عقلمند بنیں

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

بل کھاتے پہاڑی راستوں پر گاڑی رواں دواں تھی محمود اور اس کے گھر والے قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے ، محمود ڈرائیور کے برابر والی نششت پر تھا، خوش گوار موڈ میں ڈرائیور سے بات چیت ہو رہی تھی ، باتوں باتوں میں محمود نے ڈرائیور سے اس کے پیشے سے مطالق سوال کیا کہ کب سے وہ اس ڈرائیوینگ کے پیشے سے منسلک ہے ،ڈرائیور نے جواب دیا کہ یہ میرا خاندانی پیشہ ہے میرے باپ،دادا بھی انہی راستوں میں گاڑی چلاتے تھے ، اب کیا کرے ہیں۔۔محمود نے سوال کیا، انکا انتقال ہو چکا۔۔۔کیسے؟ ۔۔ ڈرائیور نے کہا کہ گاڑی کے کھائی میں گرنے سے۔۔۔ یہ سنتے ہی محمود کا موڈ آف ہو گیا ، خوف نے اس کو آگہرا، اس نے ڈرائیور سے کہا کہ تم ان راستوں پر روز گزرتے ہو تمہیں خوف نہیں آتا کہ تم بھی اس طرح مر سکتے ہو۔۔۔۔ ڈرائیور ، محمود کے خوفزدہ ہونے کو محسوس کر چکا تھا، اس نے محمود سے سوال کیا کہ تمھارے باپ دادا کا انتقال کہاں ہوا، محمود نے جواب دیا کہ ً گھر میں ً ڈرائیور نے کہا کہ تمہیں خوف نہیں آتا کہ ایک دن تم بھی گھر میں مر جاؤ گے۔۔۔

موت کا ایک دن مقرر ہے اس سے پہلے وہ آ نہیں سکتی بعض لوگوں کو موت کا اس قدر خوف ہوتا ہے کہ نفساتی مریض بن جاتے ہیں ، حالانکہ وہ تو وقت مقرر پر ہی آئے گی، حضرت خالد بن ولید ؓ نے فرمایا کہ شہادت کے حصول کے لئے ہر پرخطر جگہ گیا لیکن یہ سعادت مجھے نہ ملی ، اور جب انسان پر وقت آ جاتا ہے تو مچھر اور مکری بھی ذریعہ بن جاتے ہیں، اور اگر وقت نہ ہو تو مرنا چاہے بھی تو نہیں مر سکتا، ایک صاحب خود کشی کرنے کے لئے ساتویں منزل سے کود گئے لیکن نیچے کسی شخص پر گرے وہ تو مر گیا یہ بچ گئے ، فلسطین کے سربراہ یاسر عرفات جن کی ایک زمانے میں اتنی شہرت تھی کہ گلی گلی ان کی تصویریں لگی ہوتی تھیں کہ بچہ بچہ ان کو جانتا تھا ، اسرائیل نے ان کی گرفتاری کے ورانٹ جاری کیے ہوئے تھے وہ ایک بس میں سوار وہوئے ، اسرائیل کے خفیہ ادروں نے اطلاع دی کہ یاسر عرفات کسی بس میں سوار ہیں انکو گرفتار کر لیا جائے ، سکیورٹی ادارے الرٹ ہو گئے ہر بس کو روک کر تلاشی لی گئی ، اس بس کو بھی روکا جس میں یاسر عرفات سوار تھے ، سکیورٹی والوں نے ایک ایک کو دیکھا لیکن یاسر عرفات کو پہچان نہ سکے۔

اﷲ تعالی بچانا چاہے تو کوئی مار نہیں سکتا اور اگر وقت آجائے تو سارے انتظامات دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں ایک شخص نے کسی بزرگ سے کہا کہ حضرت میں آج مرتے مرتے بچا ہوں ، ان بزرگ نے فرمایا کہ ایک دن بچتے بچتے مر جاؤ گے۔ہمارے ایک عزیز جنہوں نے امریکہ میں مستقل سکونت اختیار کر لی تھی پچھلے دنوں کسی کام سے کراچی آئے تو کہنے لگے کہ آپ لوگوں کو یہاں رہتے ہوئے خوف نہیں آتا ، پھر اپنے ملک کو برا بھلا کہنے لگے اور امریکہ کی تعریف کے گن گانے لگے ، جلدی جلدی کام نمٹا کر امریکہ چلے گئے، امریکہ سے خبر آئی کہ کسی نے انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔واقعہ مشہور ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلا م کی مجلس میں حضرت عزرائیل علیہ السلام حاضر ہوئے اور ایک شخص کو گور کر دیکھنے لگے اور تشریف لے گئے ، جن صاحب کو گور رہے تھے انہوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے دریافت کیا کہ یہ کون تھے حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا کہ ملک الموت، یہ سن کر ان پر خوف طاری ہو گیا ، عرض کیا کے مجھے ہی گور رہے تھے مجھے ڈر لگ رہا ہے آپ علیہ السلام ہوا کو حکم دیں کے مجھے وادی فلاں میں پہنچا دے، حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہوا کو حکم دیا اور وہ ان کی بتائی ہوئی جگہ پہنچ گئے، کسی دوسرے وقت حضرت عزرائیل علیہ السلام ، حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس حاضر ہوئے تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے دریافت کیا کہ آپ فلاں شخص کو کیوں گور کر دیکھ رہے تھے ملک الموت نے عرض کیا کہ مجھے وادی فلاں میں اس شخص کی روح قبض کرنے کا حکم تھا ، میں حیران تھا کہ یہ تو یہاں بیٹھا ہوا ہے ، پھر اس نے خود ہی آپ سے وہاں پہنچنے کی درخواست کی ،یہ وہاں پہنچا اور میں نے اس کی روح قبض کر لی۔

موت ایک ایسی حقیقت ہے جو ہر حال میں آ کر رہے گی ۔ کہاں؟ کس وقت؟ یہ کسی کو نہیں بتایا گیا ، اس لئے ہر لمحے تیار رہنا چاہیے ، گھڑی کی سوئی کا کانٹا جو چل رہا ہے یہ ایک ہتھوراہے جو ہماری عمر پرضرب لگا کر اسے ختم کر رہا ہے۔ جو سال، مہینہ،ہفتہ،دن،گھنٹہ،منٹ،سیکنڈگزر گیا وہ کبھی واپس نہیں آئے گا ، بچے،بوڑھے،جوان ہر قسم کے لوگ جارہے ہیں ، ہم اپنے ہاتھوں سے دفن کرتے ہیں ، ایک دن ایسا آئے گا کہ ہمیں بھی دفنا دیا جائے گا ، بڑے بڑے بادشاہ ، حکمران جن کے نام سے لوگ کانپتے تھے ،موت نے سب کو دبوچ لیا ، بڑے بڑے پہلوان جنہیں کوئی نہ پچھاڑ سکالیکن موت سے سب شکست کھا گئے۔
ہوئے نام ور بے نشان، کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں، کیسے کیسے

کیا جانے کے لئے ہماری تیاری مکمل ہے؟کیا چھوٹی ہوئی نمازیں ادا ہوگئیں یا ہو رہی ہیں؟ کسی کا قرض ہے تو ادائیگی کی کیا فکر کی؟ پناما لیکس نے پوری دنیا میں ہلچل مچا دی ہے آف شور کمپنی ملکان اربوں کے مالک ہونے کے باوجود بے چینی اور خوف میں مبتلا ہیں ، روز تبصرے ہو رہے ہیں ،لیکن کیا ہم میں یہ فکر پیدا ہوئی کہ ہم سے بھی ایک دن یہ سوال ہونے والا ہے کہ ً مال کہاں سے کمایا تھا اور کہاں خرچ کیا؟ اس سوال کے جواب کی کیا تیاری کی؟ کسی کو اذیت دی ہے تو معافی مانگ لی؟کیا حج فرض ادا ہو گیا ، نہیں تو اسی سال ادائیگی کی فکر کر لیں، ہر شخص چاہتا ہے کہ میرا شمار سمجھداروں میں ہو ، موت سے پہلے موت کی تیاری میں لگ کر اپنا شمار عقلمند میں کر لیں۔
Ilyas Katchi
About the Author: Ilyas Katchi Read More Articles by Ilyas Katchi: 40 Articles with 35851 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.