الیکشن میں گنگا جمنی تہذیب مخالف پارٹی ’’بی جے پی‘‘ کو کیوں اور کیسے شکست دی جائے؟

 فروری اور مارچ ۲۰۱۷ میں ہندوستان کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی الیکشن کے لئے متعدد پارٹیوں کے ہزاروں نمائندے جیت کا تاج پہننے کے لئے پانچ سال بعد پھر اِن دِنوں گلی کوچوں میں نظر آرہے ہیں۔ ویسے تو پنجاب، اتراکھنڈ، منی پور اور گوا کے الیکشن بھی خاص توجہ کا مرکز ہیں، مگر صوبۂ بہار میں منعقد ہوئے سابق اسمبلی الیکشن کی طرح، بلکہ بیس کروڑ آبادی والے ہندوستان کے اہم صوبہ ’’اترپردیش‘‘ کے الیکشن کو کہیں زیادہ اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ الیکشن ہندوستان کے مستقبل کو طے کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔ اس لئے جہاں مرکز میں حکمراں بی جے پی پارٹی نے رام مندر جیسے سلگتے مدّعے کو اٹھاکر اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے، وہیں اترپردیش کی سابق حکمراں جماعت، بہوجن سماج پارٹی کو اس الیکشن میں شکست سے دوچار ہونے پر پارٹی کا ووٹ بینک ہاتھ سے نکل جانے کا اندیشہ ہے۔ دوسری طرف ۲۰۱۲ کے الیکشن میں اکثریت حاصل کرکے پانچ سال حکومت کرنے والی سماج وادی پارٹی اندرونی اختلافات کا شکار ہے، مگر آخری وقت میں کانگریس کے ساتھ اتحاد کی وجہ سے کسی حد تک بہتر پوزیشن میں ہے، حالانکہ عموماً عوام کا رجحان حکمراں پارٹی کے خلاف ہوتا ہے۔

تقریباً ۲۸ سال سے اترپردیش حکومت سے دور رہنے والی کانگریس پارٹی کو بخوبی معلوم ہے کہ کسی پارٹی کے اتحاد کے بغیر ۲۰۱۲ کے اسمبلی الیکشن میں جیتی ہوئی ۲۸ سیٹوں کو بھی بچانا مشکل ہے۔ ۲۰۱۹ کے پارلیمانی الیکشن کو سامنے رکھ کر کانگریس نے راہل اور اکھلیش کی سرپرستی میں یہ اتحاد کیا ہے۔ پرینکا اور ڈمپل یادو کی جوڑی اس اتحاد میں جان ڈال سکتی ہے۔ ۱۹۸۶میں راجیو گاندھی نے بابری مسجد کا دروازہ کھلواکر ایسی بھیانک غلطی کی کہ اترپردیش کا مسلمان آج تک کانگریس سے نہیں جڑسکا۔ اترپردیش میں بی جے پی حکومت کے دور میں ۶ دسمبر ۱۹۹۲ کو بابری مسجد کی مسماری کے بعد ہندوستان کے ۹ویں وزیر اعظم نرسمہا راؤ کے کردار نے مسلمانوں اور کانگریس کے تعلقات میں ایسی دراڑ پیدا کردی کہ وہ آہستہ آہستہ گہری کھائی میں تبدیل ہوگئی۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ کانگریس اور سماج وادی پارٹی کے اتحاد سے کانگریس کی ڈوبتی ہوئی ساکھ کسی حد تک سنبھل سکتی ہے۔

نریندر مودی اور امت شاہ کی سرپرستی میں ۲۰۱۴کے پارلیمانی الیکشن میں اکثریت حاصل کرکے بی جے پی متعدد وعدوں کو پورا نہ کرنے، لوگوں کو بے وقوف بنانے اور پارٹی میں سب کچھ ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے مضبوط پوزیشن میں نہیں ہے۔ خاص کر نوٹ بندی سے ہر شخص ناراض ہے خواہ اس کا عملی مظاہرہ نہ کیا جارہا ہو۔ صرف ایک شخص کی خودسری اور انا پرستی نے نہ صرف کروڑوں لوگوں کو متأثر کیا بلکہ اس کی وجہ سے ملک کی اقتصادیات پر بھی برا اثر پڑا اور نتیجہ میں پریشانیوں وتکلیفوں کے سوا ابھی تک کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ خود مرکزی حکومت نے بھی حالیہ بجٹ پیش کرتے ہوئے دبے لفظوں میں اس کا اعتراف کیا ۔ پارٹی کی اندرونی خلفشاری کی وجہ سے وزیر اعلیٰ کے لئے ابھی تک کسی امیدوار کے نام کا اعلان نہیں کیا جاسکا۔ مگر ’’مرتا کیا نہیں کرتا‘‘کے تحت اس الیکشن میں بھی ہر طرح کے ہتھ کنڈے استعمال کیے جارہے ہیں تاکہ نہ صرف ۱۵ سال بعد اترپردیش میں بی جے پی حکومت قائم کی جاسکے، بلکہ راجیہ سبھا میں بھی اکثریت حاصل کرنے کا خواب پورا کیا جاسکے جو موجودہ الیکشن میں جیت حاصل کئے بغیر ممکن نہیں ہے۔ حالانکہ دوسری طرف شیوسینا اور بی جے پی کے پرانے تعلقات ختم ہونے کے قریب ہیں، جس سے پارٹی کو بڑا دھچکا لگا ہے۔

۲۲ کروڑ آبادی والے صوبۂ اترپردیش میں مسلمان ۲۲ فیصد سے زیادہ تقریباً پانچ کروڑ ہیں، جو الیکشن کے نتیجہ میں کافی اثر انداز ثابت ہوسکتے ہیں، جیساکہ ۲۰۱۲ کے اسمبلی الیکشن میں مسلمانوں کی بڑی اکثریت نے سماج وادی پارٹی کو ووٹ دے کر اکھلیش یادو کی قیادت میں سماج وادی پارٹی کی حکومت بنوانے میں اہم رول ادا کیا تھا۔ بی جے پی اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ اُن کی اقلیت مخالف پالیسیوں کی وجہ سے مسلم ووٹ ان کو نہیں مل سکتا، اسی لئے ۴۰۳ ممبران اسمبلی کے لئے پانچ کروڑ مسلمانوں میں سے ایک مسلمان کو بھی اس لائق نہیں سمجھا کہ اس کو ٹکٹ دیا جاسکے۔ بی جے پی کی صرف یہی کوشش رہتی ہے کہ مسلم ووٹ کیسے تقسیم ہوجائے، چنانچہ سیکولر ووٹ کی تقسیم کا فائدہ اٹھاکر ۲۰۱۴ کے پارلیمانی الیکشن میں اترپردیش کی ۸۰ سیٹوں میں سے ۷۱ سیٹوں پر بی جے پی نے قبضہ کیا تھا۔

اس الیکشن میں اترپردیش کے مسلمانوں کو انتہائی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرنا چاہئے تاکہ ان کے ووٹ تقسیم نہ ہوسکیں۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہندوستان میں مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ رہتے ہیں اور مسلمانوں کی تعداد ۲۰ فیصد سے زیادہ نہیں ہے، جبکہ ہندو مذہب کے متبعین سب سے زیادہ ہیں۔ اگر ہم صرف مسلمانوں پر مشتمل پارٹی بناکر میدان میں اتریں گے تو مسلم لیگ کی طرح ہمارا حشر ہوگا۔ نیز اس طرح ہم اپنے عمل سے دوسروں کو دعوت دیں گے کہ وہ بھی اپنے مذہب کو بنیاد بناکر ووٹ مانگیں، جس سے مسائل کے حل کے بجائے پیچیدگیوں میں اضافہ ہی ہوگا۔ اسعد الدین اویسی کی مجلس اتحاد المسلمین کا اترپردیش کے الیکشن میں اترنے کا انجام بظاہر وہی نظر آرہا ہے جو ۲۰۱۵ میں بہار کے الیکشن میں سامنے آیاجہاں اُن کی پارٹی سے الیکشن لڑنے والے بعض پرانے مسلم مضبوط امید واروں کو بھی مسلم اکثریت والے علاقوں میں شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا، جبکہ نتیش کمار اور لالو یادو کے مسلم امیدواروں کو انہیں علاقوں سے جیت حاصل ہوئی تھی۔

لہٰذا ہمیں ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں دیگر سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مل ہی سیاسی اکھاڑے میں اترنا چاہئے۔ ہندوستان میں دلت اور مسلم کو ایک ساتھ ملاکر سیاست کرنا بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے مگر اس طرف ابھی تک کوئی خاص پیش قدمی نہیں ہوسکی۔ بہوجن سماج پارٹی اس رول کو ادا کرسکتی ہے مگر مایاوتی کی ضرورت سے زیادہ دلت پروری اس کے نفاذ سے مانع بنتی ہے۔ بی جے پی سے ہمارا اصولی جھگڑا ہے کیونکہ وہ ہندومسلم میں نفرت وعداوت پیدا کرکے ملک کی امن وسلامتی کو خطرہ میں ڈال کر گنگا جمنی تہذیب کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ وہ دولت کو چند سرمایہ کاروں تک محدود رکھ کر عام لوگوں کی زندگی کو دوبھر بنانا چاہتی ہے۔ ہندوستانی قوانین کے مطابق ہر شخص کو اپنے مذہب کی تعلیمات پر عمل کرنے کا حق حاصل ہے، مگر بی جے پی مسلمانوں کے دینی وعصری مراکز ومساجد کو نشانہ بناکران کے ساتھ امتیازی برتاؤ کرتی ہے جس کی بے شمار مثالیں ہیں۔ بی جے پی ہندوستانی قوانین میں ایسی تبدیلی چاہتی ہے جن کے ذریعہ اقلیتوں کی اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی پر روک لگائی جاسکے۔ نیز ہندوستان میں جہاں جہاں بھی اور جب جب بھی بی جے پی حکومت قائم ہوئی ہے، دیش ورودھی عناصر کی سرکشیاں بڑھی ہیں اور اقلیتوں پر خوف وہراس طاری ہوا ہے۔ مسلمان کبھی بھی ہندؤوں سے یہ جھگڑا نہیں کرتا کہ تم اپنے مذہب پر کیوں عمل پیرا ہو؟ اور نہ ہی شرعاً کوئی مسلمان کسی شخص کو کلمہ گو بننے پر مجبور کرسکتا ہے۔ ہزاروں سال مسلم حکمرانوں نے ہندوستان پر حکومت کی مگر ایک دہشت گردی کا واقعہ تاریخ میں نہیں ملتا۔ اسلام تو امن وسلامتی والا مذہب ہے۔ اسی لئے مسلمان یادو کو ووٹ دینے میں اپنی جیت سمجھتا ہے لیکن اس کے برعکس صرف اپنی مجبوری سمجھی جاتی ہے۔

کانگریس، سماج وادی، بہوجن سماج اور دیگر پارٹیوں نے بھی مسلمانوں کو بہت کچھ نہیں دیا، خاص کر کانگریس کے دور میں مسلمانوں پر مظالم کم نہیں ہوئے، مگر پھر بھی ان کے اقتدار میں مسلمانوں کی بات سنی جاتی ہے اور مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ کام بھی انہیں کرنے پڑتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اقلیتوں خاص کر مسلمانوں پر خوف وہراس کے بادل کسی حد تک چھٹ جاتے ہیں۔ لیکن بی جے پی مسلمانوں کا ووٹ حاصل ہی نہیں کرنا چاہتی ہے کیونکہ وہ وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل جیسی ہندو تنظیموں کے زیر سایہ کام کرتی ہے جن کی دیرینہ خواہش ہندوستان کو سیکولر ملک کی جگہ ہندو راشٹر بنانا ہے، جس کے لئے وہ سیکولر طاقتوں کو آپس میں لڑواکر سیکولر خاص کر مسلمانوں کے ووٹ کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔

ہندوستان کی ترقی اسی میں مضمر ہے کہ بی جے پی کو اترپردیش میں شکست ہو۔ اترپردیشن کے موجودہ الیکشن کے متعلق چند معروضات پیش ہیں:۱) فسطائی طاقتوں کی جیت اس میں ہے کہ مسلم ہندو بھائی چارہ کو ختم کرکے زہر افشانی کی جائے، ان کے درمیان نفرت وعداوت پیداکی جائے اور فسادات کرائے جائیں، جس کے لئے وہ طرح طرح کے مسائل اٹھا رہے ہیں اور اس سے زیادہ شدت کے ساتھ اٹھائیں گے۔ ہمیں فرقہ پرست طاقتوں کو شکست دینے کے لئے اپنے جذبات پر قابو پانا ہوگا۔ ۲) ووٹنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جائے تاکہ اُن سیٹوں پر بی جے پی کے امیدواروں کو شکست دی جاسکے جہاں جیت ہار کے فرق کا تناسب بہت زیادہ نہیں ہوتا ہے۔ یہ بات اچھی طرح ذہن میں رکھیں کہ ووٹ کے ذریعہ ہی حکومتیں بنتی ہیں، اس لئے ایک ایک ووٹ قیمتی ہے۔ ووٹ ڈالنا نہ صرف ایک اہم ذمہ داری ہے بلکہ ایک امانت بھی ہے، لہٰذا خود بھی ووٹ ضرور ڈالیں اور ایسی کوشش وفکر کریں کہ آپ کا کوئی بھی پڑوسی ایسا نہ بچے جس نے ووٹ نہ ڈالا ہو۔ یہی ایک ایسا کام ہے جو ہر شخص کرسکتا ہے، اس کے لئے نہ بہت زیادہ وسائل کی ضرورت ہے اور نہ دن رات کی جد وجہد درکار ہے۔ اس کے لئے ہمارے علماء ودانشور حضرات لوگوں کو ووٹ ڈالنے کی اہمیت بتاکر انہیں ووٹ ڈالنے پر آمادہ کریں۔ جتنی زیادہ ہماری ووٹنگ ہوگی اتنا ہی بی جے پی کو شکست دینا ہمارے لئے آسان ہوگا۔ تبلیغی جماعت کی طرح گھر گھر جاکر لوگوں کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب دینا بہت مفید ثابت ہوگا۔ ۳) سیکولر امیدواروں میں جو جیت حاصل کرسکتا ہے اس کے ہاتھوں کو مضبوط کیا جائے۔ یہ بات کہنا تو آسان ہے مگر عمل مشکل ہے کیونکہ ہم خاص کر الیکشن کے دوران ذات پات میں اس طرح منقسم ہوجاتے ہیں کہ مستحق امیدوار کو بھی نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ اگر ہماری برادری کے امیدوار سے صرف ووٹوں کی تقسیم ہورہی ہے تو دوسری برادری کے امیدوار کو ووٹ دے کر بی جے پی امیدوار کو شکست دینے کے لئے ہمیں اپنی ذمہ داری انجام دینی چاہئے۔ سماج کے ذمہ دار حضرات کو اس میدان میں اپنی خدمات پیش کرنی چاہئے۔ ۴) مختلف تنظیموں اور اداروں کے سربراہوں سے درخواست ہے کہ بہار کے اسمبلی الیکشن کی طرح ہر اہم سیٹ پر تجزیہ کرکے اُس سیکولر امیدوار کے ہاتھ مضبوط کرنے کی کوشش کی جائے جو بی جے پی امیدوار کو شکست دے سکتا ہو۔

بات کہنا یا لکھنا آسان ہے مگر عملی جامہ پہنانا مشکل تو ضرور ہے مگر انسان کی طاقت سے باہر نہیں۔ اترپردیش کے سیکولر ذہن رکھنے والے شخص کی مثبت سوچ کو میں نے اس امید سے قلمبند کرنے کی مخلصانہ کوشش کی ہے کہ انگلی کٹاکر شہیدوں میں شریک ہوجاؤں۔ بہت کچھ میں کر بھی نہیں سکتا، لیکن جو کرسکتا ہوں اُس میں بخل کیوں کیا جائے۔ اسی مقصد کے پیش نظر یہ چند سطریں تحریر فرمائی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہندوستان میں امن وسلامتی کو مضبوط کرے اور تمام عوام منجملہ مسلمان کی آزادی، روزی، روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور طبی سہولتوں کی فراوانی فرمائے، آمین۔
Najeeb Qasmi
About the Author: Najeeb Qasmi Read More Articles by Najeeb Qasmi: 133 Articles with 154175 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.