میرا پاکستان کیساہو؟

ملک آشیانہ اور افراد ملت اہلِ خانہ ہیں ۔ گھر کی خوشحالی اور وسائل کی کشادگی ہر فرد کا خواب اور ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے ۔ مگر خوابوں اور خواہشوں کا دارو مدار جستجوپر ہے ۔ کیا کبھی آپ نے سو چا کہ آ پ کے ارد گرد کیا ہو رہا ہے ؟ کیوں اور کیسے ہو رہا ہے ؟ سماج جس قدر عیا ں اور کھلا عمل ہے اُسی قدر پیچیدہ اور مشکل بھی ہے آنکھ کے سامنے جوہوتا ہے اکثر وہ نہیں ہوتا اور جو اکثر ہوتا ہے ۔ وہ ویسا نہیں ہو تا جیسا ہم مشاہدہ کرتے یا سمجھتے ہیں ۔ اگر ہم بحیثیت قوم اپنے حالات اور قسمت بدلنا چاہتے ہیں تو ہمیں مندرجہ بالا سوالات پر غور کرنا ہو گا ۔ نہ صرف غور بلکہ ان سے منسلک وضاحت اور افہام کی راہیں بھی ہموار کرنا ہوں گی۔ کیونکہ ہماری منز ل ترقی ہے۔

ہر مخلص فرد اور محب ِ وطن کی کوشش یہی ہو تی ہے کہ وہ اپنے ملک کو ترقی یافتہ دیکھے ۔تاکہ اقوام اور اعوام میں وہ اور اُس کا ملک ممتاز ہوں۔ مگر خواہش کی تکمیل خوابوں سے کہاں ممکن ہو تی ہے ۔ جتن اور جدوجہد کے پہاڑوں کو عبور کرکے ہی ذرخیز اور ترقی کے وسیع میدانوں تک پہنچا جا سکتاہے ۔ ترقی کی جد وجہد سے قبل یہ بات جانناکہ ترقی کیا ہے ؟ اور اس کے معنی کی وضاحت ذہن میں ہونا ضروری ہے کیونکہ منزل کا تعین ہو جائے تو سفر کار آمد گزرتاہےورنہ مسافری آوارگی میں بد ل جا تی ہے ۔

پاکستان میرا وطن ہے اس کی خوشحالی اس کی ترقی میر ی خواہش ، اس کو خوش وخرم اور ممتاز دیکھنا میرا خواب ہے ۔ مگر سوا ل تو یہ ہے کہ ترقی کیا ہے اور کیا ترقی وہ ہے جو ہم دیکھتے اور سوچتے ہیں یا ترقی وہ ہے جو ہمارے دلوں میں چپکے سے ایک Ideaکی مانند سوئی پڑی ہے یا کچھ اور کیا اس کے مطالب سب اقوام میں یکساں ہیں یا خطوں اور ثقافتوں کی تقسیم نے ترقی کے مفہوم کو بھی بانٹ دیا ہے ؟

ترقی خوبصورت عمارتوں ، دل آویز گزرگاہوں ، خوش رنگ پوشاکوں میں ملبوس انسانوں ، سرسبز و عریض میدانوں یا قارون کے خزانوں کا نام نہیں ۔ ترقی تو فکر کی نمواور تازگی سے سے حرکت پانے اور دنیا کو اعلیٰ صورت میں عمل سے سجانے کانام ہے ۔
؂ جہاں تازہ کی ہے افکار تازہ سے نمود
سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا

فلک بو س عمارتیں اور گھارے مٹی سے بنی دلنشین وادیاں اور وسیع گھر ترقی سے ممکن ہیں مگر ترقی فقط ان کا نام نہیں ۔ ترقی تو دل کے تاریک خانوں کو فکر ِ تازہ سے روشن کر دینے کا نام ہے ۔

فکر اور سوچ نظریات کے معمار ہوتے ہیں۔ اور نظریات کی تعبیراعمال پر منتج ہو تی ہے اور ہمارا ملک پاکستان بھی ایک نظریے کی تعبیر ہے۔ یہ زمین جو ارض پاک کے نام سے منسوب ہے صرف زمین کا ایک ٹکڑا ہی نہیں ایک درسگا ہِ نظریہ پاکستان ہےاور اس نظریے میں وہ اسم اعظم پو شیدہ ہے جس سے ترقی اور خوشحالی ممکن ہو سکتی ہے ۔

یہ بات ذہن میں ضرور کھٹکتی ہے کہ آخر وہ کیا لابھ تھا ؟ وہ کیا فائدہ تھا جس کے لیے لاکھوں لو گوں نے برصغیر میں بڑی بڑی جائیدادوں کو ٹھکرا کر ارض پا ک کا رخ کیا تھا ۔ جانیں دیں ، جائیدادیں دیں اور بدلے میں ایک نحیف و نا مولود وطن جو اُ س وقت ابھی اپنے پیروں پر بھی کھڑا نہیں ہوا تھا ؟ وہ لند ن کا ویزہ نہیں ؟ وہ کینڈا کی شہریت نہیں تھی وہ امریکہ کی وطنیت نہیں تھی جس کے لیے آج ارض وطن کے با شندے باولے ہوئے پھرتے ہیں۔ وہ لالچ وہ لابھ نظریہ پاکستان تھا ۔ جس کےلیے جانیں قربان ہوئیں ۔ عزتوں اور مال کو لوٹا کر پاکستان کا سودا کرنے والے وہ محب نظریہ پاکستان کے پوجاری اور محب تھے ۔ وہ دولت کے آرزو مند نہ تھے ۔

سماج اور اس سے منسلک امور کا دارو مدار انہی افکار پر منحصر ہوتا ہے۔جو اس قوم کے باشندوں کے اذہان کی زینت ہوتے ہیں ۔ سوچ اور فکر ہی سے نظریات کی ترویج ،ثقافت کی اشاعت ،اعمال کی پاکیزگی، اقوام کی باہمی اخوات اوراشخاص کی پہچان ہوتی ہے۔ اورفکر اور سوچ سےہی عمل ڈھلتے ہیں ۔وہی عمل جن سے زندگی جنت بھی بنتی ہے اور جہنم بھی۔

آج کے مسا ئل اور ہمارے ارد گرد ہونے والے واقعات دہا ئیوں سے ذہنوں میں پکنے والی دانستہ اور نا دانستہ کھچڑیوں اور فکروں میں پائی جانے والی لغزشوں کا ہی نتیجہ ہیں۔وہ شخص جو اپنی انگلی نہیں کاٹ سکتا وہ سینے پر بم باندھ کر سینکڑوں کی جانیں لے جاتا ہے۔وہ بندوق سے لوگوں کو ہا نکتا ہے اور وہ جو ان کے بر عکس مسائل سے افراد اور اقوام کو خو شحالی امن اور راہ راست تک لے آتا ہے سبھی فکر کے نتیجے ہیں ۔سب سوچ کی پیداوار ہیں اور سب کا تعلق ذہن سے ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں ۔کہ ترقی امریکہ یورپ اور بر طانیہ سے ہی آتی ہے اور نہ ہی یہ آسمان سے اُترتی ہے ۔ جب تاریکیاں منڈلا رہی ہوتی ہیں تو ترقی دل اور فکر میں سیسکیاں لے رہی ہوتی ہیں۔

قوم میں رشوت جرم اور بد دیانتی فکر سے آتی ہے اور قوم میں نیک نیتی اور بھلائی اور ترقی بھی فکر سے ہی آتی ہے ۔ بر خلاف عمارتوں گلیوں اور سڑکوں کی تعمیر کے ،فکر کی تعمیر ہی خوشحالی کی معمار ہوسکتی ہے۔ پاکستان خوشحال ہو خواہش ہے ۔ آرزو ہے ،پاکستان ملکوں میں بے مثال ہو ۔مگر ان خواہشوں کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کے توازن مادیت اور فکر کو برقرا ر رکھا جاے۔علم کو صحیح معنوں میں عام کیا جائے ۔ تبھی ہے خواب رنگ لا سکتے ہیں ۔ قوم اعتماد و اتحاد سے لیس ہو سکتی ہے اور علم سے ترقی کا علم بلند ہو سکتاہے۔