صراط المستقیم پارٹ ٹو

ارے واہ ۔۔۔۔ آج تو بڑے بڑے لوگ آئے ہیں بھئی ۔۔۔۔۔۔

ابراہیم انہیں اپنی حویلی کے اندر داخل ہوتے دیکھ کر چہکے تھے ۔۔۔۔

اس خوشی کے موقع پر تو آنا ہی تھا ۔۔۔۔۔ ویسے بہت مبارک ہو تمہیں ۔۔۔۔

ارے خیر مبارک بھئی آؤ تمہیں ابا جی سے ملاؤں ۔۔۔ وہ تو بڑے خوش ہوجائینگے ۔۔۔۔۔

ہاں یہ بتاؤ چاچا کی طبعیت کیسی ہے ۔۔۔۔۔۔

آج کل تو بالکل چنگی ہوگئی ہے پوتے کی خوشی میں ۔۔۔۔۔

وہ سن کر مسکرا دئے تھے ۔۔۔۔۔ بولے کچھ نہیں ۔۔۔ ابراہیم ان کے چچا زاد بھائی تھے ۔۔۔۔ چاچا دلاور کی طرح جاہلانہ روایات کو سینے سے لگائے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔ تین بیٹیوں کے بعد اللہ نے انہیں اولادِ نرینہ سے نوازا تھا ۔۔۔۔۔ اور ان کی کزن پر بس سوت آتے آتے رہ گئی تھی ۔۔۔۔۔ ورنہ چچی نے تو ابراہیم کے لئے خاندان سے باہر لڑکی تلاش کرنا بھی شروع کردی تھی ۔۔۔۔۔

××××××××××××××××××××

کھانا لگنے سے پہلے سارے مرد خواص بیٹھک میں جمع ہوچکے تھے ۔۔۔۔۔ اور اب خواص مجرا شروع ہونے والا تھا ۔۔۔۔۔ مگر پروفیسر ابرار کہاں ان چیزوں کو پسند کرتے تھے ۔۔۔۔ لیکن ابراہیم کی بضد اسرار پر وہ بھی ناچار بڑی بیٹھک میںآخری نشست پر آکر بیٹھ گئے تھے ۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد وہ ٹولا اندر داخل ہوا تھا ان کے آنے پر عجیب عجیب فقرے کسنے اور سیٹیاں لوگوں نے مارنی شروع کردی تھیں ۔۔۔۔۔ وہ سر جھکائے بےزار سے بیٹھے تھے ۔۔۔۔۔ اب بے ہودہ گانے کی آواز بڑے بڑے اسپیکرز پر گونجنے لگی اور ساتھ میں بے ہودہ فقرے بازی میں بھی شدت آگئی تھی ۔۔۔۔۔ اچانک ان میں سے جو سب سے کم عمر اور حسین خواجہ سرا تھا وہ ناچتے ہوئے آخری نشستوں کی طرف آگیا تھا ۔۔۔۔ انہوں نے اسی وقت نگاہ اٹھائی تھی اور اسے بڑی ناپسندیدہ نظروں سے گھورا تھا ۔۔۔۔۔۔ پھر ایک دم چونکے تھے ۔۔۔۔ وہ بھی انہیں دیکھ کر ٹھٹک کر وہیں رک گیا تھا ۔۔۔۔

شہباز !

انہوں نے اس کا نام حیرت سے لیا تھا ۔۔۔ اپنا نام سن کر شہباز نے ایک نظر انہیں دیکھا تھا ۔۔۔۔ شرمندگی ، کرب ناجانے کیا کیا تھا اس کی نیلی آنکھوں میں اس وقت ۔۔۔۔ وہ تیزی سے بھاگتے ہوئے باہر نکل گیا تھا بیٹھک سے ۔۔۔۔۔ اور وہ وہیں بیٹھے رہ گئے تھے ۔۔۔۔

×××××××××××××××××××××

میں کیا ہوں ؟ کون ہوں ؟ کہنے کو تو انسان ہوں مگر ایک ادھورا انسان جس کے پیدا ہوتے ہی اس کے ماں باپ نے اسے خواجہ سراؤں کے حوالے کردیا ۔۔۔۔ میں نے کبھی اپنے والدین کی شکل ہی نہیں دیکھی ۔۔۔۔ اور انہوں نے بھی پلٹ کر میری خبر تک نہ لی ۔۔۔۔۔ جیسے میں گھر کا کوڑا تھا اور انہوں نے اپنے گھر کی گند اٹھا کر باہر پھینک دی تھی ۔۔۔۔ اور اپنے گھر کو پاک کر لیا تھا ۔۔۔۔ میں شہباز خان عرف شیلا ایک ہونہار اور زہین مورت ایک ہیجڑا ۔۔۔۔ جس کی دنیا شبنم نامی خواجہ سرا سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہوتی تھی ۔۔۔۔۔ جو اس کی ماں اس کا باپ دونوں کا کردار بڑی خوبی سے اب تک نباہ تا چلا آرہا ہے ۔۔۔۔۔ میں ذہین تھا شروع سے بابا نے میری ذہانت کو دیکھتے ہوئے مجھے اسکول میں داخل کروادیا مگر میری شناخت چھپا کر ۔۔۔۔ شیلا سے میں شہباز خان بن گیا ۔۔۔۔ اسکول سے کالج تک گرو جی اور بابا نے میری تعلیمی اخراجات اٹھائے ۔۔۔ پھر میں بھی کام کرنے لگا ٹیوشن کے ساتھ ساتھ ایک خواجہ سرا کا کردار بھی نباہ نے لگا ۔۔۔۔ ٹیوشن سے ایم بی اے اور دیگر سرٹیفائیڈ کورسز کے اخراجات کہاں پورے ہوسکتے تھے ۔۔۔۔۔ میں بھی بحالتِ مجبوری دیگر خواجہ سراؤں کی طرح محفلوں میں جانے لگا ۔۔۔۔ اور ان نام نہاد شرفاء میں میری شہرت ہوگئی ۔۔۔ ہر کوئی میری ڈمانڈ کرنے لگا ۔۔۔ شروع میں مجھے اچھا نہیں لگتا تھا مگر پھر میں ان سب کا عادی ہوتا گیا ۔۔۔۔ اسکول کالج اور پھر یونیورسٹی تک میں نے کسی کو اپنے قریب تک نیں آنے دیا ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ میں ظاہری طور پر ایک خوبصورت شخصیت کا مالک تھا ۔۔۔ لڑکیاں میری سحر انگیز شخصیت پر مرتی تھیں اور لڑکے میری ذہانت کی وجہ اور میرے شاندار اکیڈمک کرئیر کی بدولت مجھ سے دوستی کے خواہش مند ہوجاتے تھے ۔۔۔۔ مگر میرا سرد روئیہ انہیں میری جانب آنے ہی نہیں دیتا تھا ۔۔ ہنہ ۔۔۔ وہ مجھے مغرور سمجھتے تھے ۔۔۔ مگر اگر وہ میری اصلیت جان جاتے تب شاید مجھے منہ لگانا بھی پسند نہ کرتے ۔۔۔۔ کاش اب بھی میری اصل حقیقت سب سے یونہی چھپی رہتی کاش سر مجھے اس طرح نہ دیکھ تے ۔۔۔ کتنی حیرت تھی ان کی آنکھوں میں ۔۔۔ اب سب کو پتا چل جائے گا ۔۔۔ میرا کرئیر شروع ہونے سے پہلے ہی تباہ ہوگیا ۔۔۔ کاش ایسا نہ ہوتا ۔۔۔ اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ۔۔۔ کاش ! کاش! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ یہ سب سوچے جارہا تھا ۔۔۔ اور بے آواز روئے چلا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔

××××××××××××××××××

جاری ہے ِِِِِِِِِِِِ۔۔۔۔۔۔۔۔
farah ejaz
About the Author: farah ejaz Read More Articles by farah ejaz: 146 Articles with 215228 views My name is Farah Ejaz. I love to read and write novels and articles. Basically, I am from Karachi, but I live in the United States. .. View More