پاک بھارت جنگ کے سائے

عالمی دنیا کو جنوبی ایشیا کی دو ایٹمی طاقتوں پاکستان بھارت کے درمیان غیرمعمولی طور پرکشیدگی عرج پر دیکھنے کو مل رہی ہے۔ابھی تک جو دیکھنے میں آیا ہے کہ یہ دو طرفہ جنگ ٹینکوں ،توپوں ،میزائلوں اور ایٹم بموں سے کیس لڑاکا طیاروں سے نہیں بلکہ سرد ترین لہجوں ،خاردار بے رُخی اور شاطرانہ چالوں کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی دُکھتی ہوئی رگوں پر لفظوں کے زہریلے،نوکیلے تیروں اور شمشیروں کے ساتھ جاری اور دن بدن اس اعصابی جنگ کا تناؤ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔
عالمی دنیا کو جنوبی ایشیا کی دو ایٹمی طاقتوں پاکستان بھارت کے درمیان غیرمعمولی طور پرکشیدگی عرج پر دیکھنے کو مل رہی ہے۔ابھی تک جو دیکھنے میں آیا ہے کہ یہ دو طرفہ جنگ ٹینکوں ،توپوں ،میزائلوں اور ایٹم بموں سے کیس لڑاکا طیاروں سے نہیں بلکہ سرد ترین لہجوں ،خاردار بے رُخی اور شاطرانہ چالوں کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی دُکھتی ہوئی رگوں پر لفظوں کے زہریلے،نوکیلے تیروں اور شمشیروں کے ساتھ جاری اور دن بدن اس اعصابی جنگ کا تناؤ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ویسے تو دونوں ممالک کے درمیان لفظوں کی گولہ باری روز مزہ کے معمول کا حصہ سمجھا جاتا ہے مگر بات یہیں پر ہی نہیں رکتی یہ دونوں ممالک اپنے قیام سے لیکر آج تک چار جنگیں بھی لڑ چُکے ہیں اور اب تو ان دونوں ممالک کے درمیان وقتاً فوقتاً غیرمعمولی تناؤ کی وجہ سے خطے میں ایٹمی جنگ کے خطرات منڈلاتے رہتے ہیں ۔جس سے اقوامِ عالم کو شدید تحفظات تو ہیں ہی مگر تشویش اس سے بھی کہیں زیادہ پائی جاتی ہے بلکہ اس ساری صورتحال سے عالمی امن عامہ بھی سبوتاژ ہو سکتا ہے۔

پاک بھارت کی نصف صدی سے زیادہ کی کشیدگی کی بنیادی وجوہات کسی سے ڈھکی چُھپی ہرگز نہیں۔ایک طرف پاکستان اسلامی ریاست ہونے کے ناطے اپنا یہ فرض اولین سمجھتا ہے کہ وہ کشمیر پر بھارتی غاصبانہ تسلط،کشمیریوں کی مرضی کے خلاف غاصبانہ قبضہ اور کشمیریوں پر 69 سالوں سے ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم کو عالمی برادری کے سامنے نہ صرف اُجاگر کرے بلکہ کشمیریوں کی ہر فورم پر اخلاقی ،سیاسی اورسفارتی امداد بھی کرے ۔جبکہ دوسری جانب ہندوستان پاکستان کے اس عمل کو بھارت کت اندرونی معاملات میں دخل اندازی اور غیر سفارتی عمل قرار دیتاآرہاہے۔بھارت بھی جواب میں پاکستان کے داخلی معاملات میں عملاً ہر طرح کی دخل اندازی کا کوئی بھی موقع خالی نہیں جانے دیتا۔ کراچی سے پشاور تک دہشتگردی ہو توپاکستان کو معاونت و سرپرستی میں بھارت کا ہی خفیہ ہاتھ نظر آتا ہے ۔نام نہادخود ساختہ بلوچ علیحدگی پسند قوتیں ہوں یا دہشتگرد عناصر،بھارتی سرپرستی نہ ہو یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے ،سہولت کا ر کے پیروں کے نشان سیدھے ہندوستان جا پہنچتے ہیں۔

1948 میں پاکستان نیکشمیر کے آدھے حصے کو بھارتی ناجائز قبضہ سے آزاد کرایا تو جواب میں صرف 23 سال بعد ہی بھارت نے بھی پاکستان کے ایک بازو مشرقی پاکستان کو پاکستان سے علیحدہ کر کے بنگلہ دیش بنا کر حساب چکتا کرنا ضروری سمجھا۔یعنی اب پاکستان مقبوضہ کشمیر کی آزادی پر یقین کامل رکھے ہوئے ہے جبکہ انڈیا بھی جواب میں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان جو کہ معدنی دولت سے مالا مال اور اقتصادی راہداری منصوبہ کی وجہ سے عالمی طاقتوں کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے کیونکہ اس عظیم الشان منصوبے سے چین کو پاکستان سے بھی زیادہ فوائد حاصل ہونگے۔ اس ساری گریٹ گیم میں بھارت کا پلڑا کچھ بھاری نظر آتا ہے۔ بھارت ایک ایک غیر اسلامی ملک ہونے کے باوجود جنوب ایشیائی کے مسلم ممالک جن میں سعودی عرب،بنگلہ دیش،افغانستان ،ایران،عراق اور متحدہ عرب امارات کی ریاستوں جبکہ چین ،روس اور علمی طاقت امریکہ کے ساتھ بھی پاکستان سے بظاہر زیادہ بہتر تعلقات نظر آتے ہیں ۔بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ ہندوستان اپنی کامیاب خارجہ پالیسی اورشاطرانہ سفارتکاری کے زریعے پاکستان کو دن بدن عالمی سطح پر تنہا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا۔اس بات کی مظبوط مثال پاکستا ن کی اپنے ہی برادر اسلامی ممالک سے تعلقات کا خوشگوار نہ ہونا ہے۔پاکستان کے ساتھ سب سے زیادہ لمبی سرحد رکھنے والے افغانستان کے پاکستان کے ساتھ تعلقات دن بدن ابتری کی جانب بڑھتے جارہے ہیں جسکا سب سے زیادہ فائدہ بھارت اٹھا رہا ہے۔بھارت " دشمن کا دشمن،دوست" کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے افغانستان پر مہربان نظر آ رہا ہے ۔ایک طرف اربوں ڈالروں کی غیر مشروط مالی امداد دے رہا ہے جبکہ دوسری جانب اربوں ڈالروں کا اسلحہ بھی دے رہا ہے۔اگر یہ ساری باتیں درست بھی سمجھ لی جائیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخرکار بے وجہ انڈیا کی افغانستان پر اتنی زیادہ مہربانیوں اور عنائتوں کی وجہ کیا ہے؟کیا وجہ افغانستان کی پاکستان مخالف پالیسیاں اور پاکستان سے بلا وجہ کی دشمنی ہی تو نہیں۔بدلے میں آئے روزافغانستان پاکستان کو آنکھیں ٹیڑی کر کر کے دکھاتا رہتا ہے ۔

پاکستان کے عسکری و سیاسی ماہرین کو بہتر طور پر علم ہے کہ افغانستان میں بڑھتا ہوا بھارتی اثرو رسوخ پاکستان کے لئے خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں جس کے منفی اثرات برائے راست پاکستان کی علاقائی حثیت ہی نہیں بلکہ پاکستانی وجود کیلئے بھی مستقبل میں بڑا خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔لہذا وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستانی لیڈرشپ آپسی اندرونی جھگڑوں سے بالا تر ہو کر ملکی سلامتی کیلئے سنجیدگی سے غور کرے اور ایسی خارجہ پالیسی ترتیب دی جائے جس سے پاکستان کا ناصرف جنوبی ایشیائی ممالک بلکہ عالمی طاقتیوں سے بھی تعلقات خوشگور ہو سکیں۔برادر اسلامی مسلم ممالک سے بھی تعلقات میں بھی گرم جوشی پیدا ہو۔ یہی کامیاب خارجہ پالیسی پاکستان کے وجود ،مظبوط مستقبل اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے کی ضمانت ہو گی۔اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو بھارت اپنی پاکستان مخالف خارجہ پالیسی کی وجہ سے پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنے میں کامیاب ہو جائے گا اور اسطرح خطے میں پاک بھارت عوام پر ایٹمی جنگ کے سائے منڈلاتے رہیں گے۔
 
Sarfraz Awan
About the Author: Sarfraz Awan Read More Articles by Sarfraz Awan: 14 Articles with 9693 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.