ملکیت؟

خواتین کو اپنی ملکیت قرار دینے والے ہوشیار ہو جائیں، اب بلاول زرداری بھی میدان میں آگئے ہیں،انہوں نے مرد سیاستدانوں کے لئے ایک ٹویٹ کیا ہے، جس میں خواتین کے بارے میں مردوں سے کچھ گزارشات کی گئی ہیں۔ اگرچہ بلاول زرداری کے مخاطب سیاستدان مرد ہیں، مگر تاثر تمام مردوں کے بارے میں ابھرتا ہے۔ موصوف نے سیاستدانوں کے نام ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’’ پیارے ساتھیو! خواتین کو اپنی ملکیت قرار دینا بند کردیں، براہِ مہربانی خواتین کا حوالہ ’’ہماری خواتین‘‘ کہہ کر دینا چھوڑ دیں، خواتین کوئی جائیداد نہیں کہ جن کی ملکیت کا دعویٰ کیا جائے، یہ 2016ء کا زمانہ ہے، براہِ مہربانی ایسا کرکے ہمیں شرمندہ نہ کریں ․․․‘‘۔ یہاں ’ملکیت‘ کے لفظ کے پیچھے ایک مکمل نفسیات کارفرما دکھائی دیتی ہے، کہ سندھ کے جاگیر دار ہر چیز کو اپنی ملکیت بنا کر ہی رکھنا پسند کرتے ہیں، بلاول چونکہ باہر کے تعلیم یافتہ ہیں، اس لئے انہوں نے مذکورہ بیان اپنی تعلیم کے زیراثر دیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کے ہاں عورت کو ملکیت سمجھا جاتا ہے، ان کی تعلیم کا تقاضا ہے کہ عورت کو ملکیت نہ جانا جائے۔ ویسے تو سیاست کے معاملہ میں بلاول مکمل پاکستانی سیاستدان ہیں، اسی طریقے سے للکار، الزامات کا وہی انداز، مولاجٹ کا وہی سٹائل، حقائق سے اسی طرح آنکھیں چرانا، بے سروپا کی اسی طرح ہانکنا۔ اپنی سیاست میں مخالف کو للکارا نہ جائے تو عوام اپنے لیڈر سے خوش نہیں ہوتے۔ یوں بلاول صاحب بھی مجبوریوں کے چکر میں دہرے روپ کے ساتھ اپنے عوام کے سامنے آتے ہیں۔ وہ سیاست کے اصولوں کو بھی جانتے ہیں اور پاکستانی سیاست کو بھی خوب پہچانتے ہیں، ضرورت کے مطابق دونوں پر ہی عمل بھی کرتے ہیں۔

سیاستدان تو نہ جانے اس معاملے میں کیا ردّ عمل دیں گے، مگر ہم اس بات کے حق میں نہیں کہ عورت کو ملکیت قرار نہ دیا جائے۔ اگر ایک گھر ہے تو ہر رشتہ دوسرے کی ملکیت ہے، ماں ہے تو اس کی اولاد ، اولاد ہے تو اس کے والدین اور اجداد، بہن ہے تو بھائی، الغرض جتنے بھی رشتے ہیں وہ سب ملکیت ہیں، یہی وجہ ہے کہ اولاد اپنے والدین کو ’ہمارے والدین‘ ہی کہتے ہیں، والدین اپنی اولاد کو ’میری‘ یا ہماری ہی کہتے ہیں۔ حتیٰ کہ خاوند اپنی بیوی کو ’’میری بیگم‘‘ اور بیوی اپنے خاوند کو’’میرا خاوند‘‘ ہی کہتی ہے۔ صرف یہی نہیں ، سگے بہن بھائیوں سے لے کر کزن سسٹم تک بھی تمام لوگ ’’میرے‘‘ یا ’’ہمارے‘‘ ہی ہوتے ہیں۔ اس سوال کا جواب بلاول صاحب ہی دے سکتے ہیں کہ اپنی عزیز رشتہ دار خواتین کو ’’ہماری خواتین ‘‘نہ کہا جائے تو اور کس نام سے پکارا جائے؟ وہ اپنی بہنوں کو یقینا میری بہنیں ہی کہتے ہوں گے، اور ان کی بہنیں بھی یقینا ہمارا بھائی ہی کہتی ہوں گی، ان کا بھائی سلامت رہے، وہ اپنے بھائی کو ہمارا نہ کہیں تو کیا کہیں؟ یہ تو سگے رشتوں کی بات ہے، اپنے مشرقی معاشرے میں تو تمام خواتین کو احترام کی اسی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، جس سے اپنے خاندان کی خواتین کو۔ ہمارے دیہات میں اگر کوئی بہو بیاہ کر آتی تھی تو اسے گاؤں کی بہو تصور کیا جاتا تھا، اور جب کسی کی بیٹی کی شادی کسی اور گاؤں میں ہوجاتی تھی تو وہ پورے گاؤں کی بیٹی ہی کہلاتی تھی۔ یوں رشتے کا وہ تقدس قائم ہوتا تھا کہ رشک آتا تھا۔

شاعری بھی اس بات کی گواہی دیتی ہے، کہ ایک وقت آتا ہے جب انسان ’’تُو میرا، میں تیری‘‘ کی پوزیشن میں آجاتا ہے۔ شاعری میں اس قسم کی ملکیت کا بڑا ہی واضح تصور موجود ہے، اور اگر انسان ایک دوسرے کو اپنی ملکیت قرار نہ دے تو اصل اور گہرا اعتماد حاصل ہی نہیں ہو سکتا۔حتیٰ کہ ایک دوست بھی دوسرے کو ’’میرا‘‘ کہتا ہے تو اس سے بھی ملکیت کا تاثر ابھرتا ہے۔ اس سے دوسرے پر بھروسے کی انتہا ہوتی ہے کہ انسان خود کو دوسرے کے سپرد کردیتا ہے۔ بلاول زرداری کا اپنا کیس ذرا مختلف بھی ہے، ابھی ان کی زندگی میں ایسی خاتون شخصیت کی آمد نہیں ہوئی جنہیں وہ ’’اپنی‘‘ قرار دے سکیں، یوں ابھی ان کا ذاتی تجربہ بھی نہیں ہے، امید ہے جلد ہی وہ وقت آجائے گا جب وہ اس ملکیت کے معاملے کو جان لیں گے۔ اگر مرد سیاستدان خواتین کے لئے ’’ہماری خواتین‘‘ کا حوالہ استعمال کرتے ہیں تو ہماری خواتین بھی اپنے بھائی بندوں کے لئے ’’ہمارے مرد‘‘ کی اصطلاح ہی استعمال کرتی ہیں۔ بہرحال بلاول نے ٹویٹ کردیا ہے، باقی رہا سیاستدان مردوں کا ردّ عمل تو دیکھیں وہ موصوف کے ٹویٹ سے متاثر ہوتے ہیں یا اپنی پرانی دھن میں مگن رہتے ہیں۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428357 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.