سیاسی جلسے!

اپوزیشن کا مقابلہ کرنے کے لئے اب وزیراعظم بھی اپنے کسی مشیر کے کہنے پر میدان میں نکلے ہوئے ہیں۔ مقابلہ بنتا نہیں تھا، کیونکہ یہ مقابلہ صرف الیکشن سے قبل تک ہوتاہے۔ بعد میں تو ہر کوئی اپنے اپنے کام میں جُت جاتا ہے۔الیکشن کے بعد حکومت کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے عمل سے ظاہر کرے کہ ملکی ترقی میں کیا بہتری آئی، نظامِ تعلیم میں کیا تبدیلی آئی، ماحول کتنا بہتر ہوا، معاشرے کے حالات میں کتنی بہتری ہوئی، لوگوں کا معیارِ زندگی کتنا بلند ہوا؟ عوام کو کس قدر سہولتیں میسر آئیں، ان کی ضرورتیں پوری ہوئیں یا نہیں؟ الیکشن میں کامیابی سے محروم رہ جانے والوں کا اپنا طریقہ ہوتا ہے ، وہ حکومت کے کام پر تنقید کرے، اگر جمہوریت کے اصولوں کو مد نظر رکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اپوزیشن کی تنقید مثبت ہونی چاہیے، تنقید برائے تنقید سے اصلاح کے پہلو نہیں نکلتے۔ اگر اپوزیشن کی تنقید خرابیوں کو دور کرنے کے مشورے دینے کی ہے، تو جان لیجئے کہ اپوزیشن ملک وقوم کی حمایت میں کام کررہی ہے، اگر تنقید صرف بیانات کی حد تک ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معاملات کو بہترکرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔

اپوزیشن کو موقع چاہیے ہوتا ہے کہ حکومت سے کوئی ایسی غلطی سرزد ہو کہ اپوزیشن اس پر تنقید کے ڈونگرے برسائے۔ اپوزیشن کے پاس ایسے ماہرین ہوتے ہیں، جو بہت باریکی سے حکومت کے کاموں کا جائزہ لیتے اور ان پر تنقید کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ حکومت کے پاس بھی ہوتے ہیں، بلکہ ایک مکمل وزارت اسی کارِ خیر کے لئے موجود ہوتی ہے کہ اپوزیشن حکومت پر جو اعتراضات کرے، ان کا ’’مدلل اور شافی‘‘ جواب دینا اسی وزارت کے ذمے ہوتا ہے۔ فریقین کے لئے ایسے لوگ اس لئے بھی ضروری ہوتے ہیں کہ نہ جانے کس جماعت کو کب حکومت مل جائے اور کسی کو کب اقتدار سے محرومی کا صدمہ برداشت کرنا پڑ جائے۔ مگر بدقسمتی سے بعض اوقات حکومت ایسی دلدل میں پھنس جاتی ہے، جس پر اپوزیشن کو پوائنٹ سکورنگ کا بھر پور موقع میسر آجاتا ہے۔ گزشتہ دنوں سے پانامہ لیکس کے ہنگامے نے تمام معاملات کو دھندلا کر رکھ دیا ہے۔ اگرچہ وزیراعظم میاں نواز شریف کا ذاتی طور پر اس میں نام نہیں، مگر ان کے بچوں کی سرپرستی کا الزام انہی پر عائد ہوتا ہے۔ جواب دینے کی بجائے پہلے تو ان پر اس قدر نفسیاتی دباؤ پڑا کہ انہیں میڈیکل چیک اپ کروانا پڑا۔ جس کے لئے وہ خصوصی طیارے کے ذریعے لندن گئے، اس چیک اپ پر اپوزیشن نے کوئی خاص ہنگامہ نہیں کیا، اس کی ایک ہی وجہ ہے وہ یہ کہ اپنے بہت سے اپوزیشن لیڈر بھی چیک اپ اور علاج کے لئے باہر ہی جاتے ہیں۔ تاہم اس ضمن میں عوام نے بہت سی باتیں کیں، جن میں سب سے اہم یہ تھی کہ ملک پر سالہاسال سے حکومت کرنے والوں نے کوئی ہسپتال بھی اس معیار کا نہیں بنایا کہ جہاں اِن لوگوں کا میڈیکل چیک اپ ہی ہوسکے۔ حکمرانوں کے لئے یہ بات اگرچہ لمحہ فکریہ تھی، تاہم حکمرانوں نے اس پر فکرمندی کا اظہار اس لئے نہیں کیا کہ یہ اعتراض تو عوام کا ہے ، عوام کا کوئی مسئلہ نہیں۔

اب اپوزیشن نے اگر جلسے جلوس کا سلسلہ شروع کیا ہے، تو حکومت اپنے عمل سے ان کا جواب دیتی۔ پانامہ لیکس کے لئے اگر وزیراعظم نے سپریم کورٹ آف پاکستان کی نگرانی میں کمیشن بنانے کے لئے خط لکھ دیا ہے، تو اپوزیشن کو اس معاملے میں اعتماد کرنا چاہیے۔ مگر وزیراعظم کا بھی یہ کام نہیں کہ وہ بھی اپنا دفتر اور ذمہ داریاں چھوڑ کر اپوزیشن کے لوگوں (خاص طور پر تحریک انصاف کے قائد عمران خان) کو ہی واحد ایجنڈے کے طور پر ڈیل کریں۔ اپوزیشن کے اعتراضات کا جواب ان کے وزیر دے رہے ہیں، وزیراعظم نے قوم سے بہت خطاب بھی فرما لیئے ہیں۔ شاید ان تمام چیزوں سے وزیراعظم کی تسلی نہیں ہوئی، اور شاید انہیں مزہ بھی نہیں آیا، کیونکہ ’’․․․ اپوزیشن والے جانتے نہیں، ان کا واسطہ کس سے پڑگیا ہے، ہم گیدڑ بھبھکیوں سے ڈرنے والے نہیں،آپ کے کہنے پر گھر چلے جائیں، یہ منہ اور مسور کی دال، ہم عوام سے مینڈیٹ لے کر آئے ہیں ․․یہ ہے نیا پاکستان، پرانے پاکستان والے پشاور بیٹھے ہیں، یا دھرنے دے رہے ہیں ․․‘‘۔ وزیر اعظم کا یہ انداز ٹی وی پر تو نہیں دیکھا جاسکتا، یہ للکار، اکھاڑ بچھاڑ تو جلسوں میں ہی ممکن ہے، مگر وزیراعظم کے شایان شان نہیں۔ سیاستدان آپس میں الجھے ہوئے ہیں، سب نام تو عوام کی بہبود کا ہی لیتے ہیں، اور عوام نے ہی سب کو کاندھوں پر اٹھایا ہواہے، عوام نے ہی ان کو مولا جٹ بنایا ہوا ہے، نتیجے میں پِستے بھی عوام ہی ہیں۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428388 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.