بندہ مزدور کے اوقات!

محنت کشوں کے لئے کس قدر دلی طمانیت کی بات ہے کہ یکم مئی کو پوری دنیا انہیں یاد کرتی ہے، ان کے لئے تقریبات منعقد کی جاتی ہیں، ریلیاں نکالی جاتی ہیں، سیمینارز کا اہتمام کیا جاتا ہے، مذاکرے ہوتے ہیں، ہر بات کی تان مزدوروں سے اظہارِ یکجہتی پر ٹوٹتی ہے۔ اخبارات اپنے رنگین ایڈیشن شائع کرتے ہیں، چینلز خصوصی پروگرام ترتیب دیتے ہیں۔ مزدوروں کے مسائل اجاگر کئے جاتے ہیں، ان مسائل کے حل کی بات کی جاتی ہے، مزدوری کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے قبل دینے کی ہدایات کو یاد کیا جاتا ہے، ہاتھ سے کام کرنے والوں کی عظمت کا ذکر کیا جاتا ہے، ایسے مواقع پر مزدور رہنما میدان میں آتے اور اپنے جذبات سے قوم کو آگاہ کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ جب انسان ’لیڈر‘ بن جاتا ہے تو وہ روایتی مزدور نہیں رہتا۔ مزدور بیچارے کے پاس اتنا وقت کہاں سے آیا کہ وہ لیڈریاں کرتا پھرے، اس کے پاس تو اس قدر وقت بھی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے استحصال کے خلاف کسی احتجاجی ریلی میں ہی شرکت کرسکے۔ اسے اپنے وقت کو بہترین طریقے سے استعمال کرنا ہوتا ہے، اور وہ کام ہے صرف مزدوری۔ وہ نہ اپنے کام سے غفلت کرسکتا ہے اور نہ ہی ڈنڈی مار سکتا ہے، ایسا کرنا خود اس کی ذات کے لئے نقصان دہ ہو تا ہے۔ نہ وہ موسم کا پابند ہے اور نہ موسمیاتی شدت کا۔

مزدور کیا جانے کہ عالمی دن کیا ہوتے ہیں؟ ان کی اہمیت کیا ہے؟ اور ان کا فائدہ کیا؟ ان سے کیا حاصل ہوتا ہے اور ان کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ یہ عجیب دن ہے کہ جس کے بارے میں یہ منایا جاتا ہے وہ اپنے پیٹ کے ہاتھوں مجبور ہو کر سڑکوں پر روڑا کوٹنے، سارا دن مشقت کرنے، اپنی کمر پر وزن اٹھانے، اور دستی گاڑیوں کو کھینچنے دھکیلنے میں مصروف رہتا ہے، نہ وہ اخبار پڑھتا ہے، کہ وہ پڑھا لکھا نہیں، وہ ٹی وی نہیں دیکھ سکتا کہ دن میں اسے فرصت نہیں، اور نہ ہی اسے ٹی وی دیکھنے کے مواقع دستیاب ہیں۔ چنانچہ دن بھر کی مزدوروں کے عالمی دن کی سرگرمیوں سے وہ آگاہ نہیں ہوتا۔ تاہم ممکن ہے کہ کسی مزدور رہنما کی کسی دلیل وغیرہ کی روشنی میں حکومت کوئی ایسا قدم اٹھانے کا سوچ لے، جس سے مزدوروں کو کوئی فائدہ مل سکتا ہو۔ مگر ایسا بھی بہت کم ہوتا ہے۔ اگرچہ مزدور بچوں کا عالمی دن اس سے الگ ہے، مگر دیکھنے میں آیا ہے کہ چائلڈ لیبر میں کمی کا کوئی تصور نہیں، جتنی مہمات چلائی جاتی ہیں، جتنے اعلیٰ سطحی اجلاس بلائے جاتے ہیں، جتنے فنڈز ان پر لگائے جاتے ہیں، اور ان کے معاملے میں جتنے دعوے کئے جاتے ہیں، وہ تمام جھوٹ کے زمرے میں آتے ہیں، لاکھوں بچوں میں چند ایک ہی کی قسمت ہی چمکتی ہوگی، اور ان کا مستقبل سنورتا ہوگا۔

محنت کشوں کی حالت جوں کی توں ہے، ان کی اجرت کے معاملات بھی فائنل نہیں ہوسکے۔ حکومت اگر بتاتی ہے کہ مزدور کو کم از کم اجرت کتنی ملنی چاہیے، تو یہ اجرت دلوانے کا ذمہ دار کون ہے؟ شاید حکومت کو یہ بات یاد نہیں رہتی،وہ بس اعلان کرنے کے بعد بری الذمہ ہو جاتی ہے کہ ہم نے مزدوری بڑھانے کا اعلان تو کردیاہے، آگے مزدور جانے اور اس کی قسمت۔ عالمی یومِ مزدوراں کے موقع پر حکمرانوں کو ان کی معاشی اور سماجی حالت کو بہتر کرنے کے بارے میں کچھ غور بھی کرنا چاہیے۔ اول تو حکومت کی مقرر کردہ اجرت کوئی دیتا نہیں، بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کا اپنا کاروبار ہی اس مقام تک ہوتا ہے کہ مزدور کو چھ سات سو روپے روزانہ تک ہی دے سکتا ہے، اور بعض اوقات اس سے بھی کم۔ مزدور کی اس قسم کی حالت بھی دیکھئے، جوچھوٹے چھوٹے نجی اداروں میں ملازمت کرتے ہیں، ان کی یومیہ اجرت عام مزدور سے بھی کم ہوتی ہے، بسا اوقات ادارہ بھی افورڈ نہیں کرتا۔ مزدور کا استحصال تو بہر صورت نہیں ہونا چاہیے، مگر حکومت کا یہ فرض بھی ہے کہ وہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو کسی حد تک تو کنٹرول کرے کہ مزدور انہیں خریدنے کی پوزیشن میں آجائے۔ انہیں تعلیم اور صحت وغیرہ کی سہولتیں تو مفت ہی میسرآنی چاہیئں، اس کے علاوہ بجلی، پٹرول اور خوردونوش کی اشیا سستے داموں دستیاب ہونی چاہیئں، تاکہ وہ کم آمدنی میں بھی اپنا گزارہ کرسکے۔ حکمرانوں کے میگا پراجیکٹس اور غریب عوام کے لئے ان کے دعوے غریبوں کے دلوں پر تیِر چلاتے ہیں۔ غریب کا نام تو استعمال کیا جاتا ہے، مگر عملی طور پر اس کی مجبوریوں اور ضروریات کا خیال نہیں رکھا جاتا۔
 
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428425 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.