کیا بہار میں نتیش کے رہتے ہوگی

'' جنگل راج -2 '' کی واپسی؟
بہار اسمبلی انتخابات 2015 سے پہلے جب نتیش کمار نے عظیم اتحاد کی بنیاد رکھی، تبھی لگنے لگا تھا کہ، بہار میں انتخابات کے بعد نتیش کمار کی واپسی ہوگی۔ سیاسی گلیاروں میں اس عظیم اتحاد کے سلسلے میں کئی طرح کی بحثیں چلیں۔ مثلا ًیہ عظیم اتحاد انتخابات تک ساتھ رہے گا یا بکھر جائے گا؟ سیٹوں کا بٹوارہ کیسے ہو گا؟ آر جے ڈی سپریمو لالو پرساد نتیش کو لیڈرمانیں گے یا نہیں؟ وزیر اعلیٰ کاچہرہ کون ہوگا؟ تمام امکانات کو مسترد کرتے ہوئے عظیم اتحاد کے رہنماؤں نے نہ صرف سیٹوں کا بٹوارہ باہمی تال میل سے کیا بلکہ ہر حساس معاملے کو حل کرنے میں سیاسی سوجھ بوجھ کا ثبوت دیا۔

نتیش کمار لوک سبھا انتخاب 2014 کی کراری شکست کے بعد یہ سمجھ گئے تھے کہ بہار میں ترقی کی گاڑی کو آگے بڑھانے کے لئے صرف ترقی کی سیاست نہیں کی جا سکتی۔ وزیر اعلیٰ بنے رہنے کے لئے بھی ایسے ساتھی کی ضرورت ہے جس کے پاس کافی ووٹ بینک ہو۔ اس بات کو ذہن میں رکھ کر نتیش نے آر جے ڈی کا دامن تھاما جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ آر جے ڈی کا منظر نامہ ماضی میں جیسا رہا ہو یا حالیہ دور میں جیسا ہو، ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کے بہار کا ایک بڑا طبقہ آج بھی لالو پرساد سے بے حد محبت کرتا ہے۔

آج سیاست کی شکل خوفناک ہو گئی ہے۔ اچھے لوگوں کے لئے آج کی سیاست میں کوئی جگہ نظر نہیں آتی۔ آج کی سیاست فرقہ بندی، سیاسی حکمت عملی اور حکومت کی روزانہ کی سرگرمی سے غیر مہذب ہو گئی ہے، اس لئے شریف لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے اپنے آپ کو بچانے لگے ہیں۔ سیاست کی یہی حکمت عملی اب ہر جگہ دیکھنے کو مل رہی ہے۔ یہ کرسی اور طاقت کے لئے جدوجہد ہے اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس(Might be Right) پر اعتماد رکھتی ہے۔
’’ اوکشاٹ ‘‘ نے بالکل سچ ہی کہا ہے:
’’ سیاسی سرگرمیاں ایک خوفناک اور بے کنار سمندر کی مانند ہے جس میں ٹھہراؤ کا کوئی مقام ہے اور نہ کوئی مخصوص سمت ہے۔ ‘‘

آئیے اب ہم بہار کے حالات پر بحث ’’پیری کلیج ‘‘کی ان باتوں کے حوالے سے کرتے ہیں:
’’ہم اس شخص کو جو حکومت کے کاموں میں حصہ نہیں لیتا ہے نہ صرف نقصان دہ سمجھتے ہیں بلکہ بیکار بھی مانتے ہیں۔ ‘‘

بہار اسمبلی انتخاب سے پہلے عظیم اتحاد نے اپنا لیڈر نتیش کمار کو منتخب کیا اور وزیر اعلیٰ کے طور پر پیش کیا۔ عظیم اتحاد نے عوام میں یہ یقین پیدا کرنے کہ کوشش کی کہ نتیش کمار جس طرح بہار کو ترقی کی طرف لے جارہے ہیں اسی طرح آئندہ بھی بہار ترقی کی طرف گامزن رہے گا۔ اقتدار کی چابی نتیش کمار کے ہاتھوں میں ہوگی۔ عوام نے نتیش کمار پر بے پناہ اعتماد کرتے ہوئے انہیں بہار کی کرسی پھر ایک بار سونپ دی۔ لیکن تنقیدتب ہونی شروع ہوئی جب نتیش دوبارہ واپسی کے بعد بہار کے جرائم پیشے بے لگام ہو گئے۔ آئے دن قتل، اغوا، عصمت دری، لوٹ مار، چوری، ڈکیتی کی بے شمار واقعات سامنے آنے لگے۔ حال ہی میں کچھ واقعات فرقہ پرستوں کے ذریعہ اقلیتی کمیونٹی کے عبادت گاہوں اور ان کے مذہبی کتابوں کے ساتھ بے حرمتی کا معاملہ بھی سامنے آیا ہے۔ حکومت کو اب تین ماہ سے زیادہہونے کو ہے لیکن ان پر لگام لگانا تو دور عام انتظامی امور میں کوئی خاص اصلاح یا تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے۔ اب تو عوام یہ کہنے سے بھی نہیں چوک رہی ہے کہ بہار میں نتیش کے رہتے ہوئے کیا’’ جنگل راج -2‘‘ کی واپسی ہو جائے گی۔

نتیش کمار ایک منجھے ہوئے سیاست داں ہیں وہ بہار کو خوب جانتے ہیں اور اپنے موجودہ معاون کو بھی بخوبی پہچانتے ہیں۔ ایک طرف ان کے ساتھی مسٹر لالو پرساد یادو یہ کہتے ہیں کہ ’’ بہار میں ہر حال میں قانون کا راج قائم رہے گا‘‘ تو دوسری طرف یہ بھی کہتے ہیں ’’ وزارت داخلہ کا قلمدان وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے پاس ہے۔ اس لیے بہار کو جرائم سے پاک کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔‘‘

لالو پرساد کی دونوں باتوں کا مطلب کیا ہے یہ تو تجزیہ نگار ہی سمجھ سکتے ہیں۔ پر ایک بات تو صاف ہے کہ حکومت میں لالو پرساد سیدھا دخل رکھتے ہیں۔ ورنہ مسٹر لالو پرساد وزیر اعلیٰ کو مشورہ دینے والے کون ہوتے ہیں ؟ مسٹر پرساد کا IGIMS کا معائنہ کرنا بھی نتیش کمار کو حکومت میں اپنے وجود کا ثبوت دینا ہی تو ہے۔ ویسے نتیش کمار لالو یادو کی مذکورہ باتوں کو کہاں تک ہضم کرپاتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

نتیش کمار گڈ پرشاشن بابو کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ وہ ایک کامیاب سیاستداں اور ایڈمنسٹریٹر کی طرح ماضی میں جرائم پر کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کا نعرہ ’’انصاف کے ساتھ ترقی ‘‘ میں ان کے پرانے ساتھی نے بھرپور ساتھ دیا تھا۔ لیکن اب نتیش کمار کے ساتھی بدل چکے ہیں۔ بہار کی سیاسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ نتیش کے اس نعرہ ’’ انصاف کے ساتھ ترقی ‘‘ کو ان کے موجودہ اتحادی نظر انداز اور ان سنی کر رہے ہیں۔ جبکہذرائع کے مطابق دونوں لیڈروں اور دونوں جماعتوں کے درمیان باہمی اختلاف بھی بڑھ رہے ہیں۔

نامور جیوتش آچاریہ پنڈت شنکر شرن ترپاٹھی نے ایک سیمینار میں نتیش کے سلسلے میں پیشن گوئی کی جو یہ ہے کہ ’’وزیر اعلی نتیش کمار اب چاہے وزیر اعظم نریندر مودی کا خواہ جتنا اختلاف کر لیں لیکن آنے والے وقت میں دونوں رہنما پھر ایک ہوں گے۔ یعنی نریندر مودی اور نتیش کمار کا پھر ملن ہوگا۔‘‘

اب مستقبل چاہے جو ہو پر موجودہ صورتحال کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید پنڈت ترپاٹھی کی باتیں سچی ثابت ہوں۔ کچھ سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ نتیش نے بی جے پی سے الگ ہو کر بھاری بھول کئے ہیں۔ موجودہ اتحاد بے میل اتحاد ہے۔ دوسری طرف کچھ ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ فکری تصادم تھا جب تک متنازعہ مسائل پر دونوں کے درمیان اتفاق قائم تھا دونوں ساتھ تھے۔ اب جبکہ بی جے پی اپنے پرانے رنگ میں آ گئی ہے تو نتیش کو الگ ہو جانا ضروری تھا۔ سچائی کچھ بھی ہو سیاست میں اختلاف کو ایک فعال عمل تسلیم کرتا ہوں۔

بہر حال نتیش کا یہ کہنا کہ ’’ لوگوں نے مجھ پر اعتماد کیا ہے اس کو ٹوٹنے نہیں دونگا ‘‘ کہاں تک صحیح ہے۔ بہار میں جرائم پیشے واقعات سر چڑھ کر بول رہے ہیں۔ ان کے پرانے ساتھی بی جے پی کے اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر پریم کمار کہتے ہیں کہ ’’ بہارمیں جرائم کنٹرول سے باہر ہورہے ہیں اور نتیش حکومت جرائم پر قابو نہیں پاسکی تو حزب اختلاف کی قیادت میں عوام ہلا بولے گی۔ یہ اور بات کہ بھاجپا بھی کوئی دودھ کی دھولی نہیں ہے۔ آج پورے ملک میں جو دہشت گردانہ ماحول ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اس بات کو بی جے پی شاید بھول چکی ہے۔

بہار اسمبلی انتخابات میں مائی سمیکرن(My) کو اقلیتوں نے مضبوطی دی۔ جہاں ایک طرف یادو سماج نے 68 فیصد ووٹ عظیم اتحاد کو دیئے تو دوسری طرف مسلم کمیونٹی کے ووٹوں کا فیصد 85 رہا۔وہ بھی بلا مطالبہ اور غیر مشروط طور پر۔ واہ رے اقلیتوں کی سادہ لوحی۔

آج نتیش حکومت اقلیتوں کے بے پناہ حمایت کی بھی توہین کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اس حکومت نے ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ نئے کابینہ میں لئے گئے اقلیتی طبقہ کے وزراء کو اچھے محکمے نہیں ملے۔ آر جے ڈی کے قدآور لیڈر عبدالباری صدیقی کو چوتھے مقام پر وزیر مالیات تو بنایا گیا لیکن کامرس محکمہ کو اس سے الگ کر کے اسے غیر اہم کر دیا گیا۔ جے ڈی یو کوٹے پر خورشید عالم کو گنا محکمہ ملا۔ عبد الغفور اقلیتی وزیر تو کانگریس سے آئے عبدالجلیل مستان کی اکسائز محکمہ یعنی شراب بیچنے والا محکمہ دیا گیا۔ کیا یہی ہے نتیش حکومت کاانصاف ہے۔

مسلمان پورے ملک میں حاشیائی کمیونٹی بنتی جا رہی ہے کیونکہ دوسرے فرقوں کے مقابلے انہیں سماجی، اقتصادی ترقی کے اتنے فائدہ نہیں ملے ہیں جتنے دوسرے کو۔

آئیے ایک نظر سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی شرح پر ڈالتے ہوئے جو وزیر اعظم کی اعلیٰ سطحی کمیٹی کی رپورٹ 2006 کے مطابق ہے۔

سرکاری نوکریوں میں مسلمانوں کا فیصد
انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس 3 فیصد
انڈین پولیس سروس 4 فیصد
انڈین فورن سروس 1.8 فیصد
مرکزی پبلک ریجنل یونٹس 3.3فیصد
ریاست سطحی 10.8فیصد
بینک اور ریزرو بینک 2.2 فیصد

خیر میں بات کر رہا تھا نتیش حکومت کی جو موجودہ وقت میں عوام کے درمیان سے اعتماد کھوتا چلا جارہا ہے۔ آج بہار میں جرائم کسی حلقے میں نہیں بلکہ ہر جگہ موجود ہے جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے۔

موجودہ وقت میں ملک بھر میں سب سے زیادہ بدعنوانی بہار میں ہی دیکھی جارہی ہے۔ نتیش کے موجودہ اتحادی کو عوام دیکھ رہے ہیں لیکن سابق اتحاد والی حکومت میں سڑک، بین الاقوامی میوزیم، پولیس وائرلیس عمارت، بدھ میموریل پارک، پروجیکٹس پل، انٹرنیشنل کنونشن سینٹر میں جو گھوٹالے اوربدعنوانیاں ہوئی ہیں جس کی رقم بھی کروڑوں میں ہے اس پر حزب اختلاف کے لیڈر خاموشی سادھے ہوئے ہیں۔ کیونکہ اس میں وہ بھی حصہ دار ہیں۔ شاید آج کی سیاسی پارٹیاں نہیں جانتیں کہ آج کا شخص اتنا ہوشیار ہو گیا ہے کہ وہ ہر لمحہ بیٹھے بیٹھے سیاست کی روٹی کھاتا کھلاتا رہتا ہے۔

2015 بہار اسمبلی انتخاب کے نتائج کے بعد ایک نام پرشانت کشور کا بھی بہت چرچے میں رہا ہے۔ کوئی اسے نتیش کا چانکیہ تو کوئی اسے کرسی دلانے والا کہنے سے نہیں چوک رہا تھا۔ لیکن اصل بدعنوانی کی طرف تو کسی کی نظر ہی نہیں گئی کہ کس طرح اس شاطر نے حکومت کے خزانے پر ہاتھ صاف کرلیا۔

پرشانت کشور کی طرف سے ڈیزائن کیا ہوا ایک تشہیری پروگرام ’’بڑھ چلا بہار‘‘ بہار کے40,000 گاؤں میں چلانے کا حکم صرف ایک لیٹر کی طرف سے محکمہ رابطہ عامہ نے جاری کیا۔ یہ ٹھیکہ 12,000000 کروڑ کا تھا، پر اس کے لئے حکومت نے کوئی ٹینڈر کی ریلیز نہیں نکالی۔ جبکہ اصول کے مطابق ایک لاکھ روپے تک کے سرکاری ٹھیکوں کے لئے ٹینڈر ضروری ہے۔ پرشانت کشور کے پرفارم ’’سٹیزن الائنس‘‘ کو ہر ضلع رابطہ عامہ افسر کے ذریعے جبراً سرکاری خزانے سے کل 12,000000روپے ادا کرا دیا گیا۔ وہ بھی بغیر کام اور بغیر کسی ثبوت کے۔ ساتھ ہی نتیش کی شخصیت نوازی دیکھئے اتنا ٹھگی کرنے والے کو نتیش حکومت نے انعام کے طور پر اپنا مشیر( پالیسیاں اور پروگرام کو آرڈی نیٹر) کے طور پر مقرر کیا ہے۔

بہار کی عوام آج نتیش کمار سے جاننا چاہتی ہے کہ کیا یہی ہے انصاف ’’یہی ہے انصاف کے ساتھ ترقی ‘‘ یہی ہے نتیش کمار کا’’ سات رکنی نتیش ہدف ‘‘ عوام نے نتیش کمار پر بے پناہ اعتماد کیا ہے، اگر وزیر اعلیٰ اس اعتماد کو قائم نہیں رکھ پائے تو وہ دن دور نہیں کہ عوام دوسرا آپشن تلاش لے گی۔ اس لئے ریاستی حکومت اور انتظامیہ کو قانونی نظام کے تئیں سنجیدگی برتنی ہوگی۔ بہار کو جرائم سے پاک کرنا ہوگا۔ ڈر اور خوف کا ماحول نہ بنے اس کے لئے بھی ہوشیار رہنا ہوگا۔فرقہ پرست اُپدرو نہ مچا ئیں اس پر بھی گہری نگاہ رکھنی ہوگی حالانکہ ریاست میں اس کا آغاز ہوچکا ہے۔

آج ہمارے درمیان یہ سوال کوندھ رہا ہے کہ عظیم اتحاد میں رہ کر کیا نتیش کمار اپنے نعرہ’’انصاف کے ساتھ ترقی ‘‘ پر چل سکیں گے؟ کیا قانون کا راج اب بھی قائم رہے گا؟ اگر ایسا نہیں ہوا تو بہار کی عوام نتیش کمار کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔
Nazre Alam
About the Author: Nazre Alam Read More Articles by Nazre Alam: 5 Articles with 3173 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.