مرد بیمار پاکستان ، مرض و علاج

پاکستان بننے کے بعد ایک خوبصورت، صاف ستھرا آزاد ملک کا خواب ہر محب وطن پا کستانی نے دیکھا ہے لیکن کیا اس کی تعبیر بھی حا صل کر پا ئے تو اس کا جواب دیتے ہو ئے ہم بابائے قوم سے شر مندہ ہیں حکومت ہو یا پھر عام آدمی ہے ہر ایک اپنی ذمہ داری سے جی چرا تارہا ہے اپنے حصے کی ذمہ دا ریاں سمجھنا ہی نہیں چا ہتے یا پھر دوسروں پر ڈال کر خود بری الذمہ ہوجا نا چا ہتے ہیں اس ملک میں اتنی کر پشن افرا تفری ،خود غر ضی پھیلی ہو ئی تھی کہ بیان سے با ہر ہے۔ صبح گھر سے نکلتے ہو ئے سب سے پہلے جس کو فت کا سامنا ہم کرتے ہیں وہ ہما را ٹریفک نظام ہے ہر ایک جلدی میں گا ڑی بھگا نے کی کو شش کر رہا ہو تا ہے غلط سمت گا ڑیاں چلانا ، سگنل توڑنا ،اورٹیک کر ناہما رے لئے اب ایک عام سی بات بن گئی ہے اورجو سب قا نون توڑ کر آگے نکل جا ئے یہ اس کی اضا فی قا بلیت ما نی جا تی ہے بسوں میں قطار بنا کر سوار ہو نا ہم سو سال بعدشائد سیکھ جا ئیں گے ۔حکومت کی جانب سے قیمتوں میں کمی ہو بھی جائے مگر مجال ہے جو ضروریات زندگی کی قیمتوں میں فرق پڑا ہو سبزی ،گو شت ،دالوں اوردودھ کی قیمتوں میں کو ئی کمی نظر نہیں آتی دکان دار حضرات کسی طرح بھی قیمت کم کر نے کے لئے تیار نہیں ٹرانسپور ٹ کی جانب نگا ہ ڈا لیں توبس، رکشہ،ٹیکسی اپنی پرانی روش پر قائم ہیں اگر احتجا ج بھی کیا جا ئے تو ذہانت کی ایسی دلیلں دیں گے کہ آپ لا جواب ہو جا ئیں اس میں سب سے زیادہ تنخواہ دار طبقہ پس کر رہ گیا ہے اس کی معیار زندگی پر کو ئی اثر نہیں پڑ ا اسے حکو مت کو ٹیکس ادا کرنا ہے اور مہنگائی کا مقا بلہ بھی کرنا ہے چھوٹی چھوٹی معمولی باتیں جن سے ہم اپنی و دوسروں کی زندگیاں آسان بنا سکتے ہیں کرنے سے گریزاں ہیں -

غلط عادات اطوار جو ہما رے اندر بچپن سے پیدا ہو کر اب ایک تنا ور درخت بن چکی ہے اسے ہم ختم کس طرح کر یں اپنے آپ کو ایک اچھا فعال شہری کس طرح بنا ئیں نشے کی طرح ہمارے وجود کو جکڑے اس مرض سے چھٹکارہ تو ہمیں خود ہی حا صل کر نا ہو گا پھر یہ بھی کہ آنے وا لی نسلیں جو ابھی اسکولوں میں اورہمارے آس پاس چھوٹے کی صورت (چا لڈ لیبر)میں کام کر رہی ہیں اس کی تر بیت کس طرح کریں۔ پڑوسی ملک میں نئے سیاسی لیڈرنے صاف ستھرا بھارت کے نام سے مہم کا آغا ز کیا ہے جب اس بارے میں کو ئی خبر نظر سے گز رتی ہے دل اداس ہو جا تا ہے کیا؟ اتنا بڑا ملک صفا ئی مہم سے صا ف ستھرا ہو جا ئے گا اور ہم اپنے ملک میں جگہ جگہ پڑے کو ڑے کے ڈھیر،غلا ظت، گندگی بہتے نالوں کے ساتھ ان پر ستا ئش بھری نظریں ڈا لتے رہ جا ئیں گے ہم تو اسلا می ملک کے باسی ہیں نبی کر یم ﷺ کی ذات ہما رے لئے زندہ قیا دت ہے آپ ﷺنے زندگی کے تمام شعبوں میں اپنے طرز زندگی کومثال بنا کر مشعل راہ دی ہے ہما را دین بھی صفا ئی کو نصف ایما ن کا در جہ دیتا ہے پھر ہم کیوں اپنے نصف ایمان سے اب تک محروم ہیں کیا ایسا نہیں ہو سکتا ہم ما حول کو صاف ستھرا رکھنے کی کوشش کریں بچوں کو بھی صفا ئی کی عادت ڈالیں ہم اپنے بچوں کو اسکول جانا سکھاتے ہیں کلا س میں سب سے زیادہ نمبر لینے کی تر غیب دیتے ہیں اگر اس کے ساتھ تہذیب یا فتہ قوم کی طرح لائن لگا نا سکھا ئیں،سچ، ایما نداری دیا نت و قنا عت کی تعلیم دیں خود سا دگی اپنا ئیں تو شائد بچے بھی بڑوں سے سیکھیں۔

اسٹاف روم میں تمام ٹیچرز خوش گپیوں میں مصروف ہیں بچوں کے مسا ئل ، نئے فیشن اور گھر یلوجھگڑوں سمیت تمام مضوعات پر سیر حا صل گفتگو جا ری ہے ما نیٹر کی کتاب میں سوالوں کے جوابات پر نشان لگا کر دے دئے گئے ہیں بچے خود کر کے لے آئیں گے سب پرنسپل سے خفا ہیں دو مہینوں کی چھٹیوں میں ملنے وا لا سا را فنڈ پر نسپل کے گھر میں سالانہ بنیادوں پر ہو نے والے کا م میں خرچ ہو جا تا ہے۔سر کاری آفس کے شاندارسجے کمرے میں گورنمٹ کے چار افسران تبا دلہ خیال میں مصروف ہیں ملک کی نازک صورتحال ،دہشت گر دی ، لا قانو نیت کی بات پر ھکومت کے بخیے ادھیڑے جا رہے ہیں پھر بات خبروں سے صحافی پر آئی ایک افسرحقارت و نخوت سے گویا ہے کس طرح یہ معمولی طبقہ ہما ری کو تا ہیوں پر نظر رکھتاہے ان میں خو د کا لی بھیڑیں ہیں ان کی آپس میں نہیں بنتی ایک دوسرے سے دست وگربیاں ہیں دوسرے دل جلے افسر گویا ہو تے ہیں ہم ان سے لاکھ در جے بہتر ہیں کس قدر مل با نٹ کر ایما نداری سے کھا تے ہیں ہم لوگ، صحافی تو اپنے ہی بھا ئی بندوں کو کا نٹنے میں لگے رہتے ہیں چاروں استہزا یہ قہقہ لگاتے ہیں۔

من حیث القوم ہم تبا ہی کی جا نب بڑھ رہے ہیں ہمیں احسا س ہی نہیں ہما ری اخلاقی قدریں کہاں گئی اگر ہم اپنی غلطیاں گنوانے پر آئیں تو پورے اخبارات کے صفحے کم پڑجا ئیں گے یہ سب منا ظر ہما ری زند گیوں کے اسٹیج پر روز کھیلا جا تا ہے ہم اس کا کردار ہیں اور یہ کردار نبھا تے ہم مر جا ئیں گے ہما ری جگہ نئی نسل لے گی وہ بھی ہمارے لگا ئے کا نٹوں کی آبیا ری کر ئے گی کیا تھوڑی دیر کو رک کر ہم کو شش نہیں کر سکتے کہ اس ڈرامہ کے اسکپرٹ کو تبدیل کر دیں کیونکہ کردارتبدیل نہیں کیا جا سکتا ہم اپنے آپ کو سچا مسلمان ثا بت کر نے پر بہت زور دیتے ہیں کسی عالم نے ٹھیک کہا ہے کہ خطرہ اپنے اندر ہو تو با ہر دوڑنا کس کام کا ،اپنے اندرکے خطرے سے اپنے اندر کی دوڑ ہی بچا سکتی ہے ۔ کر پشن ،لا قانونیت،تہذیبی اقدارسے ہم نا بلد ہو تے جا رہے ہیں ایک دوڑ ہے جس میں سب ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی سعی کر رہے ہیں صرف اپنی فکر ہے-

اگر لیڈروں کی بات کریں تواب تک ہو نے والے تمام جلسوں میں سیاست دانوں نے کبھی بھی کار کنوں کو سادگی اپنا نے کی، دیانت داری ،سچ، صا ف ستھرا ما حول رکھنے کی با بت کو ئی با ت پرزورانداز میں نہیں کی حالانکہ کارکن اپنے لیڈروں کے لئے ہڑتال کر نے، گولیاں، لا ٹھی ،ڈنڈے ،مار سب کھا نے کو تیا ر ہیں شا ئد لیڈروں کے کہنے پر عمل کر نے کی کوشش بھی کریں تو سوچ بدلنے سے ہی بڑی تبدیلی آجائے ہمارا پا کستا ن تبدیل ہو جا ئے بلکل ایسا پاکستان جس کی بابائے قوم نے ہمارے آباء نے خواب دیکھے تھے موضوع کے اعتبار سے اس مضمون میں ہماری خا میوں کی نشا ندہی کی ہے توساتھ تدار ک بھی بتا نے کی کو شش کی ہے بقول شاعر ۔ شائد کہ اتر جا ئے ترے دل میں میری بات ۔۔۔
Ainee Niazi
About the Author: Ainee Niazi Read More Articles by Ainee Niazi: 150 Articles with 147445 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.