ہسپانیہ:موبائیل فون کی لت کا علاج

ہسپانیہ میں ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق دو بچوں کو موبائیل فون کی لت سے بچانے کے لیے ذہنی امراض کے علاج کے ایک ادارے میں داخل کیا گیا ہے۔
بچوں کی عمر 12 اور 13 سال ہے اور انہیں ان کے والدین نے انسٹی ٹیوٹ میں داخل کروایا ہے۔

بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ وہ موبائیل فون کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ فون کے بغیر وہ کوئی بھی کام نہیں کرسکتے ہیں اور ہر وقت موبائیل فون پر باتیں کرتے رہتے ہیں۔

بچے فون کی وجہ سے اپنے روز مرہ کے کام کرنے میں تو ناکام تھے ہی اس کے علاوہ وہ پڑھائی پر دھیان نہیں دے پا رہے تھے اور موبائیل کے خرچ کے لیے رشتہ داروں سے جھوٹ بول کر پیسے لینے لگے تھے۔

شمال مشرقی ہسپانیہ کے شہر بارسلونا کے قریب لیدا میں واقعے ذہنی امراض کے ادارے کت سربراہ ڈاکٹر میتی اتگیس کا کہنا ہے کہ یہ پہلی بار ہے جب اسپتال ایسے بچوں کا علاج کا کررہا جو موبائیل فون کی لت کا شکار ہیں

ہسپانوی ذرائع ابلاغ میں ڈاکٹر میٹی اتگیس کا ایک بیان شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ’ان دونوں بچوں کا برتا‎ؤ معمول کا نہیں تھا۔ وہ اسکول میں فیل ہورہے تھے اور ان دونوں کو معمول زندگی گزرانے میں بھی مشکلات پیش آ رہی تھیں۔‘

دونوں بچوں کو تین مہینے تک فون کے بغیر رکھا جائے گا اور ڈاکٹروں کے مطابق اب وہ فون کے بغیر جینا سیکھ رہے ہیں۔
 

دونوں بچوں نے 18 مہینے پہلے فون خریدے تھے اور ان کے والدین نے شروعات میں تو ان کے موبائیل فون کے شوق پر دھیان نہیں دیا لیکن جب بچے اس کے عادی ہوگئے تب انہیں لگا کہ بچے فون پر کچھ زیادہ ہی منحصر ہوتے جا رہے ہیں اور اس کے سبب ان کی زندگی متاثر ہورہی ہے۔

کسی بھی قسم کی لت کے علاج کی ماہر ڈاکٹر جوز مارٹینز راگا کا کہنا ہے کہ جن بچوں کو ویڈیو گیمز کے عادی لوگوں کی طرح موبائیل فون کی لت لگ جاتی ہے وہ چڑچڑے ہوجاتے ہیں، تنہا رہنا پسند کرتے ہیں اور اسکول میں کارکردگی خراب ہوتی چلی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان دو بچوں کا معاملہ صرف ایک شروعات ہے، مستقبل میں موبائیل فون کی لت زیادہ ہوگی اور یہ ایک خطرناک بات ثابت ہوسکتی ہے۔

دنیا کے کئی ممالک موبائیل فون کے بڑھتے شوق اور اس کے منفی اثرات کے بارے میں پہلی ہی فکر مند ہیں۔ ان میں ایک ملک ہندوستان بھی ہے جہاں کی بعض ریاستوں میں اسکول میں بچوں کے موبائیل فون پر پابندی عائد کردی گئی ہے اور دارالحکومت دِلی میں بھی سکول میں فون کے استعمال کو ناپسند کیا جارہا ہے۔

ڈاکٹر اتگیس کا کہنا ہے کہ والدین بچوں کو 16 برس عمر سے پہلے فون نہ دلوائیں۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE: