراد کی مدد کریں - ہماری قرعہ اندازی میں حصہ لیں - انعام کے حقدار بن جائیں - انعام کے لئے انتظار کی ضرورت نہیں ہمارے انعامی ٹکٹ کو ابھی کھرچیں یعنی اسکریچ کریں انعام کا پتہ چل جائے گا - ایک باراپنی قسمت آزمائیں - انعام نہ بھی نکلا تو غریبوں کی مدد ہو جائے گی - آئیں اپنی قسمت کو آزمائیں - نیت نیک ہو تو انعام ضرور نکلے گا - آپ پر قسمت کی دیوی مہربان ہوگی - نقصان نہیں - آئیں آپ کا انعام آپ کا انتظار کر رہا ہے - وغیرہ وغیرہ

اچانک ایک دم مائیک پر شور مچا ----یہ دیکھیں - حضرات یہ دیکھیں - ان صاحب کا انعام نکل آیا ہے - ایک ہزار روپے کا انعام - پورے ایک ہزارروپے کا - انہوں نے اسکریچ کیا -ایک ہزار روپے ان کے مقدر میں تھے - مقدر کا سکندر - آپ بھی ہو سکتے ہیں مقدر کا سکندر - آئیں دیکھیں ان خوش نصیب کو ایک ہزار مل رہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ان صاحب کو ایک ہزار کا نوٹ ہوا میں لہرا لہرا کر گھما گھما کر سب کو دکھا کر دیا گیا -
میں نے ان خوش نصیب کا دیدار کیا - ان کے چہرے پر کوئی مسرت کے آثار نہیں تھے - بالکل سپاٹ چہرہ - جذبات سے عاری - کوئی خوشی کی علامت نہیں بلکہ ایک عجیب سی سیاہی آشکارہ تھی -

ایک ہزار کے نوٹ کا اجرا ہوئے کچھ ہی دن ہوئے تھے - یہ بہت بڑی رقم تھی - جیسے آجکل کے دس ہزار - اور اگر مجھے نکلتے تو سب کچھ چھوڑ کر گھر بھاگتا اور گھر والوں کو خوشخبری دیتا - لیکن ان صاحب کے کوئی ایسے جذبات نہیں تھے
وہ صاحب ایک ہزار روپے لیکر چل پڑے -

میرے پاس کوئی کام نہیں تھا - میں اپنے کام سے جلدی فارغ ہو گیا تھا - جن صاحب نے مجھے اپنی گاڑی میں پک کر نا تھا انہیں آنے میں ابھی بیس منٹ کے قریب باقی تھے - میں نے سوچا چلو دیکھتے ہیں یہ صاحب جنہیں ایک ہزار روپے ملے ہیں کیا کرتے ہیں - خاموشی سے ان کے پیچھے چل پڑا - ریگل چوک کے قریب اسی ویلفئر کے ادارے کا دوسرا کیمپ لگا ہوا تھا - وہ صاحب وہاں پہنچ گئے - اندر بیٹھے ہوئے افراد نے ان کا استقبال کیا اور ان کے لئے ایک کرسی لے آئے

اندازہ ہوا وہ خوش نصیب فرد اسی نام نہاد ادارے کا ایک ملازم تھا اور لوگوں کے سامنے انعام نکلنے کا جعلی ڈرامہ رچا کر یہاں آگیا تھا - اب یہ بھی سمجھ آیا کہ اس کے چہرے پر مسرت کیوں نہیں عیاں تھی -

Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 333553 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More