غفلت

ریں ریں ریں .........
ننھا حارث گلا پھاڑ پھاڑ کر رو رہا تھا جیسے آج رونے کے سارے ریکارڈ توڑ کر ہی دم لےگا !
باورچی خانے میں کام کرتی سارہ لپک کر آئ اور جلدی سے فیڈر اس کے منہ سے لگایا ، فیڈر منہ میں لیتے ہی بچہ بالکل خاموش ہوگیا .
اس کو دودھ پلانے کے بعد وہ دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگئ، بچوں کو سکول بھیجنے کے بعد گھر کے کاموں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ،
عرفان کے لیئے ناشتہ تیار کرنا، آفس کی تیاری میں ان کی مدد کرنا ، ان کےجاتے ہی بکھرا ہوا کچن سمیٹنا .....
سر دست یہ سب کام تو فوری کرنے کے ہوا کرتے. سو ان کاموں سےفراغت کے بعد وہ اپنے لیئے ناشتہ لے کر دستر خوان پر بیٹھ گئ ، ننھا حارث قریب ہی قلقاریاں مار رہا تھا اور ماں کے متوجہ ہونے پر تو اس کی خوشی کی انتہاء نہ رہتی .
چائے کی چسکیاں لینے کے ساتھ ساتھ اسلام اخبار کا مطالعہ بھی ہوتا رہا.اتنی دیر میں ڈور بیل ہوئ ، جا کر دیکھا تو کام والی ماسی تھی.
ماسی کو ہدایات دینے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے کام بھی نمٹارہی تھی.اپنے بیڈ روم کی حالت درست کی ، بیڈ کور بدلا، قالین پر بکھرے کھلونے سمیٹ کر ٹھکانے پر رکھے ، حارث کی چھوٹی چھوٹی چیزیں سنبھالنے میں ہی کافی ٹائم لگ گیا .
اس دوران ماسی کےہاتھ بھی چلتے رہے اور زبان بھی !
اس بیچاری کو اپنے دکھڑے رونےہی سے فرصت نہ ہواکرتی کہ دو گھڑی کےلئیے سارہ کی بھی سن لیتی. اسے ہر بات کےلئیے ٹوکنا پڑتا تب کہیں جاکر اس کی زبان کو بریک لگتی .
بیڈروم کے بعد لاؤنج سمیٹا اور پھر کچن کا رخ کیا. دوپہر کے کھانے کےلئیے بڑی بیٹی کی فرمائش کےمطابق بریانی پکانے کا ارادہ تھا.سو فریزر سے گوشت کا پیکٹ نکال کر پانی میں رکھا اور خود ماسی کو دیکھنے چل دی.
اسے کل کے دھوئے کپڑوں کا ڈھیر استری کرنے کا کہہ رہی تھی کہ حارث کے رونے کی آواز نے توجہ اپنی طرف مبذول کروالی.
بھاگم بھاگ اس کی خبر لی تو پتہ چلا کہ محترم اپنے کپڑے گیلے کرچکےہیں . اس کو صاف ستھرا کر کے اپنے ساتھ ہی لے آئ اور لاونج میں قالین پر کھلونے رکھ کر بٹھا دیا اور خود دوپہر کے کھانے کی تیاری شروع کردی.
اس دوران وقتا فوقتا حارث پر بھی نظر ڈالتی رہی. ساتھ ہی ساتھ کتنے ہی چھوٹے موٹے کام بھی ہوتے رہے .رائتہ اور سلاد بھی بنا کر فریج میں رکھ دیا .جب تک ماسی اپنے سب کاموں سے فارغ ہوئ تب تک سارہ بھی کچن کا کام مکمل کر چکی تھی. بریانی دم پر تھی.ماسی کو ہلکی پھلکی کھانے کی کچھ چیزیں اور چائے دے کر وہ بھی حارث کے پاس بیٹھ گئ. ماسی چائےکے دوران حارث سے باتیں کرتی رہی پھر سلام کرکے رخصت ہوگئ.
وین رکنےکی آوز پر وہ باہر لپکی ، ریحان اور طاہرہ سکول سے واپس آگئے تھے . اندر داخل ہوتے ہی انہوں نے زوردار آواز میں سلام کیا ، سارہ نے بچوں کی پیشانی چومی . اندر آکر بچوں نےحسب معمول حارث کو پیار کیا پھر اپنے اپنے بستے اپنے کمرےمیں لے جا کر رکھے.یونیفارم بدلے،منہ ہاتھ دھو کر آئے تو دیکھا کہ سارہ دسترخوان لگا کر ان کی منتظر تھی. بچے کھانے میں اپنی پسندیدہ ڈش دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور خوشی خوشی کھانا کھایا. ان کی خوشی دیکھ کر سارہ کو لگا کہ اس کی ساری محنت وصول ہوگئ ہے .کھانے سے فارغ ہو کر بچوں نے دستر خوان اٹھانے میں سارہ کی مدد کی . بچوں کو آرام کرنے کا کہہ کر اور حارث کو سلا سارہ کچن میں آگئ. اس کا ارادہ تھا کہ کھانے کے برتن دھو کر وہ کچھ دیر آرام کرے گی.
بستر پر لیٹتے ہی تھکاوٹ اور نیند سے اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں.عصر کی اذان کی آواز کان میں پڑی تو اس کے سوئے ہوئے حواس بیدار ہوگئے اور وہ ہربڑا کر اٹھ بیٹھی.
بچوں کو نماز کےلئے جگا کر خود وضو کے لئیے چل دی.
نماز سے فارغ ہوئ ہی تھی کہ ڈور بیل کی آواز سنائ دی ، گیٹ کھولا تو سامنے پچھلی گلی میں رہنے والی آنٹی نصرت کو کھڑے پایا جو محلے میں ہونے والے ہفتہ وار درس میں شامل ہونے کےلئیے اسے بلانے آئ تھیں .انہیں اندر بلا کر بٹھایا ، بچوں کو حارث کا دھیان رکھنے کی تاکید کی اور بڑی سی چادر لپیٹ کر آنٹی کے ہمراہ روانہ ہوگئ.
باجی کے گھر میں قدم رکھا تو ادراک ہوا کہ وہ لیٹ ہو چکی ہیں. تلاوت قرآن کے بعد نعت خواں اپنے خوبصورت لب ولہجے میں نذرانہ عقیدت پیش کررہی تھی.
جرم و عصیاں پہ اپنے لجاتا ہوا اور اشک ندامت بہاتا ہوا
تیری رحمت پہ نظریں جماتاہوا در پہ حاضر یہ تیرا گنہگار یے
کوئ سجدوں کی سوغات ہے نہ کوئ زہد و تقوی میرے پاس سرکار ہے
چل پڑا ہوں مدینے کی جانب مگر ہائے سر پر گناہوں کا انبار ہے......
سوز دل سے پڑھے گئے الفاظ دل کو چیر رہے تھے، سامعین کی آنکھوں سے خود بخود آنسو رواں تھے.اپنی کم مائیگی کا احساس شدت سے ہورہا تھا.
نجانے یہ جاں گداز لمحات کتنی صدیوں پر محیط ہوگئے تھے .
نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ختم ہوئ تو لوگ گویا اصحاب کہف کی طرح طویل خوابیدہ کیفیت سےباہر آئے.
اب محترمہ باجی صاحبہ نے درس کا آغاز کیا.سب ہمہ تن گوش ہوگئے.وہ فرما رہی تھیں کہ ....
ہمیں اس دنیا میں عظیم مقاصد دے کر بھیجا گیا ہے جن کے بارے میں ہم سے پوچھ گچھ ہوگی کہ ان کے حصول کےلئیے کتنی جدوجہد کی ؟ یہ زندگی ہمیں قرض حسنہ کے طور پر دی گئ ہے جس کے ایک ایک پل اور لمحے کےلئیے ہم جواب دہ ہیں.دن ازل سے چوبیس ہی گھنٹوں کا چلا آرہا ہے مگر اسی وقت کو لوگوں نے اپنی اپنی مرضی کے مطابق استعمال کیا اور کسی نے خود کو وقت کی بھٹی سے گزار کر کندن بنالیا تو کسی نے بے قیمت پتھر ہی بنے رہنے پر اکتفاء کیا.چونکہ اس کی قیمت عالم آخرت میں لگنی ہے تو اکثریت نے اسی دھوکے میں خود کو بربادی کے حوالے کردیا......
وہ بولتی جارہی تھیں اور سب دم بخود سن رہے تھے.
کچھ توقف کے بعد وہ دوبارہ گویا ہوئیں .
عزیز بہنو ! دراصل ہم سب ایک بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں اور وہ یہ کہ ہم سمجھتےہیں کہ دین اور دنیا دراصل دو متضاد چیزیں ہیں کہ ان کو بیک وقت حاصل نہیں کیا جاسکتا !
یہ ہمارے نفس اور شیطان کا سب سے بڑا دھوکہ ہے جس کا ہم شکار ہیں.دین تو دراصل کوڈ آف لائف ہے. زندگی کو عین فطری طریقے سے گزارنے کا مکمل طریقہ !
یوں تو زندگی حیوانات بھی گزارتے ہیں ، جمادات بھی اور نباتات بھی مگر سب کسی شرعی ضابطے کے پابند نہیں ، یہ فضیلت صرف جن و انس کو حاصل ہے کہ انہیں اس قابل سمجھا گیا کہ وہ اللہ کی مرضی کے پابند ہوں.اگر کوئ اس پر عمل کرنا چاہے تو اس کے لئیے یہ اتنا ہی آسان ہے جتنا کہ سانس لینا ، اس کے برعکس اگر کوئ اس سے دور بھاگنا چاہے تو اس کے لئیے یہ کوہ گراں سے کم نہیں.
آسان سی بات ہے کہ ہم نے ہر حال میں اس زندگی کو جینا ہے طوعا ہو یا کرہا تو کیوں نہ اس مہلت سے فائدہ اٹھایا جائے. "
سامعین میں سے ایک خاتون بول پڑیں:
" مگر اس کا آسان ترین طریقہ کیا ہوسکتا ہے؟ "
ہاں !یہ بات قابل غور ہے کہ اس کو کس طرح قابل عمل بنایا جائے !
تو ایک بات یاد رکھئے کہ ہم نے دنیا کا ہر وہ کام تو کرناہی ہے جو ہمارے لئے ناگزیر ہے مثلا اگر آپ ماں ہیں تو اپنےحصے کی تمام تر ذمہ داریاں آپ ہی کے ناتواں کندھوں پر ہیں.آپ کی ڈیوٹی دن کے چوبیس گھنٹے ، ہفتے کے سات دن بلکہ تاحیات ہے.تو آپ یہ بات اگر خود پر لاگو کرلیں کہ ہر قدم اٹھانے سے پہلے محض لمحہ بھر کےلئیے سوچ لیں کہ مجھے اس کام کی اجازت ہے یا نہیں ، اس ذات کی طرف سے جو میری زندگی کا مالک حقیقی ہے.کہیں میں اس کی دی ہوئ امانت میں خیانت کی مرتکب تو نہیں ہورہی!
ہر قدم پر محض اتنی سی سوچ ہمیں فرش سے اٹھا کر عرش پر لےجانے کے لئیے کافی ہے.
ایک اور بات یہ کہ کھانا تو ہم نے کھانا ہے، پانی بھی پینا ہے، سونا جاگنا بھی ہے. دکھ سکھ بھی زندگی کا حصہ ہیں تو ان سب کو ہم نے کرنا تو ہے ہی تو کیوں نہ ان سب کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری سنتوں سے سجا کر اور مزین کرکے کیا جائے تاکہ نور علی نور ہوجائے کہ ہم تو اپنی ضرورت پوری کررہے ہوں مگر سنت پر عمل کرنے کی وجہ سے ہمارے کھانے پینے ، اٹھنے بیٹھنے ، سونے جاگنے پر بھی ثواب مل رہا ہو تو اس سے زیادہ نفع بخش سودا ہمارے لیئے اور کون سا ہوگا بھلا ؟ ہم نے اپنے معمولات میں ذرا سی تبدیلی کرنی ہے کہ پہلے اگر اپنے طریقے سے کام کرتے تھے تو اب ان کو سنت کے تابع کرکے کرنا ہے.اور یہی شریعت کا مطمح نظر ہے.اور زندگی کی کامیابی کا راز بھی !
اس طریقے کو سیکھنے کے لئے چوبیس گھنٹے میں سے محض ایک گھنٹہ دینا ہوگا .اگر چند سال کےلئیے یہ معمول اپنا لیا جائے تو دین سیکھنے کا فریضہ بطریق احسن ادا ہو سکتا ہے.تو ہم میں سے کون کون اس فرض کی ادائیگی کے لئیے تیار ہے ؟ "
سارہ کی نظر میں دن بھر کی مصروفیات کی فلم چلنے لگی کہ سارا دن کس طرح پر لگا کر اڑ جاتا ہے . شاید اسی لئیے کہ ہم اس وقت کی زکوہ ادا نہیں کرتے جس کی وجہ سے ہر گزرتا پل ہمیں موت سے قریب تر مگر موت کی تیاری سے بعید تر کرتا جارہا ہے اور ہم غفلت کی نیند سورہے ہیں !
از قلم : بنت میر

 
Sadia Javed
About the Author: Sadia Javed Read More Articles by Sadia Javed: 24 Articles with 18604 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.