کشمیر : فقط احساس آزادی سے آزادی عبارت ہے

اس سال جب سارےملک میں یوم آزادی منایا گیاوادی ٔکشمیر کے لوگ آزادی کے چہلم کا اہتمام ہوا۔ کشمیر میں پھر سے کرفیو نافذ کردیا گیا جسے تقریباً چالیس دن ہوچکے ہیں۔سابق وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید کے جنازے میں سرکاردربار کے باوجود نہایت قلیل تعداد میں عوام کی شرکت نے ظاہر کردیا تھا کہ کشمیری عوام پی ڈی پی کے بی جے پی سے ہاتھ ملا لینے کو اپنی پیٹھ میں چھرا گھونپ دینے کے مترادف سمجھتے ہیں ۔ پی ڈی پی کو چاہئے تھا کہ اس ایک اشارے کو تازیانۂ عبرت سمجھتی اور بی جے پی سے دامن جھٹک کر کسی اور کے ساتھ حکومت بناتی یا انتخاب کروادیتی لیکن محبوبہ مفتی نےطویل پس و پیش کے بعد بی جے پی کے ساتھ پھر سے حکومت بنالی۔پی ڈی پی کے ایک وزیر کے مطابق بی جے پی نے محبوبہ مفتی کو اعتماد میں لئے بغیر ایک ایسی فاش غلطی کردی کہ جس نے خوداس کا اپنا اورساتھ ہی پی ڈی پی کا بیڑہ غرق کردیا۔

وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کی اب یہ حالت ہے کہ انہیں اپنے گھر میں دبکے ہوئے ارکان اسمبلی سے کہنا پڑرہا ہے کہ وہ اپنے گھر سے نکلیں لیکن جب وہ بادلإ ناخواستہ عوام میں جاتے ہیں تو ان کو دیکھ کر وہ لوگ مشتعل ہوجاتے ہیں ۔ پی ڈی پی رہنماوں پر حملے کی خبریں آچکی ہیں ۔ اس کی شریک کار بی جے پی کے رہنما تو خیر وادی کی عوام میں جاکر ان کا اعتماد بحال کرنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے ۔ حکومت میں ہونے کے باوجود یہ معذوری اور مجبوری قابل شرم ہے ۔ وزیراعظم مودی سری نگر تو دور ایوان پارلیمان سے بھی چھپتے پھر رہے ہیں ۔ پارلیمان کے مانسون کے اجلاس میں دو مرتبہ کشمیر پر بحث ہوئی لیکن دونوں مرتبہ وزیراعظم نے ڈنڈی مارکر اپنےآپ کو خول میں بند کرلیا ۔ جو رہنما اپنے ارکان پارلیمان کو اعتماد میں لے کر حزب اختلاف کو مطمئن نہیں کرسکتا وہ بھلا عوام کو کیسے مطمئن کرکے اعتماد میں لے گا۔

وزیراعظم نریندر مودی یہ بھول گئے ہیں کہ انہیں قوم نے پارلیمان میں حکومت کرنے کیلئے منتخب کیا ہے ۔ ان کی ذمہ داری محض بی جے پی کو مختلف ریاستی انتخابات میں کامیابی سے ہمکنار کرنے کی نہیں ہے یہ تو پارٹی کے صدر اور صوبائی رہنماوں کا کام ہے۔ وزیراعظم کا فرض منصبی ساری دنیا کی سیر کرنا ، رٹی رٹائی تقریریں کرکے فوٹو کھنچوانا نہیں بلکہ قوم کو درپیش سنگین مسائل حل کرنا ہے۔ اس کے بغیر یوم آزادی کو لال قلعہ سے پرچم کشائی اور اس کے بعد کہی جانے والی چکنی چپڑی باتیں بے معنیٰ ہیں ۔ کشمیر کے مسئلہ پر۳۳ کے بعد خیالات کا اظہار کرنے کیلئے مودی جی نے مدھیہ پردیش کے ایک عوامی جلسہ کا انتخاب کیا جو مضحکہ خیز ہے۔ یہ کام یا تو لوک سبھا میں ہوتا یاکم ازکم جلسۂ عام کو سرینگر میں ہو نا چاہئے تھا ۔

کشمیر پر مجرمانہ تاخیر کے بعد جو بیان دیا گیا وہ بھی نہایت ناعاقبت اندیشں تھا ۔ وزیراعظم کو اس بات پر افسوس نہیں ہے کہ ۵۶ مظاہرین جان بحق ہوچکے ہیں۔ ۱۰۰ سے زیادہ اپنی بینائی سے محروم ہوچکے ہیں ۔ زخمیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ۸ ہزار میں سے ۵ ہزار حفاظتی دستے کے لوگ زخمی ہیں ۔ کئی فوجی چھاونیاں نذرِ آتش کی جاچکی ہیں ۔ اس طویل کرفیو نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے ۔ پاکستان کو ہمیں بدنام کرنے کا نادر موقع ہاتھ آگیا ہے۔ ساری دنیا اس پر تشویش کاا ظہار کررہی ہے ۔ اقوام متحدہ میں یہ مسئلہ پھر سے زندہ ہوگیا ہے۔ ان مسائل پر اظہار خیال کرنے کے بجائےوزیراعظم نے کشمیری بچوں کے ہاتھوں کتاب یا کمپیوٹر کے بجائے پتھر پر افسوس کیا۔ دراصل مودی جی کو کشمیری بچوں کے ہاتھ میں پتھر تو نظر آتے ہیں لیکن حفاظتی کے ہاتھوں میں چھرے والی بندوق نظر نہیں آتی۔ انہیں چاہئےتھا کہ حفاظتی دستوں کو ہدایت دیتے۔ بقول سیتارام یچوری جس چھرے والی بندوق سے دنیا کی سفاک ترین اسرائیلی فوج تک گریز کرتی ہے وہ کشمیر کے اندر دھڑلے سے استعمال ہورہی ہے۔

مودی جی نے فرمایا سارا ہندوستان کشمیر سے محبت کرتا ہے تو کیا محبت کے اظہار کا یہی طریقہ ہے؟ سارے ملک میں مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے لاٹھی یا پانی کی دھار کا استعمال ہوتا ہے کشمیر میں پتھر کے جواب میں گولی کی پالیسی اظہار محبت ہے یا نفرت ۔ مودی جی نے یہ بھی فرمایا کہ ہم اٹل جی کے بتائے ہوئے کشمیریت اور انسانیت کی راہ پر گامزن ہیں لیکن سپریم کورٹ نے یہ کہہ دیا کہ انتظامیہ یعنی حفاظتی دستوں کے اندر انسانیت کا فقدان ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک جلسۂ عام میں کہے جانے والے جملہ پر یقین کریں یا عدالت کی کرسی پر براجمان جج کی بات مانیں ۔ حفاظتی دستوں کا کہنا ہے کہ ہمیں جو اسلحہ دیا جاتا ہے ہم اس کو استعمال کرتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ یہ اسلحہ اور اس کو استعمال کرنے کا حکم کون دیتا ہے؟ ایک ماہ سے وزیراداخلہ چھرے والی بندوق کا متبادل تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔ سی آرپی ایف کے سربراہ کے مطابق ان کے پاس صرف دو ہی متبادل ہیں ایک چھرے والی بندوق اور دوسرے اے کے ۴۷۔ اس لئے چھرے والی بندوق بہتر متبادل ہے۔ کیا دنیا میں آج تک کسی انسانیت نوازحکومت کے اہلکارکو اپنے ہی باشندوں کے خلاف اے کے ۴۷ استعمال کرنے کا خیال آیا ہے؟

مودی جی نے کشمیر میں جس افسوس کا اظہار کیا ہے وہ دراصل الزام تراشی ہے ۔ انہوں کشمیری بچوں کی حفاظتی دستوں کے ہاتھوں ہلاکت کیلئے بلا واسطہ ان لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرا دیا جنہوں نے پتھر تھمایا ہے حالانکہ پتھر اٹھانے کیلئے کسی ہدایت کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ظلم کے خلاف احتجاج اور تحفظ یہ انسانی فطرت ہے اور بچوں سے زیادہ فطرت سے قریب کون ہے؟ کشمیر میں موجودہ خلفشار کیلئے برہان وانی کے انکاونٹر سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے لیکن دراصل اس کی ابتداء ۲۵ جون کو ہوئی جب کشمیر ی عسکریت پسندوں نے پلواما ضلع میں پمپور مقام پر سی آر پی ایف کے دستے پر گھات لگا کر حملہ کیا ۔ اس حملے میں ۸ جوان ہلاک اور ۲۲ زخمی ہوئے۔ دو عسکریت پسند بھی مارے گئے اور ایک فرار ہوگیا۔ اس حملے کی بابت وزیردفاع منوہر پریکر نے یہ تسلیم کیا کہ ان کے خیال میں کام کرنے کا معیاری طریقۂ کار( SOP) پر عملدرآمد میں کوتاہی ہوئی ۔ وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ نےدونفری تفتیشی وفد پمپور روانہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ رپورٹ کے بعد صورتحال واضح ہوجائے گی ۔ حملے کے خطرات کے باوجود بس بغیر اسکارٹ کے جارہی تھی اور سڑک صاف کرنے والا ہراول دستہ عسکریت پسندوں کی شناخت میں ناکام رہاتھا۔ ایک ماہ کے اندر حفاظتی دستوں پر وہ چوتھا حملہ تھا گزشتہ ۳ حملوں میں ۱۷ جوان ہلاک اور کئی زخمی ہوچکے تھے ۔

اس سے قبل مرکز اور صوبے میں کانگریس کی حکومت کے دوران جب اس طرح کی وارادتیں رونما ہوتی تھیں تو بی جے پی والے خوب شور مچاتے تھے اورنہ صرف جموں کے ہندو رائے دہندگان بلکہ سارے ملک کے عوام سے یہ کہتے پھر تے تھےکہ اگر حکومت کی زمامِ کار ہمارے ہاتھوں میں ہوتی تو ایسا ہرگز نہ ہوتا ۔ اس بار اتفاق سے نہ صرف مرکزی حکومت بی جے پی کی ہے بلکہ صوبے کی حکومت میں بھی وہ برابر کی شریک ہے ۔ اس کے باوجود وادیٔ کشمیر کی یہ دگر گوں صورتحال بی جے پی کے رائے دہندگان کو مایوس کررہی تھی۔ ان لوگوں نے بی جے پی سے بڑی توقعات وابستہ کررکھی ہیں۔ ان کو کانگریس کی جھولی میں جانے بچانے کی کوشش کا کوئی نہ کوئی تعلق برہان وانی کے انکاونٹر سے ضرور ہے۔
غالب گمان یہ ہے کہ اپنے حامیوں کی خوشنودی کیلئے برہان وانی کے انکاونٹر کا فیصلہ کیاگیا تاکہ اپنی دلیری کا ڈنکا بجا یاجاسکے حالانکہ لاکھوں فوجیوں کی موجودگی میں تین نوجوانوں کو گھیر کر ماردینے میں کوئی بہادری نہیں ہے ۔ برہان وانی ایک ۲۲ سالہ نوجوان تھا جس پر ۱۵۰ نوجوانوں کو حزب المجاہدین میں شامل کرنے اور دہشت گردی کے چند واقعات میں ملوث ہونے کا الزام تھا ۔ کیا ان الزامات کو عدالت میں ثابت کرنا ممکن نہیں تھا؟کیاآزادی کے ۷۰ سال بعد بھی کسی عسکریت پسند باغی گرفتار کرکے اس کو قرار واقعی سزا دینے سےہمارا دستور قاصر ہے؟ اگر نہیں تو آئینی طریقۂ کار کو پامال کیوں کیا گیا؟ گجرات میں ہاردک پٹیل نے بھی تلوار اٹھا کر بغاوت کا اعلان کیا تھا۔ اس پر بغاوت کا الزام بھی لگا۔ وہ گرفتار بھی کیا گیا اور اب ضمانت بھی ہوگئی۔ اس کے انکاونٹر کا خیال کسی کو کیوں نہیں آیا جبکہ گجرات کی پولس عشرت جہاں سے لے کر سہراب الدین اور پرجاپتی کے انکاونٹر کے سبب بدنام ہے۔

حکومت کے اہلکار برہان وانی کی عسکریت پسندی کے پسِ پشت عوامل کا مطالعہ کرتے تو یہ اقدام ہرگز نہیں کرتے۔ برہان کے والد صدر مدرس اور والدہ پوسٹ گریجویٹ استانی ہیں۔ برہان اپنی جماعت کا ذہین ترین طالبعلم تھا ۔ اس کے ہاتھ میں پتھر نہیں کتاب تھی۔ لیکن جب اس کے بے قصور بھائی خالد وانی کو آج سے ۷ سال قبل فوجیوں نے بلاوجہ ہلاک کردیاتو اپنے بھائی کے قتل کا انتقام لینے کی خاطر برہان نےکتاب پھینک کربندوق اٹھائی ۔ اگر خالد پر ظلم نہیں ہوتا یا اس کے قاتلوں کو حکومت پھانسی کے تختے پر پہنچا دیتی تو برہان کمپیوٹر پر عسکریت کو ترغیب نہ دیتا۔ برہان کی عسکریت پسندی نے یہ خوش فہمی بھی دور کردی کہ وادی کشمیر کے سارے باشندے علٰحیدگی کے خلاف ہیں اور عسکریت پسند صرف اور صرف پاکستان سے درآمد ہوتے ہیں ۔ ایک جائزے کے مطابق وادی میں کل ۱۴۵ متحرک عسکریت پسند ہیں جن میں ۹۱ کا تعلق وادی سے ۵۴ پاکستان سے آئے ہیں ۔ کیا ان ۱۴۵ عسکریت پسندوں پر قابو پانے کیلئے لاکھوں کی تعداد میں حفاظتی دستے ناکافی ہیں جو انکاونٹر کی ضرورت پیش آئی؟

برہان وانی کی ہلاکت نے اسے راتوں رات کشمیر کا ہیرو بنادیا اور بی جے پی کی سخت گیری نے اسے زیرو کرکے رکھ دیا ۔ برہان کے تئیں یہ جو زبردست ہمدردی کا طوفان برپا ہوا ہے اس کا سہرہ صرف اور صرف حکومت کے سر بندھتا ہے۔ برہان کو مار کر حکومت نے علٰحیدگی پسند تحریک کے اندر ایک نئی روح پھونک دی۔ برہان کی ویڈیو کے پس منظر میں چلنے والے ترانہ ’’ ہم نے رسم ِمحبت کو زندہ کیا، زخمِ دل جیت کر نقدِ جاں ہار کر‘‘ کی عملی تعبیر کا سامان خود حکومت نے کیا۔ برہان اگر سو سال بھی زندہ رہتا تو سوشیل میڈیا سے وہ نہ کرسکتا تو پلک جھپکتے ہوگیا اسی لئے عمر عبداللہ نے کہا قبر کے اندر برہان وانی کی موجودگی ذرائع ابلاغ کی بہ نسبت کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ ان مظاہروں پر طاقت کا بیجا استعمال نے ہوا کو مخالف سمت میں موڑ دیا ہے ۔ اس سے بے قصوروں کی ہلاکت اور ساری دنیا میں بدنامی کے علاوہ کچھ بھی ہاتھ نہ آیا۔

برہان وانی کے انکاونٹر کی ایک اور وجہ کشمیری نوجوانوں کے اندر خوف و دہشت پیدا کرنا بھی ہوسکتا ہے۔ جہاں تک کشمیریوں کو خوفزدہ کرنے کا سوال تھا اس واقعہ سے ان کا خوف دور ہوگیا بلکہ وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کے ارکان اسمبلی گھر میں دبک کر بیٹھ گئے ۔ یعنی ڈرانے والے خود ڈر گئے ۔ امن کے قیام کیلئے حریت کے سامنے ہاتھ پسارنا پڑا جن کو کل تک سارے فساد کی جڑ کہا جاتا تھا ۔ اخبارات اور ٹی وی نشریات پر پابندی ۔ وزیرداخلہ کے امریکی دورے کی منسوخی اور پاکستان کا بے فائدہ دورہ حکومت کی نااہلی کے منہ بولتے ثبوت ہیں ۔ ایوان پارلیمان میں غلام نبی آزاد سے کھری کھوٹی سننے کے بعد وزیرداخلہ ۱۶ دن بعد سرینگر پہنچے توحریت اور کانگریس نے ملاقات سے انکار کردیا ۔ اس معاملے کا حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ فرانس اور جرمنی کے حملوں پر افسوس جتانے والے وزیراعظم نریندر مودی عرصۂ دراز تک خاموش رہے اور بولے بھی تو کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی ہی کی ۔

کشمیر کی صورتحال پر آج کل نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبداللہ بہت کھری کھوٹی سنا رہے ہیں ۔ محبوبہ مفتی کایہی حال تھا جب وہ اقتدار سے محروم تھیں خیر عمر عبداللہ نے ایک بیان میں کہا کہ کشمیری نوجوانوں میں بڑھنے والے جوش و جذبات کا داعش سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور جو نوجوان جنگجوؤں کی صفوں میں شامل ہوئے ہیں یا ہورہے ہیں، اُن کا تعلق مدرسوں سے نہیں ہے۔ عمر عبداللہ کو اس بات کا قلق ہے کہ کشمیر کے حالات پر دہلی میںمنعقد ہوئی کل جماعتی اجلاس میں تمل ناڈو ڈی ایم کے کو تو بلایا گیا لیکن انہیں نظر انداز کیا گیا جبکہ وہ زمینی حقائق سے واقف ہیں۔ کل جماعتی میٹنگ کو انہوں نے کشمیرکی عوام کے لئے ایک ظالمانہ اور بھونڈا مذاق قرار دیا۔ پی ڈی پی ممبر پارلیمان مظفر حسین بیگ کے بیان کو عمر عبداللہ نے کشمیر مخالف اور مسلمانوں کی بدنامی سے منسوب کیا ۔ بیگ نے کشمیر میں مظاہرین پر ہورہے بے تحاشہ اور بے جا طاقت ( پیلٹ گن )کے استعمال کے خلاف احتجاج نہیں کرنے کی تلقین کی تھی ۔عبداللہ کے مطابق مظفربیگ کا یہ کہنا کہ نوجوان ’دو سیٹ قمیض اور پاجامہ کے لئے جنگجو بن رہے ہیں‘ پی ڈی پی کی گندی ذہنیت کی غماز اورنوجوانوں کی تحقیر ہےاس لئے کہ بیشتر مظاہرین اعلیٰ تعلیم یافتہ اور آسودہ حال گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

نیشنل کانفرنس کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے الزام عائد کیا کہ کشمیر میں بڑھتے ہوئے غم و غصے کی بنیادی اور واحد وجہ نئی دلی کی طرف سے مسئلہ کشمیر کی حقیقت سے فرار ہے۔ اپنی ناکامی کی پردہ پوشی کیلئے بی جے پی نے ملک بھر میں ترنگا یا ترا کے اہتمام کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بی جے پی کا بہت پرانا حربہ ہے۔ ؁۱۹۹۲ میں مرلی منوہر جوشی نے ملک بھر سے ایکتا یاترا کا اہتمام کیا تھا لیکن لال چوک میں ترنگا لہرانے میں ناکام رہے ۔ ؁۲۰۱۱ میں پھر سے یہ کوشش کی گئی دوسری مرتبہ بھی اس کے حصے میں ناکامی ہی آئی بلکہ ہر بار علٰحیدگی پسندوں کی طاقت میں اضافہ ہی ہوا۔ اس بارپھر سارے ملک میں اس کا اہتمام کیا جارہا ہے ۔ وزیر اعظم کے دفتر میں جموں سے تعلق رکھنے والےمرکزی وزیر جتندر سنگھ نے بڑے طمطراق سے اعلان کیا کہ اگلے سال پاکستان کے مقبوضہ کشمیر میں ترنگا لہرائیں گے۔ جموں کے کٹھوعہ میں ترنگا یاترا شروع کرنے کے موقع پر مرکزی وزیر مملکت جتندر سنگھ نے کہا کہ اس ترنگا یاترا کا صحیح اختتام پاکستان مقبوضہ کشمیر میں ہونا چاہئے۔ مقبوضہ کشمیر کے مظفر نگر میں ترنگا لہرانے کیلئے تو خیر جتندر سنگھ نے ایک سال وقت مانگ لیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ سرینگر میں وہ مبارک دن کب آئیگا؟

اس سال حریت کانفرنس نے ۱۴ اگست یعنی قیام پاکستان کےدن استصواب جلوس کا اعلان کیا تھا ۔ اس ریلی کو ناکام کرنے کی خاطر سخت ترین کرفیو لگایا گیا اس کے باوجود کشمیر کے مختلف علاقوں میں پاکستان کا پرچم لہرایا ۔ اس کے برعکس لال چوک پر ترنگا لہرانے کا عزم اور علاحدگی پسندوں کو روکنے کا چیلنج کرنے والی لدھیانہ کی ۱۵ سالہ طالبہ جانوی کو سرینگر ہوائی اڈے سے انتظامیہ نے واپس بھیج دیا ۔ایک پولیس افسر نے بتایا کہ ۳۰ دیگر لوگوں کے ساتھ جانوی بہل ہوائی اڈے پر پہنچی تھیں ۔ جانوی نے ۲۳ جولائی کو کہا تھاکہ۱۵ اگست کو وہ سرینگر کے لال چوک پر ترنگا لہرائیں گی ، کیونکہ یہی وہ جگہ ہے جہاں پر قومی پرچم کی توہین کی گئی ہے ۔ جانوی بہل کی ناکامی نے بی جے پی کے بلند بانگ دعووں کی پول کھول کر رکھ دی اور واضح کردیا کہ برہان نہ تو بندوق اٹھانے والا پہلا (کشمیری) اور نہ آخری ۔ مودی سرکار کوجو اٹل جی کی این ڈی اے سے سبق سیکھنا چاہئے جس نے ؁۲۰۰۳ میں کشمیری نوجوانوں کو عسکریت پسندی سے روکنے کیلئے ڈاکٹر ذاکر نائک کی خدمات حاصل کی تھیں ۔ ان لوگوں نے تو ذاکر نائک کو جعلی میڈیا ٹرائل کے ذریعہ تقریباً دہشت گرد قراردے دیا۔ وزیراعظم کے انسانیت اور کشمیریت والے بیان کا جواب محسن نقوی کے اس شعر میں ہے کہ ؎
تم منصف و عادل ہی شہر میں لیکن
کیوں خون کے چھینٹےسر دستار بہت ہیں
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1223641 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.