جمہوریت عوام اور حکمران

انگلستان کا بادشاہ ایڈورڈ عوام کی بھلائی کے کاموں میں بہت دلچسپی لیتاتھا۔ یوں تو اُس کی اُن کے ہر شعبۂ حیات پر نظر رہتی تھی لیکن تعلیم کے معاملے میں وہ بہت آگے تھا۔ تعلیمی اداروں کی عمارتیں، طلباء کے کھیلوں کے میدان، سائنس کی لیبارٹریاں، نصب، طلباء کی صحت، اساتذہ کی مراعات مساوی سطح پر اُس کی عنایات سے بہرہ مند ہوتے رہے۔

ایک بار وہ سکولوں کے دورے پر تھا۔ وہ جس سکول میں جاتا اساتذہ و طلباء نہایت خلوص دل سے اُس کی تعظیم بجا لاتے۔ انہیں اور اُن سے متعلقہ افسران تعلیم کو بادشاہ کی اُن پر مہربانیوں کا پورا پورااعتراف تھا۔ ایک سکول میں جب وہ گیا تو تمام اساتذہ اور طلباء اُس کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو گئے۔ کہتے ہیں کہ دنیا میں انسان کو قابل ترین ہستی استاد بناتا ہے اور استاد ہی سب سے زیادہ تعظیم اور عزت کا مستحق ہوتا ہے۔ مگر قوم کا لیڈر محب وطن اور عوام کے لیے درد رکھتا ہو تو اس کی تعظیم میں استاد بھی کھڑاہو جاتا ہے جیسے انگلستان کے بادشاہ کی تعظیم میں اسکول کے استاد اُٹھ جایاکرتے تھے۔ یہ تعظیم بادشاہ ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے تھی کہ اس نے عوام کا ہر لحاظ سے خیال رکھتا تھا۔ ان کی پریشانیاں اور خوشیاں بادشاہ کی اپنی ہوتی تھیں۔

یہی وجہ ہے کہ عوام ان کو سر آنکھوں پر بٹھاتی تھی۔ کیو نکہ وہ اپنے مقاصد کے لیے اقتدار میں نہ آتے تھے۔ بلکہ قوم و ملت کی خدمت ان کا شعار ہوتی تھی۔ ہم ہر معاملے میں ان کی تقلید ضرور کرتے ہیں۔ مگر ان کے شعار اپنانے سے گریز کرتے ہیں۔ ملک میں نظام جمہوریت ہونا چاہیے ہر سیاسی لیڈر یہ نعرہ لگاتا ہے مگر جمہوریت کی جو روح ہے اس کے مطابق کوئی بھی چلنا گوارہ نہیں کرتا۔ ہماری اور ان کی جمہوریت میں زمین آسمان کا فرق ہے اور اتنا ہی فرق ہمارے اور ان کے لیڈروں کی سوچ میں ہے۔ ان کے لیڈر عوامی خدمت کانعرہ لگاتے ہیں اور خدمت کرتے بھی ہیں۔ ہمارے لیڈر عوامی خدمت کا نعرہ ضرور لگاتے ہیں مگر خدمت اپنی تجوری اور بنک بیلنس کی کرتے ہیں۔ جمہوریت کو جتنا بلند انہوں نے کیا اتنا ہی گندا ہمارے سیاست دانوں نے کیا۔ جمہوری حکومت میں راج تو عوام کاہونا چاہیے مگر راج کیا یہاں تو قرضوں کے بوجھ تلے دبا کر ان پر اس قدر مہنگائی مسلط کر دی گئی کہ بے چارے زندہ رہنے کے لیے دو وقت کی روٹی پوری کرنے میں اس قدر مصروف ہیں اور کوئی فکر لاحق ہی نہیں ہوتی اور قائدین سیاست مال و دولت بنانے اور بچانے میں اس قدر معروف ہیں۔ انہیں عوام کی مشکلات کی فکر ہی نہیں۔ موجودہ حکومت کے وزیراعظم قائداعظم ثانی نے جھوٹے سچے سروے کر واکے اور اسٹاک ایکسچینج میں کاروبار کی بلند ترین سطح کی روز خبریں چھپوا کر بہتری ثابت کی اور ہر وزیر کو کہا کہ تمہارمنہ سے ہردوسری بات یہی نکلے کہ معیشت زبردست ترقی کر رہی ہے۔ چنانچہ جی حضوری میں وزرا کی ٹیم یہی بیاں داغتی ہے مگر سٹیٹ بنک کی طرف سے وزیر موصوف کے بیان کے ساتھ ہی یہ خبر بھی اخبار میں چھپی ہوتی ہے کہ ملکی خسارہ بڑھ رہا ہے اور مہنگائی کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔قائداعظم ثانی کہتے ہیں کہ مہنگائی کا جن بوتل میں بند کر دیں گے۔ مگر عوام کے لیے منڈی میں ٹماٹر 50 روپے کلو سے 150 روپے ہو جاتا ہے۔ خادم اعلیٰ فرماتے ہیں کہ عوام خدمت میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑیں گے۔ وہ کسر سبزیوں کے ریٹ پر بھی نکلتی ہے اور گوشت پر بھی سبزیاں دو دن میں دس فیصد مہنگی ہو جاتی ہیں اور گوشت چالیس فیصد تک۔ عوام کی غربت میں کمی نہیں آتی مگر مہنگائی ضرور بڑھ گئی ہے۔ مگر بیانات وہی ہیں جو روز اسی طرح اخبار میں شائع ہو رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اخبار معاشرے کی مجموعی صورت حال کا آئینہ ہوتا ہے۔ آج 27 کے مارچ روزناموں پر نگاہ ڈالیں تو عوام کی خوشی کی کوئی خبر نہیں۔ ہاں رنج و الم سے بھرپور خبریں بہت ہیں۔ سب سے بڑی خبر ہی یہ ہے کہ چکن سبزیوں کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ۔ جہاں اس قدر مہنگائی ہو کر اخبارات کو مین لیڈ تک اس کی بنانی پڑے وہاں حکمران کس منہ سے معیشت کی بہتری کا دعوی کرتے ہیں۔ خادم اعلیٰ کہتے ہیں عوامی خدمت میں دن رات ایک کر دیے جب کہ آج کا اخبار کہتا ہے کہ تجارتی پالیسی محض نمائش ہے برآمدات کم ہیں۔ جبکہ درآمدات بڑھ گئی ہیں اور تجارتی خسارہ 20 ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو سچائی کا وہ آئینہ ہیں جس میں دیکھا جانے والا چہرہ جھٹلایانہیں جا سکتا ہے۔ غربت کی چکی میں پس جانے والے ان غریب عوام کو محض جھوٹے حکمران اور ان کی جھوٹی طفل تسلیاں ملی۔ جمہوریت شاید اس کا نام ہے کہ عوام سے ووٹ ضرور لو ان کو خوش کرنے کے صرف نعرے لگاؤ۔ ووٹ لو مگر بعد میں ان کا خیال نہیں بلکہ اپنی فلاح و بہبود کا سوچو اس جمہوریت کے تحت قائداعظم ثانی 30 سال تک پنجاب پر حکمران رہ چکے۔ کوئی قائداعظم ثانی بن گیا اور کوئی خادم اعلیٰ۔ مگر انہوں نے ان 30 سالوں میں نہ کھانے کے لیے سستی روٹی تک دی اور نہ پڑھنے کے لیے سستی تعلیم۔ ہاں غربت کے خاتمے اور جہالت کے خاتمے کے بیان ضرور دیے۔ وقفے وقفے سے ہر ماہ اور ہر سال شاید یہی انگلستان اور پاکستان کے لیڈروں میں فرق ہے اور یہی مغربی اور پاکستانی جمہوریت ہے۔اقبال نے جانے یہی سوچ کر کہا تھا
ابلیس کے فرزندہیں ارباب سیاست
اب باقی نہیں میری ضرورت تہہ افلاک

Abdul Waris Sajid
About the Author: Abdul Waris Sajid Read More Articles by Abdul Waris Sajid: 53 Articles with 51918 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.