کامیاب سیاسی جلسے اور بے شعور و جاہل مجمعے

ملک کی اکثریتی آبادی کے پڑھے لکھے اورباشعور افراد جب تک اس سیاسی کلچر کو بدلنے کے لئے گھروں سے باہر نہیں نکلیں گے، یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا، اور اسی طرح سے بے شعور اور جاہل اور مفاد پرست مجمے اور ان کے لیڈر ملک اور قوم کی تقدیر سے کھیلتے رہیں گے۔ اور ایک باصلاحیت قوم ایک بے صلاحیت اور کرپٹ سیاسی نظام کے رحم و کرم پہ زندگی کے ہر شعبے میں زوال کا شکار رہے گی۔قدر ت کا اپنا ایک قانون ہے، جو قومیں اپنی حالت کو خود بدلنے کی کوشش نہیں کرتیں، ان کی حالت نہیں بدلی جاتی۔
نصف صدی سے وطن عزیز پہ مسلط سیاسی نظام نے وطن عزیز کو معاشی طور پہ دیوالیہ اور سیاسی عدم استحکام سے دوچار کیا ہوا ہے، خاص طور پہ معاشی دیوالیہ پن صرف اس وجہ سے ہے کہ حکمران خاندانوں نے ہر دور میں عوام کے نام پہ بیرونی سامراجی اداروں سے قرضوں پہ قرضے لئے اور اپنی تجوریاں اور بینک بیلنس بنائے، آج ہمارے تمام حکمران چاہے ان کا تعلق اقتدار سے ہو یا اپوزیشن سے سب نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں، اور اس قوم کو غربت و افلاس کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔
ملک کے سیاسی اور معاشی نظام نے عوام کا جینا دو بھر کیا ہوا ہے، سیاسی نظام کا کمال تو یہ ہے کہ اس کے کرتا دھرتا ، اتنے تجربہ کار ہو چکے ہیں کہ کئی سالوں سے عوام کو بے وقوف بنانے کا ریکارڈ بنا چکے ہیں، کمال مہارت سے بیوقوفوں اور بے شعوروں پہ سرداری قائم کر رکھی ہے۔اس کرپٹ سیاسی نظام اور قیادت نے نیچے سے لے کر اوپر تک کرپشن اور بے انصافی کا ایک ایسا نظام قائم کر دیا ہے کہ کسی ادارے سے بہتری کی امیدیں بھی دم توڑ رہی ہیں۔

تہذیب یافتہ اقوام وہ ہوتیں ہیں جو اپنے قائدین کے کردار پہ نظر رکھتی ہیں، اور اگر ذرا بھی بدیانتی نظر آئے تو باقاعدہ احتساب کرتی ہیں، ہمارا تعلق تو اس مسلمان قوم سے ہے جس کے ماضی کی تاریخ بتاتی ہے کہ’’ اپنے وقت کے خلیفہ سے بھی بھرے مجمعے میں اس کے اخراجات کے بارے میں سوال اٹھایاجا سکتا ہے‘‘ لیکن ہم نے ان ساری اخلاقی قدروں کو بھلا دیا، آج یورپین اقوام ہم سے بازی لے گئیں، ان کے ہاں کوئی لیڈر کرپشن کے الزام کے ساتھ ان کی حکومت میں یا قیادت میں ٹھہر کے دکھا دے۔ وہ اسے چند دنوں میں اقتدار اور بلکہ سیاست سے بے دخل کر دیتے ہیں۔ اور ان کے ہاں لیڈر بھی عوام سے زیادہ تہذیب یافتہ ہیں ، وہ اپنے اوپر کرپشن کے الزام کے ساتھ کبھی اقتدار میں یا قوم کی قیادت میں رہنا گوارا نہیں کرتے ہیں کیونکہ یہ قوم کی عزت کا سوال ہوتا ہے، اگر کسی قوم کا لیڈر کرپشن میں مشہور ہو تو لا محالہ قوم کی بد نامی ہو تی ہے۔

لیکن ہمارے ہاں صورتحال یکسر مختلف ہے، نہ عوام کے پاس احساس زیاں ہے اور نہ ہی لیڈروں کے پاس احسا س ندامت، ہر دور میں مہنگائی ، بے روز گاری، بجلی، گیس اور بے انصافی کا رونا پیٹنے والی عوام، اپنی پوری توانائی سے ہر اس استحصال کرنے والے سیاسی گروہ کا خوب دل کھول کر استقبال کرتی ہے، ڈھول کی تھاپ پہ خوشی منائی جاتی ہے، اور پھر ترقیاتی کاموں کے جھوٹے اعلانات پہ زندہ بادنعرے بلند کئے جاتے ہیں، سیاستدان انتہائی مسرت کے ساتھ سٹیج پہ کھڑے ہو کر اپنی نام نہاد سچائی، عوامی خدمت اور اپنے سامنے لوگوں کے جم غفیر پہ خوب فخر کرتا ہے اور یہ تاثر دیتا ہے کہ وہ جمہور کا پسندیدہ نمائندہ اور لیڈر ہے،اسے جمہور اور جمہوریت کا نمائندہ اور لیڈر بنانے والے بے شعور اور جاہل مجمعے اسے تو اس کی کرپشن کے اس عمل میں کامیاب بنانے میں کردار ادا کرتے ہیں، جتنا قومی مجرم یہ جھوٹا اور کرپٹ سیاستدان ہوتا ہے اس سے زیادہ بڑے مجرم اسے اس مقام پہ پہنچانے والے ہوتے ہیں، ایسے کئی سیاسی جلسے جو کہ عوامی قوت کا مظاہرہ کہلاتے ہیں ان میں شریک ہونے یا شریک کئے جانے والے عوام جھوٹے اعلانات، دعوؤں کو ہر الیکشن کے دنوں میں سنتے ہیں، خوب تالیاں بجاتے ہیں، اور پھر اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں، میگا پراجیکٹس کے خواب دکھانے والے بھی نہیں تھکتے اور دیکھنے والوں کی بھی آنکھیں نہیں کھلتیں، یہ ائر پورٹ، پلوں، موٹر وے سے ایک عام غریب آدمی کا کیا لینا دینا، اسے تو سستا آٹا، دال، چینی، گھی چاہئے ،پینے کاصاف پانی چاہئے، اسے اچھا ہسپتال چاہئے،اس کے بچوں کیلئے سستی اور میعاری تعلیم چاہئے،اسے روزگار چاہئے، تھانے کچہری میں آسان اور سستا انصاف چاہئے، جان و مال کا تحفظ چاہئے، گندگی سے پاک ماحول چاہئے، سینی ٹیشن کا مناسب نظام چاہئے، یہ سب بنیادی ضروریات میں شامل ہیں ان سے جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھا جا سکتا ہے، ہم عوام کو اپنے ارد گرد نظریں دوڑانی چاہئیں کہ کیا یہ بنیادی ضروریات کی تکمیل ہو چکی ہے، کہ اب ہم مزید ترقی کا سوچیں؟

جھوٹے اور کرپٹ لیڈروں کے جلسوں کو کامیاب بنانے والے یہ مجمعے یقیناً بے شعوری ا ور جہالت کی غمازی کرتے ہیں،اگر ان مجمعوں میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت موجود ہوتی تو یقیناً وہ پچھلی باتیں ضرور یاد رکھتے، گذشتہ وعدوں کا تجزیہ کرتے، گذشتہ دعوؤں پہ عمل در آمد دیکھتے، اپنی بنیادی ضروریات اور سہولیات کی بہتری کا جائزہ لیتے، ملکی تجارت، معیشت کی بد حالی میں ان سیاسی لیڈروں کے کردار کو جانچتے، ان سیاسی لیڈروں کی کرپشن اور ان کی مالی آسودگی اور ملکی خزانے کی بدحالی کا تقابلی جائزہ لیتے، اور پھر فیصلہ کرتے کہ کس کو ملکی اقتدار کی یہ اہم ذمہ داری سونپیں، لیکن ہمارے معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا، جلسوں میں شریک ہونے والے اکثریتی افراد ان تمام احساسات اور شعور سے عاری ہوتے ہیں، ملک کی اکثریت جن میں زیادہ تر پڑھے لکھے افراد جوسول سوسائٹی کہلاتی ہے جو باشعور افراد ہوتے ہیں وہ صرف ٹی وی چینلز پہ جلسوں کی جھلکیاں دیکھنے اور ان جھوٹوں اور کرپٹ لیڈروں پہ لعن طعن کرنے پہ اکتفا کرتے ہیں۔اب اگر اس ملک کے بیس کروڑ میں سے دو چارکروڑ جاہل ا ور بے شعور ووٹننگ میں حصہ لیتے ہیں اورقومی اور صوبائی اسمبلیوں کو منتخب کرنے اور ان نام نہاد لیڈروں کے جلسوں کو کامیاب کر نے میں حصہ لیتے ہیں تو اس سے اسی قسم کا موجودہ سیاسی نظام اور کلچر وجود میں آئے گا۔

ایسے حکمران جو عوام کو نصف صدی گذرنے کے باوجود بنیادی ضروریات مہیا نہ کر سکیں،وہی چہرے، ان ہی کے خاندان نسل در نسل، جھوٹ اور دھوکہ دہی کی سیاست کر رہے ہیں ۔لیکن ہماری بے شعوری کی انتہا ہے، بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی طرح سیاست دان ہمیں ہانکتے ہیں اور ہم ان کے مفادات کی تکمیل میں مصروف ہو جاتے ہیں۔حیرت تو یہ ہے کہ آئے دن ہمارے سیاستدانوں ، حکمرانوں کے بارے میں ان کی کرپشن، جھوٹ اور ملک و قوم سے بددیانتی کے قصے زبان زد عام ہیں لیکن مجال ہے، ہم نے کبھی غور کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کی بجائے اپنے قیمتی ووٹ کو ہمیشہ اپنی ہی ذلت ، غربت و افلاس کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اورہم میں سے تو کچھ ایسے ہیں جو اپنے وقتی مفادات کے لئے، اپنی برادری اور رشتہ داری کے لئے، اپنی جائدادوں اور اپنی تجارت کو تحفظ دینے کے لئے، کچھ اپنے آپ کو قانون کے شکنجے سے بچانے کے لئے ان حکمران طبقات سے مل جاتے ہیں اور اس طرح سے یہ ایک ایسا نیٹ ورک وجود میں آ جاتا ہے جو اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ہم سب ایک ایسی مجرمانہ غفلت کا شکار ہیں جس کا خمیازہ بہرحال ہمیں بھگتنا ہے۔اس ساری خرابیوں کی ذمہ داری ان امیدواروں اور ان ووٹروں پہ عائد ہوتی ہے جو اس ملک اور قوم کی تقدیر کے ساتھ کھیل رہے ہیں، لیکن یاد رکھنے کی بات ہے کہ جب تباہی و بربادی آتی ہے تو پھر کسی کا گھر محفوظ نہیں رہتا۔

اگر پاکستانی الیکشن کا تجزیہ کیا جائے تو ملک کی اکثریتی سمجھدار آبادی اپنے ووٹ کا استعمال نہیں کرتی، ان میں وہ لوگ شامل ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ موجودہ سیاستدان کرپٹ اور نااہل ہیں، انہوں نے ملک کو نصف صدی سے نقصان پہنچایا ہے تو اب کبھی بھی اس میں بہتری نہیں آ سکتی،لہذا وہ کنارہ کشی کی زندگی گزار رہے ہیں، لیکن انہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ ان کی اس کنارہ کشی کی وجہ سے یہی مکار سیاسی گرو ان پڑھ اور بے شعور عوام کے ایک طبقے کو استعمال کر کے ہردفعہ اس ملک کو تباہی و بربادی کی اگلی سٹیج پہ پہنچا رہے ہیں، اگر یہ الیکشن کے عمل سے کنارہ کش لوگ اسی طرح اس سلسلے کو چلنے دیں گے تو اس جرم میں وہ بھی برابر کے شریک ہیں، انہیں چاہئے کہ اپنے گھروں سے نکلیں اور ان مفاد پرستوں کے چنگل سے اپنے ملک اور قوم کو آزادی دلائیں۔ ایسی قیادت کو سامنے لائیں جو معاشرے کی حقیقی ترقی پہ کام کرے لوگوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرے، سچائی اور دیانت داری کے ساتھ ملک و قوم کے وسائل کو خرچ کرے، ملک کو تعلیم، معاشی میدانوں میں ترقی سے ہمکنار کرے، اپنے ذاتی مال و متاع بنانے کی بجائے قوم کی ترقی پہ اپنی توجہ مرکوز رکھے، اس ملک کو ایک ایسا جمہوری سیاسی نظام میسر آئے، عوام جب چاہئیں آزادی کے ساتھ اپنے ووٹ کا فیصلہ دے سکیں۔

ملک کی اکثریتی آبادی کے پڑھے لکھے اورباشعور افراد جب تک اس سیاسی کلچر کو بدلنے کے لئے گھروں سے باہر نہیں نکلیں گے، یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا، اور اسی طرح سے بے شعور اور جاہل اور مفاد پرست مجمے اور ان کے لیڈر ملک اور قوم کی تقدیر سے کھیلتے رہیں گے۔ اور ایک باصلاحیت قوم ایک بے صلاحیت اور کرپٹ سیاسی نظام کے رحم و کرم پہ زندگی کے ہر شعبے میں زوال کا شکار رہے گی۔قدر ت کا اپنا ایک قانون ہے، جو قومیں اپنی حالت کو خود بدلنے کی کوشش نہیں کرتیں، ان کی حالت نہیں بدلی جاتی
Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 136842 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More