سرکاری سکولوں کے تئیں حکومت مخلص نہیں

”کیوں وزیر تعلیم یا حکومتی وانتظامی سطح کے افسران دور دراز علاقہ جات کے سرکاری سکولوں کی سالانہ تقریبات میں شرکت نہیں کرتے اور نجی تعلیمی اداروں کے پروگراموں میں شمولیت کو پر ہی زیادہ ترجیحی دی جاتی ہے“ ”سمارٹ کلاسز، ماڈل سکول، شبانہ کلاسز اور خصوصی ٹیوشن جیسے اقدامات کی ضرور ت پسماندہ ترین علاقہ جات میں ہے، جہاں تعلیم کے لئے غریب بچوں کا مکمل انحصار صرف سرکاری سکولوں پر ہے“

سرکاری سکولوں کے تئیں حکومت مخلص نہیں! حکمرانوں کا زیادہ رحجان نجی تعلیمی اداروں کی طرف

پی ڈی پی۔ بی جے پی مخلوط حکومت کی طرف سے اگر چہ سرکاری سکولوں کے اندر معیار تعلیم میں بہتری لانے کے لئے گذشتہ ایک برس کے دوران کئی انقلابی اقدام اٹھانے کے دعوے کئے گئے ہیںلیکن عملی طور ان کا کوئی بھی اثر پسماندہ علاقہ جات میں موجود سرکاری سکولوں میں دیکھنے کو نہیں مل رہا۔ جوبھی فیصلے حکومتی سطح پر لئے گئے وہ زیادہ تر قصبہ جات وشہروں تک ہی محدود ہیں۔ دور دراز اور دشوار گذار علاقہ جات میں موجود سرکاری سکولوں کی حالت جوں کی توں ہے، وہاں نہ تدریسی عملہ کی کمی پوری ہوئی، نہ ڈھانچہ میں بہتری آئی اور نہ ہی معیاری تعلیم کے فروغ کے لئے کئے جارہے دعوؤں کا کوئی اثر دیکھنے کو مل رہا۔ وزیر تعلیم نعیم اخترجنہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ سیکریٹریٹ کے گلیاروں میں ہی گذارا ہے، نے سمارٹ کلاسز، ماڈل سکول ،شبانہ کلاسز شروع کرنے اور جموں اور سرینگر میں دربار موو ملازمین کے بچوں کے لئے خصوصی ٹیوشن کا اہتمام کرنے کا آغاز کیا۔ سمارٹ کلاسز، سرکاری ماڈل سکول اور شبانہ کلاسز وغیرہ اٹھاکر اس شعبہ کی کایاپلٹنے کی بات کی۔لیکن موصوف کے یہ سب اقدامات صرف سرمائی راجدھانی جموں اور سرمائی راجدھانی سرینگراور ریاست کے دیگر اضلاع میں ضلع صدریازیادہ سے زیادہ تحصیل صدر مقامات پر ہی اٹھائے گئے ہیں، اس کے علاوہ دور دراز علاقوں کی طرف کوئی بھی نہیں دیکھ رہا۔اول توضلع و تحصیل صدر مقامات پرقائم سرکاری سکولوں میں بھی وہی بچے زیر تعلیم ہیں جن کی گھر سے مالی حالت قدربہتر ہے اور وہ اپنے گھروں سے سکول تک آنے وجانے کا کرایہ ادا کرسکتے ہیں۔دوئم قصبہ جات اور شہروں میں بڑی تعداد نجی تعلیمی اداروں کی ہے اورزیادہ ترلوگ اپنے بچوں کو نجی اداروں میں ہی تعلیم دلانے کو ترجیحی دیتے ہیں۔وزیر تعلیم نعیم اختر کو شاہد دور دراز اور پسماندہ علاقہ جات میں جاکر وہاں کی زمینی صورتحال، وہاں کی غربت، تعلیمی میعار کو جانچنے کا موقع نہیں ملا، ان کے لئے قصبہ جات اور شہر ہی سب کچھ ہیں ، اس لئے سرکاری سکولوں کا معیار بہتر بنانے کی جب با ت آتی ہے تو ان کے اقدام اور فیصلوں کو قصبہ جات وشہروں کو مد نظر رکھ کر ہی بنایاجاتاہے۔یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ آج بھی جموں وکشمیر کے اندر دور دراز اور پسماندہ علاقہ جات کے لاکھوں طالبعلم ایسے ہیں جن کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں کہ وہ ٹیوشن تو دور کی بات تحصیل وضلع صدرمقام تک آجاسکیں، ان طلبا وطالبات کا زیادہ انحصار صرف اپنے گاؤں یامضافاتی علاقوں میں موجود سرکاری سکولوں پر ہی ہوتا ہے جہاں وہ روزانہ دو تا تین کلومیٹر پیدل سفر طے کر کے جاتے ہیں۔سمارٹ کلاسز، ماڈل سکول ، شبانہ کلاسز اور خصوصی ٹیوشن کا انتظا م اگر دور دراز علاقہ جات میں کیاجاتا تو اس سے غریب لوگوں کے بچوں کو فائیدہ پہنچتا، انہیں اچھا تعلیمی ماحول میسر ہوتا۔صوبہ جموں میں پونچھ، راجوری، کشتواڑ، رام بن، ڈوڈہ، ریاسی، کٹھوعہ، اودھم پور، سانبہ اضلاع اور وادی کے دور دراز وپسماندہ علاقہ جات میں موجود ان سکولوں جہاں 300سے زائد طلبا کی تعداد ہے، پرعمارت محض 2یاتین کمروں پر مشتمل ہے، جہاں عمارت ہے پر تدریسی عملہ نہیں، جہاں تدریسی عملہ اور طلبہ بھی ہیں پر عمارت نہیں، جہاںاچھا تعلیمی ماحول نہیں، ایسے علاقوں میں سمارٹ کلاسز اور ماڈل سکول قائم ہوتے تو اس کا فائیدہ تھا۔شہروں اور قصبہ جات تک ہی ان کوششوں کو محدود رکھ کروزیر تعلیم نعیم اختربھی غریب کے بچوں کو معیاری تعلیم سے دور کرنے کی پالیسی پر عمل پیر ا ہیں۔شہروں اور قصبہ جات کے اندر جتنی بھی سمارٹ کلاسز یا ماڈل سکول قائم کئے جائیں 12ویں کلاس تک والدین اپنے بچوں کو نجی تعلیمی اداروں کے اندر ہی پڑھانے کو ترجیحی دیتے ہیں، پھر اتنا پیسہ کیوں برباد کیاجارہاہے۔کیایہ بہتر نہیں ہوتا کہ دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں ایسے سہولیات ہوتیں، جہاں نجی تعلیمی ادارے بھی نہیں اور طلبہ وطالبات کا مکمل انحصار سرکاری سکولوں پر ہی ہے۔ حقیقت میں دیکھاجائے تو حکومت سرکاری سکولوں میں معیاری حیات بہتر بنانے کے لئے مخلص ہی نہیں، اس وقت شعبہ تعلیم صرف چند لوگوں (اساتذہ)کی بازآبادکاری مرکز رہ چکے ہیں جہاں تعلیم پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔سرکاری سکولوں میں زیادہ تر اساتذہ سیاسی ورکرز ہیں، جن کے دم خم پر اراکین اسمبلی کامیابی حاصل کرتے ہیں ، اور بعد میں پر ان کے احسانوں کا بدلہ اس صورت میں چکایاجاتا ہے کہ انہیں سرمائی راجدھانی جموں/سرینگر یاریاست کے دیگر قصبہ جات وشہروں میں تعینات /ایڈجسٹ/اٹیچ کیاجاتا ہے اور کچھ کو ڈیپوٹیشن پر آگے پیچھے لگادیاجاتاہے تاکہ انہیں دو ر دراز علاقہ جات کے سکولوں میں نہ جانا پڑے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سرینگر اور جموں شہر وں کے اندر موجود سرکاری سکولوں میں بچوں کی تعداد گنی چنی ہے اور ان میں اساتذہ کی تعداد درجنوں میں ہے، خاص کر ان شہروں میں خواتین ٹیچروں کو تعینات کیاگیا ہے جوکہ بیوروکریٹیوں، سیاسی لیڈران کی اہلیہ، بہنیں، رشتہ دار وغیرہ ہیں۔ 10ویں ، 12ویں کے بورڈ امتحانات کے نتائج ہوتے ہیں تو اس میں بیشتر نجی تعلیمی اداروں کے طلباہی سرفہرست پوزیشنوں پر قابض ہوتے ہیں۔ اگرچہ پوزیشنیں نہیں تو پھر بھی سرکاری سکولوں کے بچے بھی اچھے نمبرات لیتے ہیں لیکن ان پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی، وزیر تعلیم اور دیگر محکمہ کے حکام بجائے سرکاری سکولوں کے بچوں کی حوصلہ افزائی کرنے ان کے گھر پر جاپہنچتے ہیں۔ ہر برس سرکاری ونجی تعلیمی اداروں میں سالانہ تقریبات منعقد ہوتی ہیں لیکن وزیر تعلیم، اراکین قانون سازیہ اور حکومت کے دیگر عہداداران جموں، سرینگر راجدھانیوںاور ریاست کے دیگر شہروں وقصبہ جات میں موجود نجی (پرائیویٹ)تعلیمی اداروں میں بطور مہمان خصوصی شرکت کرتے ہیں، کبھی کوئی وزیر کسی دور دراز علاقہ کے سرکاری سکول کی سالانہ تقریب میں شرکت کیلئے نہیں کیاگیا۔ وہ تو صرف نجی تعلیمی اداروں کی طرف سے بڑے بڑے آڈیٹوریم اور ہوٹلوں میں منعقد ہونے والی شیایان شان تقریبات میںجلوہ فروض ہوتے ہیں اور بچوں کی طرف سے پیش کئے جانے والے رنگا رنگ تمدنی وثقافتی پروگرام دیکھ کر خوب تالیاں بجاتے ہیں اور واہ واہ کرتے ہیں۔ اپنی تقریر کے دوران 30تا40ہزار روپے نقدی انعام کا بھی اعلان کرجاتے ہیں پر دوسری اور سرکاری سکولوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی کیونکہ یہاں غریب کے بچے زیر تعلیم ہیں، اگر سرکاری سکولوں میں تقریبات منعقد بھی ہونگیں تو اس میں وزیر کو جانا اپنی شان کے خلاف لگتا ہے۔ ضلع انتظامیہ جن میں خاص کر ضلع ترقیاتی کمشنر، ایس ڈی ایم، چیف ایجوکیشن افسر، سی ایم او ، بی ایم او تحصیلدار، بی ڈی او کے علاوہ پولیس انتظامیہ ایس ایس پی ، ڈی ایس پی، انسپکٹروغیرہ کے افسران بھی پرائیویٹ اداروں کی تقریبات میں ہی شرکت کو ترجیحی دیتے ہیں، ہر کوئی سرکاری سکولوں میں جانا نہیں چاہتا، انہیں اچھوت سمجھا جارہاہے۔حکومتی وانتظامی سطح پر سرکاری سکولوں کے تئیں اپنائی جارہے متعصبانہ اور امتیازی رویہ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت صحیح معنوں میں سرکاری سکولوں کے اندر معیاری تعلیم بہتر بنانا چاہتی ہے تو بہتر ہوگا کہ سمارٹ کلاسز، ماڈل سکول، شبانہ کلاسز اور ٹیوشن وغیرہ کا اہتمام دور دراز علاقہ جات کے سرکاری سکولوں میں کیاجائے۔ یہ روایت قائم کی جائے کہ وزیر تعلیم ریاست کے دور دراز علاقہ جات میں قائم سرکاری سکولوں کی سالانہ تقریبات میں حصہ لیں وہاں غریب بچوں کی حوصلہ افزائی کریں ، وہ بورڈ امتحانات یا دیگر سالانہ امتحانات میں جتنے نمبرات لیتے ہیں، انہیں انعامات سے نواز کر حوصلہ افزائی کی جائے جس سے انہیں تحریک ملے گی اور وہ بہتر سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ ہونا چاہئے کہ وزیر تعلیم ہربرس دور دراز علاقوں میں قائم دس بارہ سکولوں کی مشترکہ سالانہ تقریب میں حصہ لیں، اس کے علاوہ اراکین اسمبلی واراکین قانون سازیہ، محکمہ تعلیم اور بورڈ آف سکول ایجوکیشن کے حکام کو بھی اس کا پابند بنایاجائے کہ وہ سرکاری سکولوں کی تقریبات میں ہی زیادہ شرکت کریں، وہاں بچوں کی حوصلہ افزائی کریں۔نجی سکولوں کے طلباکو انعامات سے نوازنے، ان کی واہ واہ کرتے نہ تھکنے اور سرکاری سکولوں کے اندر معیاری تعلیم فراہمی کے اقدام کو محض قصبہ جات اور شہروں تک محدود رکھنے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں، ان دور دراز اور پسماندہ علاقوں پر خصوصی توجہ مرکوز کرنا ہوگی جہاں سرکاری سکولوں کے علاوہ تعلیم کا کوئی بھی ذریعہ نہیں۔

Altaf Hussain Janjua
About the Author: Altaf Hussain Janjua Read More Articles by Altaf Hussain Janjua: 35 Articles with 52946 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.