" پاناما کیس وزیراعظم کو نہیں بلکہ عمران خان کو پریشان کر رہا ھے "

 موجودہ سال 2016ء جب اپنے اختتام کو پہنچے گا تب یہ گزرا سال پاناما کے سال کے طور پر یاد رکھا جائے گا کیونکہ سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ اگلے سال سے نیا بنچ نئے چیف جسٹس کے ساتھ کیس کی سماعت کرے گا۔ بظاہر حکمراں جماعت بڑے سکون سے سانس لے رھی ھے جبکہ عمران خان کے لیے نئے آنیوالے سال میں اک سبق پوشیدہ ہے۔

وزیراعظم نواز شریف کی بیٹی اور بیٹوں، سیاستدانوں اور تاجروں سمیت تقریبا 600 دیگر پاکستانیوں کے نام سامنے آنے سے یہ بڑا مسئلہ بن گیا خاص طور پر اپوزیشن کے لیے مگر الیکشن دھاندلی کی طرح یہ کیس بھی عمران کے ہاتھ سے نکل چکا

۔ پچھلے 8 ماہ سے سیاست پاناما کے گرد گھوم رہی ہے اور اس پر واویلا کرنے والے صرف عمران ھی نظر آئے۔

اس بات میں کوئی وزن نہیں کہ وزیراعظم پر دباؤ اتنا زیادہ تھا کہ انہیں تین خطابات کرنے پڑے۔ وہ مستعفی ہو کر کسی قابل اعتماد آدمی کو وزیراعظم بنا کر اور عدالتی عمل سے اپنے خاندان کو بری کراکر واپس آسکتے تھے اور اس سے الگ دوسری جانب یی ایسا تاثر بھی بالکل غلط تھا کہ وہ نازک وقت تھا، نئے آرمی چیف کا فیصلہ کرنا تھا، جب سول ملٹری تعلقات بہترین نہ تھے، جس کی وجہ سے نواز شریف نے یہ آپشن استعمال نہ کیا۔

عمران خان کے سپریم کورٹ جانے سے وزیراعظم اور ن لیگ پر دباؤ اب تقریبا ختم ہوا اور اپوزیشن دو کیمپوں پی ٹی آئی اور پی پی پی میں بٹ گئی اور متحدہ اپوزیشن کے پلیٹ فارم سے تحریک بھی نہ چل سکی۔ اس لیے کہ عمران خان کو لاک ڈاؤن کے لیے دیگر پارٹیوں کی حمایت نہ ملی حتی کہ طاہر القادری بھی عمران خان کی روش سے مایوس ہوتے نظر آئے۔ پی ٹی آئی کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن پر اپوزیشن نے پی ٹی آئی کی صرف علامتی اور اخلاقی حمایت کرنا مناسب جانی تاہم لاک ڈاؤن کی مخالفت کی۔ سب سے مایوس کن رویہ تو خود پی ٹی آئی کا تھا۔

وزیر اعلیٰ پرویز خٹک پشاور سے کارکنان کا قافلہ لانیکا اقدام نہ کرتے اور شیخ رشید موٹر سائیکل پر بیٹھ کر نہ آتے اور میڈیا کی گاڑی کی چھت پر بیٹھ کر سگار پینے جیسا سیاسی ڈرامہ نہ کرتے تو ایسی صورت میں عمران خان کو شدید شرمندگی اٹھانی پڑتی۔ پی ٹی آئی کے لیے اس ناکامی میں اک بڑا سبق ہے۔ عمران خان کو پی ٹی آئی کے بانی رکن حامد خان کی جگہ بابر اعوان کو وکیل کرنے اور کیس کو زیادہ سیاسی بنانے جیسے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے۔

قوم سمیت پوری دنیا کی نظریں سپریم کورٹ پر تھیں کہ کیا فیصلہ آتا ہے لیکن آج سب پھر پہلے والی جگہ پر کھڑے ہیں۔ کیا اب شیخ رشید دوبارہ عدالت میں پیش ہونگے اور کہیں گے کہ میرے ساتھ کوئی وکیل نہیں لیکن دلائل ہیں؟ چیف جسٹس نے وہی کیا جو سابق آرمی چیف جنرل راحیل نے کیا۔ کام ادھورا چھوڑ کر شاندار طریقے سے رخصت ہو گئے۔ اگر انہیں اپنی ریٹائرمنٹ کے بارے پہلے سے معلوم تھا اور اگر کمیشن ہی بنانا تھا تو پہلے ہی روز بنا دیتے اب نیا بنچ نئے سرے سے شروعات کرے گا۔ ظاھر ھے کہ جو ابتک ہوا وہ چیپٹر بند ھو چکا۔

حامد خان کیس کو سیاسی کرنے کے مکمل مخالف تھے اور انہوں نے کیس میڈیا میں لڑنے سے انکار کیا۔ جب کہ بابر اعوان عدالت کے باہر زیادہ بلند آواز میں دلائل دیتے نظر آتے ہیں۔ عمران خان نے نعیم الحق کی جگہ فواد چوہدری کو ذمہ داری دی تاکہ پاناما میڈیا میں گرم رہے۔ اب میچ کا فیصلہ 2017 میں ہوگا اور آنیوالے نئے سال میں پانامہ کیس کے فیصلے پر عوامی اکثریت کی رائے کیمطابق کوئی انوکھا فیصلہ نہیں آئیگا کہ حکومت اپنی مدت کا زیادہ عرصہ گزار چکی اور عوامی رائے یہ ھے کہ فیصلہ پاکستان کی عوام اپنے ووٹوں سے 2018ء کے الیکشن میں کریگی اور جو نتیجہ نکلے گا وھی اصل فیصلہ قرار پائیگا

عمران خان کیطرف سے کمیشن کی مخالفت کے بعد جمعے کو آنے والا فیصلہ متوقع تھا۔ پی ٹی آئی قیادت اور قانونی ٹیم نہ صرف صورت حال اور ایک رکنی کمیشن کی تجویز کا اندازہ لگانے میں مکمل ناکام رہی بلکہ وہ یہ بھی معلوم نہ کرسکی کہ حکومت نے کیوں اپنے آپشن کھلے رکھے ہیں اور روزانہ سماعت کی درخواست کرنے کے ساتھ ساتھ کمیشن بنانے کی زور دار مخالفت بھی نہ کی۔

پی ٹی آئی کو جمعے سے پہلے اپنا فیصلہ نہیں سنانا چاہیئے تھا، انہیں حکومتی جواب کا انتظار کرنا چاہیئے تھا۔ اب اس کے کمیشن کے بائیکاٹ کے فیصلے سے حکومت کو اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کا بھرپور موقع مل گیا۔ کمیشن پر حکومت اور اپوزیشن کے اختلاف کی وجہ سے عدالت نے اگلے چیف جسٹس کی حلف برداری تک سماعت ملتوی کردی۔

حکومت پہلے ہی نئے چیف جسٹس کیلئے جسٹس ثاقب نثار کا نوٹی فکیشن جاری کرچکی ھے جس کی وجہ سے موجودہ بنچ کے پاس معاملہ اگلے چیف جسٹس کے لیے چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ باقی نہ رہا۔

عمران خان کے پاس کمیشن کی مخالفت کی کوئی وجہ ہوگی مگر انہوں نے اہم سماعت سے قبل سارے پتے دکھا دیے۔ مگر ن لیگ نے اسے پی ٹی آئی پر سبقت سمجھا کیونکہ یہ قانونی و سیاسی غیر اھم کیس ہے جو 2017ء میں اسکے فیصلے کے آنے تک انہیں مطمئن رکھے گا اور چونکہ نوازشریف کا نام پانامہ کیس میں نہیں یوں ان کے خلاف حتمی فیصلہ آنیکا کوئی امکان بھی نہیں۔

پاناما کیس کو اپوزیشن بڑے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے میں کوشاں ہے جبکہ عدالت میں پیش کردہ کتابوں کے مسودے اور اخباری تراشوں کو عدالت غیر اھم قرار دے چکی ھے اور عمران خان شہادتیں و ثبوت پیش کرنے میں مکمل ناکام رھے۔

عمران نے کیس کو زندہ رکھا مگر اگر وہ اپنے کارڈ اچھی طرح کھیلتے تو ن لیگ کو چند جھٹکے دے سکتے تھے۔ اب یہ کھیل عمران خان کے ھاتھ سے نکل چکا کہ پاناما کیس پر اصل فیصلہ میڈیا کی عدالت نہیں بلکہ سپریم کورٹ کا ہوگا۔ عمران کو اگلے الیکشن کے لیے سپریم کورٹ سے کیس جیتنا پڑے گا کیونکہ انہوں نے اعتزاز احسن اور شیخ رشید سمیت دیگر لوگوں کے مشوروں کے باوجود عدالت جانے کا فیصلہ کیا۔

شاید عمران خان کےلیے یہ بری خبر بن چکی ھےکہ پاناما کیس وزیراعظم کو نہیں بلکہ عمران خان کو پریشان کر رہا ھے اور اس بار نیا بنچ، نیا چیف جسٹس اور نیا سال ہوگا اور حقیقت یہی ھے کہ عمران خان نئے آنیوالے سال میں بھی اپنی فتح سے دور ھی کھڑے نظر آئیں گے.
Mian Khalid Jamil {Official}
About the Author: Mian Khalid Jamil {Official} Read More Articles by Mian Khalid Jamil {Official}: 361 Articles with 299482 views Professional columnist/ Political & Defence analyst / Researcher/ Script writer/ Economy expert/ Pak Army & ISI defender/ Electronic, Print, Social me.. View More