وقت کی کروٹ پاکستان کی بقاء کے حق میں

 دنیا میں سات ایسے حادثات ہوئے جن کے نتائج مثبت ثابت ہوئے اور دنیا میں انقلاب برپا کر دیاجن میں سب سے پہلا حادثہ مشہور سائنسدان نیوٹن کے ساتھ ہوا کہ جب وہ ایک سیبوں کے پیڑ تلے لیٹا ہوا تھا کہ اچانک ایک سیب ٹہنی سے ٹوٹ کو اس کے سر میں لگا جس پر نیوٹن سوچنے لگ گیا کہ آخر یہ سیب ٹوٹ کر نیچے کیوں گرا ہے اوپر بھی تو جا سکتا توتھا یا دائیں بائیں کہیں اور جس پر کافی سوچ بچا رکے بعد نیوٹن نے کشش ثقل کا قانون متعار ف کروایا جس سے پوری دنیا کو اب یہ علم ہے کہ کوئی چیز جو اوپر سے نیچے کو آتی ہے ایک خاص بلندی سے وہ کشش ثقل کی وجہ سے زمین پر گرتی ہے اور خلا میں کشش ثقل زیرو ہے اس لئے وہاں اشیاء معلق ہو جاتی ہیں اسی طرح ایک سا ئنسدان الفریڈ نوبل جو نائٹرو گلیسرین کو حادثاتی طور پر پھٹنے سے بچانے والے لائحہ عمل پر غور کر رہا تھا کہ اچانک نائٹرو گلیسرین کا کلسٹر لیک ہو گیا جس سے نائٹرو گلیسرین پاس ہی پڑے ہوئے مٹی کے برادے میں جذب ہو گئی اور دھماکہ نہیں ہوا بعد میں مزید تحقیقات سے کنٹرول ڈائنا مائٹ تخلیق کیا گیا،مشہور کیمسٹ چارلس گڈئیر سلفر اور سیسے کے آمیزے پر غور کر رہا تھا کہ حادثاتی طور پر وہ آمیزہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر جلتے چولہے پر گر گیا چارلس نے دیکھا کہ آمیزہ آگ میں پگھلنے کی بجائے ٹھوس ہو گیا جس پر مزید مشاہدہ کرنے پر حقیقت سامنے آئی کہ وہ چیز باہر سے ٹھوس اور اندر سے نرم تھی جس سے بعد میں گاڑیوں کیلئے ٹائر بنائے گئے ،مشہور ڈاکٹر الیگزینڈر فلیمنگ انفلوئنزا کے جراثیموں پر تحقیق کرر ہا تھا جس کیلئے اس نے بیکٹیریا کی گروتھ کروانے کیلئے کلچر بنایا اوراسے کچھ دن کیلئے ایسے ہی چھوڑ دیا اس کے بعد اسنے غور کیا تو اس کلچر پر ایک پھپھوندی کی شکل میں نئی افزائش ہو چکی تھی جہاں وہ بیکٹیریا ناپید تھے تو اس طرح حادثاتی طور پر پینیسیلین دریافت ہو گئی جو کہ بیکٹیریل انفیکشن کے خلاف ایک ہم پیش رفت ثابت ہوئی،انجینئیرپرسیئس سپنسر میگنٹ ٹرون کی تخلیق پر کام کر رہا تھا کہ تابکار شعاعوں کو ٹھیک سے ریفلیکٹ کر وا کر اس کو مفید بنایا جا سکے جو آلہ وہ بنا چکا تھا اسے اسنے سورج کی روشنی میں تجربہ کرنے کیلئے سامنے کیا تو ان شعاعوں کی ریفلیکشن اس کی جیب میں پڑی چاکلیٹ پر پڑی تو وہ چاکلیٹ پگھل گئی لیکن اسکے کپڑے اور وہ خود سلامت رہا جس پر مزید تحقیق کے طور پر اسنے ایک پیالہ میں مکئی کے دانوں پر ریفلیکشن کروائی تو وہ دانے بھن گئے لیکن پیالہ صحیح سلامت رہا اور پھر مزید مشاہدات کے بعد مائیکرو ویو اوون ایجاد ہوا،مشہور ادویات بنانے والی کمپنی فائزر نے دل کے عارضے میں مبتلا مریضو ں کی شریونوں میں خون کے بہاؤ کو مستحکم رکھنے کیلئے سلڈینا فل سٹریٹ دوا تیار کی اور پھر اسے مختلف دل کے عارضے میں مبتلا مریضوں پر ٹیسٹ کیا لیکن حادثاتی طور پر اس دوا نے دل کو فائدہ دینے کی بجائے جنسی طور لوگوں کو افادیت دی اور اس طرح وگرا گولی بنائی گئی ۔اور ساتواں حادثہ جس نے پاکستان میں انقلاب برپا کر دیا ہے وہ ایک سپورٹس کار حادثہ ہے جس میں دو انجینئیر کور کے لیفٹیننٹ کرنل شکیل اور میجر یاسر شہید ہوئے جس پر ایف سی کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں کار ایکسیڈنٹ بنا کر معاملے پر مٹی ڈالنے کی کوشش کی گئی لیکن شہداء کے وارثان کے پر زور اسرار پر سربراہ افواج پاکستان نے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی جسکی باگ ذمہ دار اعلیٰ فوجی افسر کو سونپی گئی جس پر تحقیقات کی گئیں تو معلوم ہوا کہ ایک نان کسٹم پیڈسپورٹس کار افغان بارڈر سے پکڑی گئی تھی جسے ایف سی کے میجرجنرل کو گفٹ کر دی گئی اور اس میجر جنرل نے بھی انجمن افزائش نسل کا خیال کرتے ہوئے آگے اپنے سپوت کو تحفے میں دے دی۔فرزند میجر جنرل نے اپنے باپ کے ساتھ گاڑی کی شکایت کی کہ سپورٹس کار ہونے کے با وجود اس گاڑی میں وہ دم نہیں ہے جو ایک سپورٹس کا ر میں ہونا چاہئے جس پر اس میجر جنرل نے اپنے ماتحت افسروں کو حکم دیا کہ وہ کار کی ٹیسٹ ڈرائیو کرنے کے بعد جو مسئلہ پیش نظر ہو ا سے جلد سے جلد ٹھیک کر کے دیں ۔انجینئیر کو ر کے وہ دو جوان دوران ٹیسٹ ڈرائیو ایک حادثہ میں موقع پر جاں بحق ہو گئے اس بے لوث اور مثبت پیش رفت سے ایف سی کے افسران بالا کی کرپشن پکڑی گئی اور اس سپورٹس کار کے بارے میں معلوم پڑا کہ وہ کیسے افغان بارڈر سے پکڑی گئی اور سرکاری خزانے میں جمع کروانے کی بجائے اس کی نظرو نیاز کی گئی سپورٹس کار حادثے میں دو نوجوان تو شہید ہوئے لیکن کہتے ہیں فوجیوں کی قربانی رائیگاں نہیں جاتی اسلئے مزید تحقیقات کے دوران بارہ انتہائی اہم عہدوں پر فائز ایف سی کے افسران پر کرپشن ثابت ہونے کی وجہ سے ان کو فارغ کر دیا گیا ۔اس طرح یہ سلسلہ اب چل نکلا ہے جب انتہائی اہم اور بڑے ادارے میں احتساب ہوا اور فوری اس پر ایکشن لیتے ہوئے سزاؤں پر عملدرآمد کیا گیا ہے تو احتساب کا لفظ زبان زد عام ہو گیا ہے اور اس طرح سیاسیوں نے بھی اپنی سیاست کو چمکانے او ر اپنی طرف سے انگلی ہٹانے کیلئے دوسروں پر انگلی اٹھانا شروع کر دی ہے اور کہیں لوگوں نے مختصر دلائل کے ذریعے اپنی صفائیاں پیش کرنا شروع کر دی ہیں تو کہیں دھمکیاں شروع ہو گئیں ہیں کہ اگر کمیشن ہماری مرضی کا نہ بنایا گیا تو ہم دکھائیں گے کہ کمیشن کیا ہو تا ہے ۔ملک میں پاناما لیکس اور کرپشن کو لے کر بگڑتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے حکومتی جماعت سمیت دیگر افراد جو اس طرح کی غیر اخلاقی حرکات اور ٹیکس چوری سمیت کرپشن میں ملوث ہیں نہایت تشویش میں لا حق ہیں کہ کس طرح سے اس آفت سے نکلا جائے ۔اس معاملے میں وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے انتہائی اخلاقی جرأت سے کام لیتے ہوئے صفائی پیش کرنے کیلئے دو مرتبہ قوم سے خطاب کر لیا ہے اور دونوں مرتبہ کمیشن بناکر تحقیقات کرنے پر زور دیا ہے حالانکہ وہ زیادہ بہادر تو نہیں ہیں کیونکہ جب پاکستان میں بھارتی مداخلت سامنے آ گئی ہے پھر بھی بھارت کے خلاف کوئی بیان اور کوئی پریس کانفرنس نہیں کی گئی تھی لیکن پھربھی یہ ایک بڑی اخلاقی جرأت ہے کہ وہ قبول تو کر رہے ہیں کہ ٹھیک ہے میں خود کو احتساب کیلئے پیش کرنے کو تیار ہوں اور انہوں نے سابقہ دور حکومت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی والی غلطی بھی نہیں دوہرائی اور خط لکھ کر عظیم سیاست دان ہونے کا ثبوت پیش کیا ہے ۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب جنرل راحیل شریف نے کہا کہ احتساب اور کرپشن کا خاتمہ ضروری ہے اور اس میں بلا امتیاز کاروائی کی جائے گی تو میاں صاحب کیوں عوام سے خطاب کرنے چلے آئے اور اپنی صفائیاں دینے کے ساتھ ساتھ کمیشن بنانے پر زور دیتے رہے؟؟ ایک طرف سے کہتے ہیں کہ میں کسی کا پابند نہیں ہوں میں صرف کمیشن کے سامنے جواب دوں اور پھر قوم سے معافی مانگنے کی بات بھی کرتے ہیں ؟؟ لیکن یہ بات بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان ایک ایسی سرزمین ہے جسکے بارے میں ہمارے نبی ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے یہاں سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے اور قائد اعظم جب یہاں کی عوام سے بد ظن ہو کر چلے گئے تھے تو انہوں نے اپنے واپس آنے کی وجہ بیان کی تھی کی میرے خواب میں محمد ﷺ آئے اور انہوں نے کہا کہ یہ ملک ضرور آزاد کرواؤ اسی طرح تاریخ گواہ ہے کہ 1965 ؁ء کی جنگ لڑنے والے غیور غازی آج بھی کہتے ہیں کہ ہماری غیب سے مدد ہوئی اور دشمن بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ جب دشمن ملک کا ایک ہیلی کاپٹر گرایا گیا تو اس میں ایک بھارتی فوجی زندہ پکڑا گیا جس نے برملا سوال کیا تھا کہ بتاؤ تمہاری وہ فوج کونسی ہے جو سفید گھوڑوں پر سوار ہو کر لڑتی ہے مطلب یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس ملک پاکستان کو الگ سے اسلامی ریاست بنانے کے پیچھے کوئی مقصد ضرور ہے کہ لوگ اور حکمران جتنا بھی اس کو لوٹ کر کھا رہے ہیں جتنی بھی اس کے ساتھ بد دیانتی کر رہے ہیں لیکن یہ قائم ہے اور یہ اس وقت تک قائم رہے گا جب تک اس کے بنانے کا مقصد پورا نہیں ہو جاتا اور ایک ایسی حقیقت جس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے وہ اس بات پر قادر ہے کہ اپنا مقصد لینے کیلئے پوری نسل تباہ کر دے اور اسکی جگہ اور نسل لے آئے اسی لئے یہ استغفار کا وقت ہے ہم نے جو بھی گناہ کئے ہیں ان کی توبہ کر کے اللہ کے راستے پر چلنے کی ہر ممکن کوشش کر کے اس کی رضا کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہونے کی تیاری کرنی چاہئے۔

نو ٹ :۔یہ تحریر میں ملکیت ہے کوئی بھی اس کو چرانے یا اس میں ہیرا پھیری کرنے کی کوشش کرے تو میں اس کے خلا قانونی چارہ جوئی کا حق محفوظ رکھتا ہوں۔
احقر:۔ شفقت اللہ

Malik Shafqat ullah
About the Author: Malik Shafqat ullah Read More Articles by Malik Shafqat ullah : 235 Articles with 167586 views Pharmacist, Columnist, National, International And Political Affairs Analyst, Socialist... View More