چیف جسٹس صاحب کی ذمے داریوں میں اضافہ

 ہر باپ کے لئے بیٹا بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ آگے چل کر خاندان کی باگ دوڑ اس کے بیٹے نے ہی سنبھالنی ہوتی ہے ہر خاندان میں بیٹے کو ثانوی اہمیت حاصل ہوتی ہے ۔

سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب سجاد علی شاہ صاحب کے بیٹے اویس علی شاہ کو کراچی شہر کے مصروف و معروف علاقے سے اغوا کیا گیا تھا ۔جن کی بازیابی کا عمل گزشتہ دنوں پایہ تکمیل کوپہنچا ،جو کہ خوش آئند ہے۔اویس شاہ کی بازیابی میں پاک فوج کا کردار قابل تعریف ہے۔2011 میں گورنر پنجاب جناب سلمان تاثیرمرحوم صاحب کے بیٹے کو اغوا کیا گیا تھا جوپانچ سال بعد بازیاب ہوئے۔اسی طرح 2013 میں جناب یوسف رضا گیلانی صاحب کے بیٹے کو اغوا کیا گیا جن کو افغانستان میں آپریشن کر کے بازیاب کرایا گیا ۔یہ بات اس لحاظ سے بہت خوش آئند ہے کہ ہماری سیکیورٹی ایجنسیز والدین کے اُس درد کو اُس تکلیف کو سمجھتی ہے جو اغوا ہونے والے والدین کے دل پر گذر رہی ہوتی ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ کچھ سوال جنم لیتے ہیں جو بہت ہی تکلیف دہ ہیں ۔جن مغویوں کو آج تک بازیاب کرایا گیا ہے ان سب کا تعلق اعلیٰ طبقے سے ہے ۔ایک سابق وزیر اعظم کا بیٹا تھا ،ایک سابق گورنر پنجاب کا بیٹا تھا اورایک چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کا بیٹا تھا ۔صد شکر کہ چیف جسٹس صاحب کے بیٹے اویس شاہ کو بغیر کسی نقصان کے بازیاب کرالیا گیا اور انکے اغوا میں ملوث مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچادیا گیا ۔لیکن اسکے بعد ہم سمجھتے ہیں کہ چیف جسٹس صاحب کی ذمے داریوں میں مزید اضافہ ہو گیاہے کیونکہ انصاف کے ترازو کے سامنے جس کرسی پربیٹھ کر وہ انصاف کر رہے ہوتے ہیں وہ سوال کرتی ہیں کہ کیا غریب کا بیٹا ،بیٹا نہیں ہوتا ؟ تمام پرنٹ میڈیا ،الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈ یا پر چھپنے والی وہ تصویر جس میں آپ اپنے بیٹے کا بوسہ لے رہے ہیں کیا اس تصویر نے ان والدین کے زخموں پر نمک پاشی نہیں کی ہو گی جن کے بیٹوں کو اس وحشت ذدہ شہر سے دن دیہاڑے اغوا کر لیا جاتا ہے اور اب تک نہ جانے کتنے والدین کے لخت جگر کو اغوا کر لیا گیا ہے، جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ایسے غریب مغوی یا تو اپنی خوش قسمتی سے یا پھر اپنے والدین کی دُعاؤں کی بدولت ہی گھر واپس آپاتے ہیں اور اپنے والدین کے کلیجوں کو ٹھنڈک دے پاتے ہیں یا پھر اپنی زندگی کی خون پسینے کی کمائی کو گنواکر یا قرض لے کر ان کی واپسی ہو پاتی ہے بہت سوں کو تو اس دُنیا ہی سے رخصت کر دیا گیا ہو گا وہ اب کبھی بھی اپنے والدین کے کلیجوں کو ٹھنڈک نہیں دے پائیں گے گزشتہ کئی سالوں سے یہ سلسلہ جاری ہے جناب ایسے مغویوں کی فہرست طویل ہوتی جا رہی ہیں ۔ابھی چند دنوں قبل عباس ٹاؤن کراچی سے ایک صحافی زوہیر علی زیدی اپنے گھر سے ڈیوٹی جاتے ہوئے نکلے اور اغوا ہو گئے جن کا اب تک کچھ پتہ نہیں چل سکا۔کیا ان کا شمار اُن بیٹوں میں نہیں ہو تا جن کے والدین کرب و اذیت میں مبتلا ہونگے ۔ غریب مغویوں کے لئے ہماری سیکیورٹی ایجنسیز اس طرح حرکت میں کیوں نہیں آتیں ،جیسا کہ اہم شخصیات کے بچّوں کے اغوا کے بعد آتی ہیں؟اس کا جواب واضح ہے کہ انکی رسائی حکومتی ایوانوں سمیت اعلی سیکیوریٹی عہدیداروں تک نہیں ہے اور نہ ہی انکی رسائی قانون کی د ہلیزتک ہو پاتی ہے ۔ جناب چیف جسٹس صاحب ! اویس علی شاہ کی بازیابی کے بعد انصاف کے پلڑے اب آپ سے تقاضا کرتے ہیں کہ قانون کو اب اپنی آنکھوں سے پٹی اتاردینا چاہیئے کیونکہ انصاف تو سب کے لئے برابری کا تقاضا کرتا ہے۔ لیکن اس ملک میں جو توقیر اور برتری اعلیٰ طبقے کے اعلیٰ و ارفع شرفاء کو حاصل ہے اس کا عُشرعشیر بھی عام آدمی کو حاصل نہیں مساوات اوربرابری کی باتیں صرف تقاریر اور مسجدوں کے منبر تک رہ گئی ہیں۔خدارا ! زوہیر علی زیدی جیسے بیشمار نوجوانوں کے لئے بھی ایسی ہی کاوشوں کا آغاز کیا جائے تاکہ احساس محرومی کے بادل چھٹ سکیں اور عام آدمی بھی یہ محسوس کرسکے کہ عام آدمی کی اولاد اور اویس علی شاہ دونوں برابر ہیں ورنہ بڑھتی ہوئی ا حساس محرومی کی کوکھ سے بغاوت ہی جنم لیتی ہے۔
Sheikh Muhammad Hashim
About the Author: Sheikh Muhammad Hashim Read More Articles by Sheikh Muhammad Hashim: 77 Articles with 91303 views Ex Deputy Manager Of Pakistan Steel Mill & social activist
.. View More