نفرت نہیں محبت

جدھر نگاہ ڈالئے گستاخ لہجہ، بے باک جملے، عریاں نظارے ،پُر فریب ادائیں، غمز اور عشوہ طرازیاں۔
ایسے میں قلم کی حرمت اس کا وقار اور اسلوب بیاں معتبر رکھنا مشکل ہو جاتا ہے ۔تب دل چاہتا ہے قلم ہاتھ سے رکھ دیا جائے۔ مگر کب تک؟
جسم سے جاں رگوں سے لہو دل سے دھڑکن ذہن سے سوچ قلم سے لفظ کب تک دور رہ سکتے ہیں۔ روحانی نفسیاتی اور جسمانی اور قلمی موت سے بچنے کے لئے انہیں بحر حال ایک دوسرے کی رفاقت لبھانی ہی پڑتی ہے۔ یہی قانونِ فطرت ہے۔
پرسوں صبح صبح ناشتے کے لئے چائے بناتے ہوئے ذرا کی ذرا سوچ کے دَر وَا ہوئے تھے کہ اندوھناک چیخوں سے پورا محلہ گونج اٹھا۔
بچاؤ، بچاؤ۔
دوڑ کر گیٹ کھولا قریب ہی ایک مکان سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ آگ بجھتے بجھتے بھی ایک نرم و نازک دھان پان سی زندگی کو چاٹ چکی تھی ۔ خود کشی سراسر خودکشی ۔
کیوں؟ کیسے؟ ہر نگاہ میں ایک ہی سوال تھا ۔ جواب دینے کی کسی میں ہمت نہیں تھی ۔ مختلف جواز، مختلف بہانے سنائی دیئے مگر ایک انسان وہ بھی سراپا چڑیا کا سا دل یوں تو زندگی سے ہار نہیں مانتا یوں موت کو گلے نہیں لگا سکتا۔ جب وجہ اتنی بری اور سفاک ہو کہ بتائی نہ جا سکے جب لوٹنے والے خونخوار آس پاس ہی آ بسے ہوں ، جب انسانوں کے جنگل میں رہنا پڑ جائے تب ایسا وقت کسی پر بھی آ سکتا ہے ۔ مجھے پتہ تھا اس مکان میں ایک نہ ایک دن ایسا ہونا ہی تھی۔ لوگ لاوارث، عزیز رشتہ دار لڑکیوں کو اپنے گھر رکھ تو لیتے ہیں، مگر ان کی حفاظت کا حق ادا کرنا نہیں جانتے تب آن بچاتے ہوئے جان قربان کر دینا ہر عفت مآب کا اصول ہے۔ اور اس معصوم سترہ سالہ بچی نے اسی اصول کو اپنا لیا۔ میں نے احتجاج کے لئے کاغذ اور قلم کا سہارا چاہا مگر قلم انگارے اگلنے لگا۔
’’امی امی مارکیٹ سے سی آئی اے والے چارلڑکوں کو پکڑنے گئے ڈکیتی کے کیس میں جب ان پر مار پڑے گی تو وہ دوسرے لڑکوں کے نام بتادیں گے کتنے دنوں سے یہی ہو رہا ہے ۔ پولیس ان لڑکوں کو چھوڑ دیتی ہے اور نئے لڑکوں کو پکڑ کر لے جاتی ہے۔‘‘
’’ہا ں بیٹے اب تو یہی کچھ ہو گا ۔ جب جان توڑ محنت کے بعد معاوضہ نہ ملے، مزدور کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرنے کے بجائے اگلے دن پر ٹال دی جائے اور ذہن کی ساری توانائیاں نچوڑ دینے کے باوجود کسی کا نمبر آگے اور کسی کا پیچھے کر دیا جائے نقل کرنے والے گریڈ۔ون لے جائیں اور امتحانی کاپی پر دماغ کو منتقل کرنے والے منہ دیکھتے رہ جائیں جب ہنر مند کاریگر اور اہل فن کو ہر آفس پر آسامیاں خالی نہیں کا بورڈ نظر آئے۔ تب انتقام کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ ناانصافیاں ، بغاوت کو جنم دیتی ہیں توڑ پھوڑ چھینا جھپٹی شروع ہوتی ہے۔ اندر کا شور باہر آ جاتا ہے۔ اور اسکوٹروں سے سائیلنسر نکال کر توانا جسم سڑکو ں پر وہ کچھ کرتے ہیں جس کا تصور بھی مشکل ہے۔میں نے دیکھا قلم ندامت کے پیشوں میں ڈوب چکا تھا۔
’’مامی جی آصف بتا رہے ہیں کہ ماہین کو اس کی سسرال والوں نے میکہ واپس بھیج دیا ہمیشہ کے لئے ،ہائیں کیوں؟ بس وہی لاکھوں کا جہیز نہ ملنے کا نتیجہ۔
…… اُف ……اُف۔ رحم خدایا۔ رحم کر۔
حُسن سیرت، پاکیزہ کردار، ہنرمندی، سلیقہ شعاری، صبر و ضبط، قناعت و استغنا کمال درجے کی انتظامی صلاحیت یہ سب …… یہ سب ہنر عیب کیسے بن گئے؟ نہ ہی سرخ و سفید رنگت اور نہ ہی تیکھے نین نقش کام آئے۔
مامی جی انہو ں نے ماہین کی وہ حالت بنا دی ہے کہ دیکھی نہیں جاتی لگتا ہے سسرال میں نہیں عقوبت خانے میں رہ کر آئی ہے رو رو کر پلکیں تک جھڑ گئیں۔ چہرے پر فقط ناک ہی ناک نظر آتی ہے۔ بڑی بڑی آنکھیں ڈگر ڈگر حلقوں میں بے رونق چمک سے محروم ہیں۔ جھلسا ہوا رنگ تباہ حال ہائے مامی آصف کہہ رہے تھے نجمہ تم بھی دیکھو گی تو پہچان نہیں سکو گی۔ صرف چھ ماہ میں یہ حالت بنی ہے۔ آپ نے بھی شادی میں دیکھا تھا اسے کس قدر پیاری صحت سے بھرپور حسین لگ رہی تھی۔
’’ہاں بیٹی ایک وقت تھا ہم نے سسرال میں چہروں پر گلاب کھلتے اور آنکھوں میں ہیرے جگمگاتے دیکھے تھے۔ اب قسمت میں یہ بھی دیکھنا تھا وقت نے تو کیسی خوفناک کروٹ بدلی ہے۔ اس ہستی کو جسے نبی اکرم ﷺ نے آبگینے سے تشبیہ دی تھی اس کی ایسی ناقدری پر قلم آنسوؤں میں ڈوب کر پھر نہ چل سکا۔
بیٹی کے لئے میٹرک کا رجسٹریشن فارم لینا تھا۔ گھر سے روانہ ہوئی تھی بس اسٹاپ پر دیکھا پختہ بنی ہوئی بینچوں پر کوئی بے سدھ پڑا تھا۔ مکھیاں آس پاس منڈلا رہی تھیں، دو چار منہ پر بھی بیٹھی تھیں۔
’’یہ لڑکے آخر نشہ کیوں کرتے ہیں؟ ایک صاحب سوال فرما رہے تھے لڑکے بھولے تھے وہ صاحب؟ وہ صاحب یہ نہیں جانتے تھے کہ حالات اور واقعات کس رُخ پر جا رہے ہیں۔ کیسے کیسے مہیب اور گھمبیر مسائل لوگو ں کا لہو چاٹ رہے ہیں یہ بچے یہ نوجوان یہ ہمارا کل کا مستقبل جب اپنے مستقبل سے مایوس ہوتے ہیں تو چاہتے ہیں کہ آنکھیں موند کر پڑرہیں۔ اور اس وقت آنکھیں کھولیں جب سارے مسائل حل ہو چکے ہوں جذبے تو عمر کے ساتھ ہی ہستی پر اترنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ نوخیز جذبے، مدھر جذبے، سہانے جذبے پر نوجوان سوچتا ہے جب وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے گا تب ایک حیاء دار شرمیلی باوفا دوشیزہ کا ہاتھ تھام کر شاہراہ حیات پر اعتماد سے منزل کی طرف گامزن ہو جائے گا اور وقت گزرنے پر ایسی کسی دوشیزہ کا انتخاب اپنے بیٹے کے لئے کرے گا۔ وہ عفت مآب لڑکی جو آنچل کو اپنے سر سے ڈھلکنے نہ دے اس کی بہو بنے گی۔ مگر آہ…… کوئی غاصب ، کوئی راشی، کوئی سفارشی، اس کے پیروں تلے سے زمین کھینچ لیتا ہے۔ اور وہ دھڑام سے کسی بس اسٹاپ ، کسی بینچ، کسی پارک کے گوشے یا کسی نالے کی دیوار کے ساتھ ،کسی پل کے نیچے خاک دھول میں لونٹے لگاتا ہے۔ اپنے آپ ایسا بے خبر اپنے مستقبل سے بے پرواہ رگوں میں اندھیرا اتار کر خود اندھیروں میں حقیر بے پرواہ معمولی کیڑے مکوڑوں کی طرح رینگنے لگتا ہے۔غم و اندوہ کا زہر نس نس میں سرایت کر جائے تو قلم سے بھی ٹپک سکتا ہے ۔ پھر لکھنے کا فائدہ؟
’’شارق بیٹے اداس کیوں ہو؟ امی جان میں اداس تو نہیں فکر مند ضرور ہوں دھیمے لہجہ میں جواب ملا۔ مگر کیوں؟ کل رات ہمارے پانچ ساتھیوں کو مخالف گروہ نے مارا پیٹا اور دھمکیاں دیں۔
اچھا ۔ مگر جرم کیا تھا۔ ان سب کا؟
جرم؟……وہی کہ امن و آشتی کی بات نہ کی جائے صلح کے جھنڈے نہ گاڑے جائیں۔ ایک پرچم کے تلے نہ بلائے جائیں پیار و محبت کے پھریرے نہ لہرائے جائیں۔
ایسا کیوں ہے بیٹا؟…… ایسا کیوں ہے؟ نمکین آنسوؤں کا گولہ حلق میں پھنسنے لگا ۔
امی جان جن لوگوں کو عفو و درگزر، صبر و تحمل، افہام و تفہیم گھٹی میں نہ پلائی جائے جو منتشر پراگندہ خیالات رکھنے والے گودوں میں پل کر جوان ہوئے۔ اور وہ تو امن کے پیغام کو رد ہی کریں گے۔ تعمیر کی کوشش کو تخریب میں بدلنے پر ہی آمادہ ہوں گے ہی۔
ہاں بیٹے جب مائیں ہی محبت، ایثار ، قربانی کے جذبے سے خالی ہوں تو نسل میں انتقام، عداوت ، نفرت ہی منتقل ہو گی جانے کیا ہو گا؟…… جانے کیا ہو گا؟ اضطراب پور پور میں کروٹیں لینے لگا۔
امی جان دل برداشتہ نہ ہوں سنیئے رب العالمین نے کیا فرمایا ہے اس نے کیسٹ لگا کر ٹیپ آن کیا۔
یا ایھا الذین امنوواستعینوا باالصبر و صلواۃ ان اﷲ مع الصابرین۔
ترجمہ:۔ اے لوگو! جو ایمان لائے ہیں صبر اور نماز سے مدد لو اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔اور نماز سے مدد لو اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
ہاں ۔ میں نے سکون سے آنکھیں موند لیں۔ یہ امرت، یہ شہد کیسا کانوں میں ٹپکا دیا تھا۔ اس امید پر کہ سب سے بڑی طاقت ہمارے ساتھ ہے۔ ایک مقتدر ہستی جزا وہ سزا دینے اور انصاف کرنے والی ہے۔ اس آس پر جیا جا سکتا ہے ۔ یوں لگا قلم کی توانائی ٹوٹ آئی ہے۔ لفظو ں کا
دریا پھر سے رواں دواں ہے۔ ہاں اس قلم کو نشتر نہیں مرہم بننا ہو گا۔ زہر نہیں امرت بانٹنا ہو گا۔ نفرت نہیں محبت تقسیم کرنے ، توڑنے کے بجائے جوڑنے ، بگاڑنے کے بجائے سنوارنے کاکام کرنا ہو گا انشاء اﷲ ایسا ہی ہو گا۔
Aasia Abdullah
About the Author: Aasia Abdullah Read More Articles by Aasia Abdullah: 23 Articles with 20381 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.