سات سوال

ناشتے کی میز پر پہنچا تو وہاں ایک کاغذ پڑا پایا، جس پر سات سوال تحریر تھے، بیگم نے اپنے روایتی انداز میں اس چِٹ کی مختصر وضاحت یہ فرمائی کہ ناشتہ سے پہلے اِن سوالوں کے جواب چاہیئں۔ میں نے تمام سوالوں کو غور سے پڑھا، ان سوالوں میں کوئی بھی نیا نہیں تھا، تاہم یہ شرط ذرا کڑی تھی کہ ’’تمام سوالوں کے جواب لازمی ہیں‘‘۔ دراصل گزشتہ رات ٹی وی پر بیگم نے اپوزیشن کے وہ سات سوال دیکھ لئے تھے جو انہوں نے وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کے لئے تیار کئے ہیں، کہ وہ اسمبلی میں آئیں گے تو ان سے معلوم کئے جائیں گے۔ میں نے بیگم کو سمجھایا کہ میرے اور میاں نواز شریف کے معالات کا آپس میں کوئی نسبت تناسب نہیں بنتا، وہ ملک کے وزیراعظم اور میں ایک گوشہ نشین ، کہ میرا دعویٰ ہے کہ میرے ہمسائے مجھے نہیں جانتے۔ پھر وہ اسمبلی میں صر ف اس وقت جاتے ہیں جب ان پر کوئی مشکل آتی ہے، اور میں گھر سے باہر اس وقت نکلتا ہوں جب کسی مشکل میں ہوتا ہوں۔ عجب تضاد ہے کہ میرا ہر وقت گھر پڑے رہنا بھی ناگوار ہے۔ میری ایک نہ سنی گئی، تمام توجہ فہرست سوالات پر مرکوز کرنے کا حکم دیا گیا۔

میرے جیسے طالب علمو ں کے لئے سوالات کا پرچہ حل کرنا ایک مشکل ترین کام ہوتا ہے، خاص طور پر جب اکثر سوالوں کے جواب نہ آتے ہوں۔ مشکل میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے جب ممتحن بھی سر پر کھڑا ہو۔ سچ جانئے ممتحن قریب بھی آجائے تو میرا ہاتھ رک جاتا ہے، خواہ مجھے کچھ آتا بھی ہو۔ بہرحال تازہ پرچہ ملاحظہ فرمائیے؛ ۱: آج ناشتہ کس چیز سے کیا جائے گا؟ ۲: دوپہر کو کیا پکے گا؟ ۳: کل کے لئے کونسے کپڑے استری ہونگے؟ ۴: مالکِ مکان کرایہ کا تقاضا کر رہا ہے، نصف ماہ گزر چکا ہے۔ ۵: شدید گرمی کا توڑ کیا ہوگا، کوئی منصوبہ بندی؟ ۶: اپنا گھر آخر کب بنے گا ؟ ۷: بچے کی میٹرک میں اردو میڈیم ٹیوشن کا آخر کار بندوبست کیا اور کب ہوگا؟ ان میں سے زیادہ سوال تو زیادہ مشکل نہ تھے، اور کئی سوالوں کا جواب ایک جملے کی بجائے ایک لفظ میں بھی موجود تھا، تاہم اس رویے سے مسئلے کے حل ہونے کی بجائے بگڑنے کا زیادہ خدشہ تھا۔ دوسری بات یہ کہ ان سوالوں کا آپس میں دور کا بھی تعلق نہیں، کہیں فوری طور پر ہونے والا ناشتہ ہے تو کہیں سالوں میں بننے والا مکان، کہیں گرمی کا توڑ ہے تو کہیں اردو میڈیم ٹیوشن کا مسئلہ۔ مگر بیگم بضد کہ سوالوں کے جواب دیئے جائیں۔ یہ طے تھا کہ (معقول)جواب آنے کی صورت میں ناشتہ ملے گا۔

جواب مختصر ہوتے یا طویل، مسئلہ یہ ہے کہ ایک جواب سے بھی کئی سوال نکلنے کے امکانات تھے، بہت غور وخوض کے بعد اسی نتیجے پر پہنچا کہ معاملہ کو ٹرخانا ہی بہتر ہے، کہا، سوچ کر جواب دوں گا! چونکہ کئی سوال فوری نوعیت کے بھی تھے، اس لئے اپنے جواب کو ہی غیر تسلی بخش پایا۔ تاہم ساتھ ہی پہلا ضمنی سوال برآمد ہوا کہ جب سوچ لیں تو بتا دینا، ناشتہ بھی تب ہی مل جائے گا۔ میں مزید سوچ میں پڑ گیا،’’یہ ناشتہ بھی عجیب چیز ہے، روزانہ ہی صبح سویرے اس سے واسطہ پڑتا ہے، جب صبح ہی معاملہ الجھ جائے تو دن کیسے گزرے گا؟ اسی طرح ’’آج کیا پکایا جائے‘‘ والا ایشو تو بہت ہی چِڑا دینے والا ہے۔ بھئی مَردوں کا اس سے کیا تعلق، خواتین خود فیصلہ کریں۔ مگر کرایہ تو آخر مردوں نے ہی لا کر دینا ہے، اور مہینہ صرف تیس دن میں پورا ہو جاتا ہے، ایسے محسوس ہوتا ہے ابھی چند روز قبل ہی تو کرایہ ادا کیا تھا۔ گرمی کا توڑ وہ شخص کیا کرسکتا ہے، جو مہینے بھر کا کرایہ بروقت ادا نہیں کرسکتا۔ کوئی بھی منصوبہ بندی وسائل سے جُڑی ہوئی ہوتی ہے، اگر وسائل ہیں تو سب کچھ ہو سکتا ہے، نہیں تو کوئی سوچ نہیں آتی۔ یہ سوال بھی عجیب ہے کہ آپ ناشتہ کرنے بیٹھیں اور سوال یہ ہو کہ اپنا گھر کب بنے گا؟ بھئی جب اﷲ تعالیٰ کو منظور ہوگا۔ یہ اردو میڈیم کی کہانی بھی کیسی خستہ اور بدحالی کا شکار ہے کہ اس کی کوئی ٹیوشن بھی دستیاب نہیں، انگلش میڈیم کی اکیڈمیاں گلی گلی میں موجود ہیں، حیرت کی بات ہے کہ پڑھانے والوں اور پڑھنے والوں کو دو لفظ انگلش کے نہیں آتے، مگر پڑھنی انگلش میڈیم ہی ہے․․‘‘۔ میں ان سوالات اور ان کے جوابات کے متعلق سوچ ہی رہا تھا ، کہ اچانک گھڑی پر نظر پڑی، دفتر سے تاخیر ہورہی تھی، میں نے اجازت چاہی اور دفتر روانہ ہوگیا، چلیں ایک ناشتہ والے سوال سے تو جان چھوٹی، مگر واپسی پر باقی چھ سوالوں سے فرار کب تک؟
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 430095 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.